دنیابھرسے

’ٹائیفائیڈ میری‘: نیویارک میں امیر گھرانوں کی ایک ملازمہ کس طرح سازش اور تنازع کا باعث بنی

Share

کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب دنیا بھر میں ہر اخبار، ہر خبرنامے اور ہر ویب سائٹ پر صرف صحت کے عالمی بحران اور اس کے خلاف جاری سائنسی جدو جہد کی ہی خبریں بھری ہوں گی۔

لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ کوئی عالمی وبا لوگوں کے ذہنوں پر چھا گئی ہو۔

اس سے پہلے ہسپانوی فلو نے سنہ 1918 اور 1920 کے درمیان دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی متاثر ہوئی تھی اور ایک کروڑ ستر لاکھ سے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

لیکن اس سے بھی پہلے ‘ٹائیفائیڈ میری’ کی غیر معمولی کہانی ہے جس میں آئرلینڈ سے امریکہ آنے والی ایک خاتون جو نیویارک میں باورچی یا خانساماں کے طور پر کام کرتی تھیں، 20ویں صدی میں ہلاکت، سازش اور تنازع کا باعث بنی تھیں۔

آئرش خانسامے کا مخصوص پکوان

اس کہانی میں ایک موڑ پر نوجوان میری مظلوم نظر آتی ہیں اور دوسرے موڑ پر وہ ظالم یا ولن۔ لیکن یقینی طور پر اس نے نیویارک اور وسیع تر دنیا میں پہلی عالمی جنگ سے قبل وباؤں سے متعلق ایک بحث چھیڑ دی تھی۔

میری میلن آئرلینڈ کی کاونٹی ٹائرون کے قصبے ککس ٹاؤن میں سنہ 1869 میں پیدا ہوئیں لیکن نوعمری ہی میں انہوں نے بہتر زندگی کی تلاش میں ہجرت اختیار کی اور نیویارک منتقل ہو گئیں۔

سنہ 1900 میں وہ نیویارک شہر کے امیر خاندانوں کے یہاں باورچی کا کام کرتی تھیں۔ ان کا مخصوص پکوان یا ڈش ‘پیچ آئی کریم’ تھی۔

میری ٹائفائیڈ

اس دور میں دس سے بیس لاکھ کے درمیان افراد امریکہ میں گھریلو ملازمتیں کرتے تھے اور ان میں باورچی یا کک ہونا ایسے ہی تصور کیا جاتا تھا جیسے کسی قلعے میں کوئی رانی ہو۔

آپ کو خانساماؤں یا دیگر ملازمین کی نگرانی کرنی ہوتی تھی، باورچی خانے کی خریداری کرنی ہوتی تھی اور اگر آپ اپنا کام بہتر طور پر نبھا سکتی ہیں تو پھر آپ اپنے مالک کے لیے صرف میری میلن نہیں بلکہ محترمہ میلن بن جاتی تھیں۔

نیویارک کو ایک مہلک بیماری نے آن لیا

میری میلن مین ہیٹن کے پرتعیش علاقے میں کام کرتی تھیں لیکن حالات جیسے نظر آتے تھے ویسے نہیں تھے۔

میری نے سنہ انیس سو اور انیس سو سات کے درمیان سات مختلف گھروں میں کام کیا۔ ان میں سے آخری پارک ایونیو تھا اور ان تمام گھروں میں لوگ بیمار پڑے اور مر گئے۔ لیکن ہر مرتبہ وہ وہاں سے نکل کر دوسری جگہوں میں کام لینے میں کامیاب ہو گئیں۔

نیویارک شہر میں اوسٹر بے سے لے کر ففتھ ایونیو تک کے امیر گھرانے جہاں میری کام کرتی رہی تھیں وہ دم بخود تھے۔

ٹائیفائیڈ ایک مہلک بیماری ہے لیکن یہ مرض امیروں کو نہیں لگتا۔ یہ بیماری شہر کے ان غریب علاقوں میں پھیلتی ہے جہاں نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا اور لوگ تنگ اور تاریک گھروں میں رہتے ہیں جیسا کہ فائیو پوائنٹ اور ہیل کچن جیسے علاقے۔

ایک گھرانے نے ایک تحقیق کار جارج سوپر کو اس معاملے کو حل کرنے کے لیے رکھ لیا۔ سوپر نے ثابت کر دیا کہ یہ میری کا پھیلایا ہوا عذاب ہے۔ جب پہلی مرتبہ سوپر نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی تو ان پر کانٹا تان لیا اور انہیں باورچی خانے سے باہر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

ان کے اس بات پر یقین نہ کرنے سے کسی حد تک ہمدری ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح ایک ایسی بیماری پھیلانے کا باعث نہیں رہی ہیں جس کا وہ خود کبھی شکار نہیں ہوئیں۔ لیکن مسٹر سوپر کا یہ اندازہ درست تھا کہ وہ ٹائیفائڈ کے بخار کے جراثیم منتقل کر رہی ہیں لیکن ان میں خود اس کے خلاف مدافعت موجود ہے۔

انھیں خود کبھی یہ بیماری نہیں لگی لیکن وہ اس کو دوسرے لوگوں کو منتقل کرتی رہیں۔

یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ میری کے لیے یہ سمجھنا ایک ناممکن سے بات تھی۔ لیکن نیویارک کے حکام تنگ آچکے تھے اور سنہ انیس سو سات میں میری کو شہر بدر کر دیا گیا اور شہر سے باہر نارتھ برادر آئس لینڈ پر تنہائی میں بند کر دیا گیا۔

نارتھ برادر کا علاقہ ان دنوں ایک غیر آباد علاقہ ہوتا تھا اور یہ مشرقی دریا پر بروانکس کے قریب ہے۔

انیسویں صدی کے آخر میں اس پر چیچک کے مریضوں کو علیحدہ رکھنے کے لیے کچھ جگہیں بنائی گئیں تھیں۔ لیکن بعد میں یہاں پر ہر قسم کے متعدی امراض میں متبلا مریضوں کو رکھا جانے لگا۔

یہ رویہ موجودہ زمانے کی اقدار کے حوالے سے کافی ظالمانہ نظر آتا ہے لیکن ‘اینٹی بائوٹک’ ادویات کے دریافت ہونے سے قبل اس طرح کی بیماریوں سے بچاؤ کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا۔ نیویارک کے چارٹر میں صحت عامہ سے متعلق ریاستی حکام کو ایک اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ کسی کو بھی شہر بدر کر کے اس جگہ بھیج سکتے ہیں۔

میری میلن قید تنہائی میں رہیں۔ انہوں نے اپنی قید کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا بھی سوچا اور اپنے وکیل کو بتایا کہ جب انہوں کچھ غلط نہیں کیا تو انہیں قید تنہائی میں رکھنا انصاف کے خلاف ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ناقابل یقین بات ہے کہ ایک عیسائی معاشرے میں ایک بے گناہ عورت کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔ میری کو اس شرط پر رہائی مل گئی کہ وہ کبھی باورچن کا کام نہیں کریں گی۔

اخبار کے مالک ہرسٹ نے ٹائفائیڈ میری کا معاملہ کیسے اٹھایا

میری

میری کا مقدمہ اخبارات میں ایک بڑے اشاعتی ادارے کے مالک ولیم رنڈولف ہرسٹ نے اپنے اخبار میں اٹھایا اور جن کا یہ مقولہ مشہور تھا کہ ان کے اخبار میں ہر کہانی ایسی شائع ہونی چاہیے جسے پڑھ کر لوگ اپنی جگہ کھڑے ہو جائیں اور ان کے منہ سےنکلے ‘او میرے خدا۔’

ہرسٹ کا ایک ناشر ہونے کے ناطے بہت اثر و رسوخ تھا اور ان کے اخبار ‘نیویارک امریکن’ میں میری کی پوری کہانی بیس جون سنہ انیس سو نو میں شائع ہوئی۔

ہرسٹ کی طرف سے حمایت ایک دو دھاری تلوار کی طرح تھی۔ ہرسٹ کے اخبار میں میری کی خبر شائع ہونے سے انھیں خوب شہرت ملی جس سے وہ وکیل کی فیس ادا کرنے کے قابل ہوئیں۔

ہرسٹ شاید میری کے قانونی اخراجات بھی اٹھانے پر رضامند ہو جاتے جیسا کہ وہ ایسے کئی دوسرے معاملات میں کر چکے تھے جن سے ان کے اخباری کی شہرت میں اضافہ ہو۔

ان ہی کے اخبار کے رپورٹروں نے ٹائفائڈ میری کی اصطلاح استعمال کرنی شروع کی جو ساری زندگی میری کے ساتھ رہی تھی۔

میری کی زندگی مشکلات کا شکار کیوں رہی؟

میری نے گھروں میں کپڑے دھونے کا کام شروع کیا لیکن بعد ازاں وہ نام بدل کر پھر سے باورچن کا کام کرنے لگیں۔ انھوں نے ایک ہسپتال کے باورچی خانے میں بھی کام شروع کر دیا۔

لیکن بیماری اور موت کی اس کہانی نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ کتنی اموات کا باعث بنیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس بارے میں بہت سے روایات ہیں لیکن تین روایتوں کے مطابق ان کی وجہ سے کم از کم پچاس افراد اپنی جان سے گئے۔

حکام نے ایک مرتبہ پھر جب سنہ انیس سو پندرہ میں انھیں ڈھونڈ نکالا تو اس وقت نہ اخبار میں کوئی خبر شائع ہوئی نہ عوامی سطح پر ان سے ہمدری کا اظہار کیا گیا۔

میری کو دوبارہ قید تنہائی میں بھیج دیا گیا اور وہ سنہ انیس سو اڑتیس میں اپنی موت تک 30 سال قید تنہائی میں رہیں۔

ان کی کہانی سے شاید یہ ہی سبق ملتا ہے کہ اگر آپ کو سمجھ میں نہ بھی آ رہا ہو تو آپ کو طبی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔

لیکن میری ملین کی اس کہانی میں ان کی مخصوص ڈش میری پیچ آئس کریم کیوں اتنی اہم ہے۔

ٹائیفائیڈ کا بکٹیریا ٹھنڈے کھانوں میں زندہ رہتا ہے لیکن اگر کسی چیز کو پکایا جائے تو وہ مر جاتا ہے۔ اگر میری میلن اپنی ڈش پیچ آئس کریم پر اتنا فخر نہ کرتیں تو شاید ہمیں کبھی ’ٹائیفائیڈ میری‘ کا علم نہ ہوتا۔