کالم

پاکستان میں علم بانٹنے پر کوئی قدغن ہے نہ تھی

Share

میں ایک پروفیسر ہوں، جونیئر ہی سہی، اگرچہ ریٹائرنہیں ہوا، مگراِس اعتراف میں پھربھی کوئی عار نہیں سمجھتا کہ میں نہ تو غیر معمولی ذہین اور بہادر ہوں اور نہ ہی محنت و مطالعہ اعلیٰ پائے کا ہے۔ میری بیک پر کوئی ایسی اَن دیکھی قوّت بھی نہیں جس کے بھروسے جو جی میں آئے کہتا یا کرتا پھروں۔ ایسا بھی نہیں کہ تدریسی اور منصبی ذمہ داریوں کے حوالے سے مجھ سے باز پُرس نہ کی جا سکے۔ اِس کے باوجود28سالہ تدریسی تجربے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے حکومتِ وقت،یونیورسٹی انتظامیہ یاکسی کولیگ کی طرف سے زبانی، تحریری یا عملی طور پر قانون اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی مرضی کے خلاف پڑھانے پر مجبور کیا گیا ہو۔چنانچہ وہ سب پڑھایا جونصاب تھا اور جسے دل اور ضمیرنے درست سمجھا۔ رہا یہ کہ ہماری سوسائٹی میں نا اہل خوشامدی آگے بڑھ جاتے ہیں اوراہل لوگ پیچھے رہ جاتے تو اِس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا میں کہاں ایسا نہیں ہوتا اور پھر یہ مسئلہ آج کاتھوڑا ہے، ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے، صرف پسماندہ ملکوں میں نہیں،ترقی یافتہ ملکوں اور معاشروں بھی یہی چلن ہے، وقت اور زمانے کی بھی کوئی قید نہیں، ورنہ دنیائے اسلام کے عظیم صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی تیرہویں صدی عیسوی میں ترکی کے شہر قونیہ میں بیٹھے یہ نہ کہہ رہے ہوتے: جانور فربہ شود از خورد و نوش / آدمی فربہ شود از راہِ گوش(جانور کھانے پینے سے موٹا ہوتاہے، جب کہ انسان کانوں کے راستے پھول جاتا ہے)۔ آج بھی انسان ویسا ہی ہے، سرشت تو نہیں بدلتی۔ عظیم اساتذہ ریٹائرمنٹ کے بعد اِس پر کف افسوس ملیں اور اِس کا واویلا کریں کہخوشمادیوں اور حاسدوں نے انہیں ضمیر کے مطابق نہیں پڑھانے دیا تو اُن کا دل ٹوٹے گا جو انہیں رول ماڈل سمجھتے، راہنما گردانتے اور انسپائریشن کا منبع جانتے ہیں۔اور دیکھئے اگر کسی صاحبِ فضل وکمال کو اپنے ارد گرد حاسدین ملیں اور وہ اُن کی ذرّہ برابر بھی اصلاح نہ کر سکے توریاست اور نظام پرانگشت نمائی نہیں بنتی، کیونکہ ریاست نے تو اُن جیسا نابغہ بھیجا ہی وہاں اِسی لئے تھا کہ تبدیلی آئے، نہ آ سکی تو”نقصانِ مایہ کے ساتھ شماتتِ ہمسایہ“ سے بچنے کی سبیل کی جائے نہ کہ نا مرادی کے اشتہار لگائے جائیں۔
پھر یہ کہ کسی لائق اور کمٹڈپروفیسر کے خلاف حاسد اور حسرتوں کے مارے پروفیسر نا لائق طلبہ کو استعمال کر لیں اوروہ اپنی تما متر قابلیت اوراپنے لائق طلبہ کی مدد سے حق کی حفاظت نہ کر سکے تو سعدی شیرازی کی بات دھیان میں آتی ہے کہ”کسی پاگل نے ایک دانا کا گریبان پکڑا ہوا تھا، میں نے کہا جو پاگل سے اپنا گریبان نہیں بچا سکتا وہ کہاں کا دانا ہے، سو اُسے داناؤں کی فہرست سے نکال دیا“۔ ویسے ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ اِس گئے گذرے دور میں بھی سوسائٹی میں اساتذہ اور اُس کے بعد ڈاکٹروں کی سب سے زیادہ عزت ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگر اُستاد کے ہاتھ سے کوئی معمولی چیز گر جائے تو آج بھی شاگرد اُسے زمین سے اُٹھا کردینے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک ٹریفک وارڈن سے میں نے سنا ہے کہ میڈیا والوں اور وکیلوں کاچالان کرتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا ہے کہ عزت سب کو پیاری ہے،جب کہ اُستادوں،ڈاکٹروں اور خواتین کا چالان کرتے ہوئے تو محض دلی احترام آڑے آ جاتا ہے۔ڈاکٹر وں اور انجیئنروں وغیرہ سے اپنے کسی استاد سے یوں بد زبانی کہ”آپ نے ہمیں غلط پڑھایا تھا، اب جو بویا وہ کاٹیں“،کی بالکل امید نہیں ہے۔
میں نے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ڈاکٹر سجاد باقر رضوی اور بہا ء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ڈاکٹر انوار احمد کے شاگرد رہ جانے والے بڑی عمر کے کئی طُرّم خان اساتذہ اور سکالرز کو سرجھکائے، اُن کی کتابیں اوربیگ اٹھائے، اُن کے پیچھے چلتے دیکھا ہے، ایک دفعہ نہیں بارہا۔ نام لے کر اِن اساتذہ کی مثال دینا اِس لئے مناسب لگا کہ دونوں نے سعادت حسن منٹو کے افسانے’کھول دو‘، ’ٹھنڈا گوشت‘، ’موذیل‘، ’بابو گوپی چند‘ اور ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ وغیرہ یونیورسٹی کلاس رومزمیں پڑھائے اور ہر دور میں پڑھائے۔ڈاکٹر سجاد باقر رضوی اللہ کو پیارے ہو گئے، خدا اُن کی مغفرت فرمائے۔ ڈاکٹر انوار احمد سلامت رہیں، ریٹائر ہو گئے مگر آج بھی یونیورسٹی میں طلبہ کو مذکورہ افسانے پڑھا رہے ہیں۔خود ہمیں اپنے اساتذہ نے فروغ فرخزاد اور سیمیں بہبہانی کے ساتھ ساتھ کلاسیکل فارسی ادب میں عبید زاکانی پڑھایا۔ نہ کسی نے اُن کے کام میں رکاوٹ ڈالی نہ ہی اُن کی پاکیزہ سوچوں پر شک کیا گیا۔ معاصر حالات پر بحث بھی کبھی کبھار ہو جاتی تھی کلاسز میں، حکومت وقت کی پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار بھی عام چلن تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ دور بھی ضیاء الحق کا تھا۔ماضی بعید کا ایک حوالہ ذہن میں آ رہا ہے۔ ہلاکو خان نے ساتویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی)کے چھٹے عشرے میں ایران اور سنٹرل ایشیا کی اینٹ سے انیٹ بجا دی، بعض شہروں میں کوئی ذی روح تک زندہ نہ رہنے دیا۔اُس نے 656 ہجری میں عباسی حکومت کے پایہئ تخت بغداد کوفتح کر کے صدیوں پر محیط عظیم عباسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ سعدی نے اپنی شہرہئ آفاق کتاب ’گلستان‘ اُسی سال مکمل کی۔ ہلاکو جیسے مطلق العنان اورظلم و ستم کا استعارہ سمجھے جانے والے بادشاہ کے دور میں لکھی گئی کتاب میں اُس نے جہاں بھی کسی احمق، کودن، بے شعور اور کند ذہن آدمی کی مثال دی، اُسے بادشاہ ِ وقت، وزیر یا کسی امیر کا بیٹا بتایا، جگہ جگہ اُن کی حماقتوں اور نادانیوں کا مذاق اُڑایا، حتیٰ کہ پادشاہوں کو قارون کا وارث تک قراردے دیا۔ یقین نہ آئے توگلستان کا پہلا باب دیکھ لیں بادشاہوں کی سیرت کے عنوان سے ہے۔کمٹمنٹ ہو، ذہن اور مشن واضح ہو تو سلیقے کے ساتھ سچ کہا اور پڑھایا جا سکتا ہے، ہلاکو جیسے بادشاہ کے دور میں بھی۔اِس لئے چڑیوں سے کھیت چگا لینے کے بعدکاہے کی حسرت نمائی اورکیونکر ذمہ داری ہے پہلو تہی، فخر ومباہات سے اقرار تو بالکل مناسب نہیں۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہمارے ملک میں بیورو کریٹس اورافسروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد اچانک یاد آجاتا ہے کہ ملک کا نظام ٹھیک نہیں چل رہا،جسے درست کرنے کے لئے بالآخرخود اُن کو ہی آگے آنا پڑے گا، ورنہ ایسا نقصان ہو جائے گا کہ تلافی نہ ہو سکے گی۔ یقین نہ آئے تو ٹیلی ویژن پر شبانہ نشستوں میں سابق اعلیٰ افسروں کی گھن گرج، ماضی کی غلطیوں کی تفصیل اور آیندہ کے پلانز سن لیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کے ریٹائر ہوتے ہی ملک میں تاریخی قحط الرجا ل آ گیا ہے اورعقل و دانش کے سوتے خشک ہو گئے ہیں۔ نجات کی بس ایک ہی صورت ہے کہ ”وہی چراغ جلائے جائیں“۔بیوروکریٹس کی حد تک تو یہ بات قابلِ برداشت ہے، مگر اساتذہئ کرام سے ایسی حسرت زدگی کی بالکل توقع نہیں کی جاسکتی۔ اُن کا کام تو نا مساعد حالات کو موافق بنانا ہوتا ہے، نہ کہ خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا۔ میں اگر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد آہیں بھرتا رہوں کہ تیس پینتیس سال تلف ہو گئے اور ریٹائرہو نے پر اُفق بدل کے وہی کام شروع کر دوں تو مجھے کم ازکم ایک بار ضرورغور کرنا چاہئے کہ میرا مدعا آخر ہے کیا، محض مشاہرہ لینا اوربعد میں نظام کو کوسنا یا کچھ اور۔ میرے خیال میں اعلیٰ تعلیمی مراکز میں اُستاد کا کام پڑھانے اور تحقیق کے ساتھ ساتھ طلبہ کے دلوں میں مطالعے کا گہرا ذوق پیدا کر نا ہوتا ہے۔ اگر یہ ہو گیا تو اُستاد اور طالب علم کامیاب ورنہ سب بے سود۔اور ذوق صرف اور صرف خون دل جلانے سے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے، جس پر قدغن ممکن ہی نہیں۔
باہر کی یونیورسٹیوں اور ملکوں سے کانفرنسوں کے دعوت نامے غائب کرادینے کا فارمولا کم از کم ایک عشرے سے متروک ہو گیا کہ انٹرنیٹ، ویب سائٹس اور موبائل فون نے اِس کے امکانات بہت کم کر دیے ہیں۔ پھر اپنے ادارے میں سب سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی کانفرنسیں اٹینڈ کرنے والے اُستاد کا کوئی ایک آدھ دعوت نامہ کوئی شخص اِدھر اُدھر کر ابھی دے تو اُسے اپنی اعلیٰ ظرفی سے نظر انداز کرتے ہوئے اِس پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ محروموں کو بھی ساتھ ملا کر چلنا چاہئے، انہیں بھی کسی کانفرنس کا دعوت نامہ منگا دینا چاہئے تا کہ چراغ سے چراغ جلے نہ کہ اُس کے ارد گردتاریکی کا دور دورہ ہوتا جائے۔کسی بھی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس بننے کے لئے پی ایچ ڈی لازمی شرط ہے، جس طرح لیکچرر بننے کے لئے کسی مضمون میں ایم۔اے ہونا، نیز اعلیٰ پائے کا شائع شدہ تحقیقی کام بھی، صرف خوشامد سے یہ والا بیڑا پار نہیں ہو سکتا۔راستہ یہی اوریونیورسٹیوں کی طرف سے صلائے عام ہے۔
ضیاء الحق ایک آمر تھا، اُس سے آمریت سر زد ہوئی تو زیادہ اچنبھے کی بات نہیں، مگر اُس کا کیا کریں کہ جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوا اور خود کو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا، بجا کہ ضیاء نے اپنے مخالفین کو کوڑے مروائے،اپنے داغدار ماضی کو کریدنے سے سکون ملتا ہے تو کرید لیا کریں، لیکن جس نے جے۔ اے رحیم اور معراج محمد خان جیسے اپنی ہی پارٹی کے بانی ارکان پر تشدد کرایا، مخالفین کو قتل تک کرانے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ خواجہ رفیق اور داکٹر نذیر شہید کا خونِ نا حق اب تک فریاد کناں ہے۔ ماضی یاد کرتے ہوئے ہم اُس کا ذکر کیوں گول کر جاتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے اپنے مقرر کردہ وفاقی مشیرِ امور نوجوانان و طلبہ راجہ انور نے لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اُتنے لوگ ضیاء الحق نے نہیں مروائے جتنے میر مرتضیٰ بھٹو نے کابل میں بے دردی سے قتل کرادیے۔ اُس کی کتابوں ’آغوشِ قبر‘ اور ( The Terrorist Prince) سے مزیدتسلی بخش معلومات لی جا سکتی ہیں۔ عدل کا تقاضا ہے کہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک ہو۔
ہم پاکستانیوں کا المیہ یہ ہے کہ اپنی تکذیب (Negation)و نفی کر کے نہ صرف خوش ہوتے، بلکہ اُس کا راگ الاپ کے دادبھی طلب کرتے ہیں۔اس سلسلے میں عام آدمی کی کوتاہی تو نظر انداز ہو سکتی ہے، مگر اہل علم و اربابِ دانش ایسا کریں تو دل دکھتا ہے۔ پھر پاکستان آہستہ آہستہ سہی مگر بہر حال ترقی کر رہا ہے۔ ہمارے رہن سہن کا معیار بھارت سے بہت بہتر ہے۔ پاکستان میں کہیں بھی سائیکل رکشا نہیں چلتا جب کہ بھارت کے کئی شہروں میں انسانی تذلیل کی یہ صورت آج بھی موجود ہے۔ دہلی، بمبئی اور کلکتہ میں انسانوں کی کئی نسلیں سڑکوں کے کنارے پیدا ہوئیں، وہیں پلی بڑھیں اور وہیں مر گئیں۔ مگر ہم اپنی نوجوان نسل کو یہ بتانا نہیں بھولتے کہ اُستاد بڑے غلام علی خان، ساحر لدھیانوی اور قرۃ العین حیدر پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے تھے۔ یہ نہیں بتاتے کہ نور جہان جیسی بے مثل گلوکارہ اور اداکارہ جو قصور سے بمبئی چلی گئی تھیں،وہاں پرکئی نغمے گائے، دلیپ کمار کے ساتھ ایک فلم میں کام بھی کیا، مگر سب کچھ چھوڑ کر پاکستان واپس کیوں آ گئیں؟ اِس پر بھی روشنی نہیں ڈالتے کہ محمد رفیع جیسا عظیم گلو کار حج کر کے اپنے وطن بھارت لوٹا تونہ صرف بلبلِ ہند لتا منگیشتر، بلکہ بھارت کے تمام مہان گلو کاروں اور موسیقاروں نے اُس کا بائیکاٹ کر دیا، قصور کیا تھا بتانے کی ضرورت نہیں۔ اُستاد بڑے غلام علی خان پاکستان چھوڑ کر جس دیس گئے تھے، وہیں پر محمد رفیع ٹھکرائے جانے کے صدمے سے ھارٹ اٹیک کا شکار ہوا اور مرگیا۔علامہ اقبال کا شعر ہے: منکرِ حق نزدِ ملا کافر است/ منکرِ خود نزدِ من کافر تر است(اللہ کا انکار کرنے والا ملا کی نظر میں کافر ہے،میرے نزدیک اپنا انکار کرنے والااُس سے زیادہ کافر ہے)۔اپنے انکار اور نفی پر اترانا اور اُس کے اشتہار لگانا کہاں کی عقلمندی ہے،اِس سے کہاں علمی قد و قامت بڑھتا ہے، یہ اپنا آپ ڈھا دینے والی بات ہے۔اِسی لئے اقبال نے خودی کا درس دیا یعنی اپنی صلاحیتوں کی پہچان اور اُس پر اعتماد کو لازمہئ حیات قرار دیا۔ہم سب خاص طور پر اُستادوں کا فرض ہے کہ قوم بالخصوص نوجوانوں کے دلوں میں اُمید اور آس کی شمعیں روشن کریں، انہیں مایوسی میں نہ دکھیلیں اور نہ ہی اُن کو پاکستان اوراُس کی ترقی کے حوالے سے کنفیوز کریں۔یہ خطہئ ارضی ہمارے لئے جنت سے کم نہیں ہے، اِس پر شکر کرنا چاہئے کہ ہمارا اپنا وطن اور شناخت ہے۔ اِس کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرنی چاہئے جس کی سب سے اہم صورت نوجوانوں کے دلوں میں اِس پر اعتماد قائم کرنا ہے۔ ایسا ہو گا تو یہ معمولی مسئلے بھی ختم ہو جائیں گے۔اور ہم کفِ افسوس ملنے سے بچ جائیں گے۔