کالم

پنجاب پبلک سروس کمیشن کا انوکھا معیار

Share

آئین پاکستان 1973ء کے ضابطہ نمبر242 کے تحت ملک میں وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنز کا قیام عمل میں آیا۔ اِن کمیشنز کا کام ملک اور صوبوں میں میرٹ اور شفافیّت کی بنیاد پر سرکاری ملازمین بھرتی کرناہے۔ وفاقی اور صوبائی کمیشنز کے سربراہوں اور اراکین کا تقرر وزیراعظم اور متعلقہ صوبائی وزرائے اعلیٰ کی تجویز پر معیّنہ مُدّت کے لئے بالترتیب صدرِ مملکت اور صوبائی گورنر صاحبان کرتے ہیں۔ایک دفعہ رکن رہ جانے والے سربراہ اور اراکین کی مدّتِ ملازمت میں نہ توسیع ہو سکتی ہے اور نہ وہ دوبارہ رکن بن سکتے ہیں۔اُن کی ملازمتوں کو آئینی تحفُّظ حاصل ہے،چنانچہ کسی نا مطلوب صورتِ حال میں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی اُن کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتی ہے، یوں اُن کا مرتبہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر جا بنتا ہے اور اِس خوش نصیبی پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ وفاقی پبلک سروس کمیشن ہو یا کسی صوبے کا اُس کا سربراہ ملک کی کسی قابل، تجربہ کار، دیانت دار،نیک نام، صاحبِ علم و بصیرت شخصیت کو لگایا جاتا ہے، یہی کڑا معیار اراکین کے تقرر کے لئے بھی مدِ نظر ہوتا ہے۔ کمیشنز کے سربراہ اوراراکین اعلیٰ انتظامی عہدوں سے ریٹائرڈ سرد وگرم چشیدہ، سیر چشم لوگ ہیں۔پاکستان میں جہاں گورننس کے بارے میں آئے روز شکایات سامنے آتی رہتی ہیں، وہاں کھُل یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنز نے اپنے ذمّے لگائے گیا کام انسانی حد تک ممکن شفافیّت اور میرٹ سے انجام دیا اور یہ سلسلہ روزِ اوّل سے آج تک جاری ہے۔ اُن کی اعلیٰ کارکردگی دیگرپبلک اور پرائیویٹ اداروں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔
عام چلن ہے کہ جب کوئی ادارہ بالکل ٹھیک کام کر رہا ہو تو اُس کے بارے میں میڈیا پربات نہیں ہوتی، یہ تصوّر کرتے ہوئے کہ وہ اپنے فرائض ہی تونبھا رہا ہے، سو ”No news is good news“ کے مصداق کسی ادارے کا خبروں سے اوجھل رہنا، در اصل اُس کی کارکردگی پر عوامی اعتماد کا اظہار ہے۔اگرچہ یہ مناسب روش نہیں اور کارکردگی کی بہر حال تعریف ہونی اور اُسے عوامی اور اجتماعی فورمز پر سراہا جانا چاہیئے۔کیونکہ اِس طرح ادارے سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی اور اُن کے دل میں مزید لگن سے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔پنجاب پبلک سروس کمیشن کو اُس کی اعلیٰ کارکردگی پر سیلیوٹ اور اُس کے ذمہ داران کو جھک کر سلام۔ مگر ساتھ ساتھ ایک اہم عوامی مفاد کا معاملہ قابلِ توجہ ہے۔ بعض اوقات دیانتدار، منصف، لائق اورتجربہ کار افراد کی نظروں سے بھی کسی معاملے کا کوئی پہلو نظر انداز ہو سکتا ہے اور اُس طرف توجہ دلانے کا مقصد،ادارے کی اعلیٰ کارکردگی کی نفی نہیں، بلکہ اُس میں مزید بہتری لاناہوتا ہے۔
حال ہی میں پنجاب پبلک سروس کمیشن نے محکمہ تعلیم کالجز میں مختلف مضامین میں لیکچررز، اسسٹنٹ پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور پروفیسرز کی ہزاروں اسامیاں مشتہر کیں۔اُمیدواروں کی درخواستیں کم ترین مدت میں پراسیس ہوئیں، لیکچررز کے انتخاب کے لئے تحریری امتحان ہوئے، اُن کے فوری نتائج آئے اور انٹرویوز کے نتیجے میں متعلقہ اداروں کو اُن کی تعیناتی کی سفارش کی جا چکی۔ ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور پروفیسرز کی اسامیوں کے لئے کمیشن کے سربراہ یا سینیئر رکن، محکمانہ نمائندے اور دو ماہرینِ مضمون پر مشتمل سیلیکشن بورڈز نے انٹرویوزشروع کئے، کچھ کا پراسیس مکمل ہو چکا، نتائج بھی آچکے، کچھ کا سلسلہ جاری ہے۔جاری شدہ نتائج، بعض امیدواروں اور محکمہ تعلیم کے سینیئر لوگوں کی آراء سے لوگوں میں یہ تأثر پیدا ہوا کہ پبلک سروس کمیشن کی طرف سے اپنے طور پر کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کی وجہ سے بعض پہلو نظر انداز ہوئے، جن کی قانونی طور پر تو شاید کوئی زیادہ اہمیت نہ ہو، مگر امیدواروں کے لئے اُن کی سایئکلوجیکل اور سماجی حسّاسیت بہت زیادہ ہے۔ ہوا یہ کہ درخواستوں کی ضروری جانچ پڑتال اوراور اُن کی اہلیّت (Eligibility) طے کئے بغیر تمام درخواست دہندگان کو انٹرویوز کے لئے پبلک سروس کمیشن کے دفتر بُلا لیا گیا۔بُلاوے والے امیدواروں اور اُن کے خاندانوں نے سلیکشن کی دہلیز تک پہنچنے پرمحلے اور رشتے داروں اور دوست احباب سے مبارک بادیں بھی وصول کر لیں اور سہانے سپنے بھی دیکھنے لگ گئے۔ یادش بخیرایک زمانے میں پاکستان میں ”تار“ کے نام سے معروف ٹیلی گراف سسٹم ہوا کرتا تھا۔ اُن دنوں جب کہیں تار پہنچتا تھا تو لوگ اُس کو پڑھے بغیر رونا دھونا شروع کر دیتے اور تاروصول پانے والے کو آیندہ صبر کی تلقین کے ساتھ تصوّر کردہ مرحوم کی مغفرت کی دعا کرتے، در اصل ذہنوں میں عام تأثر یہی تھا کہ یہ کسی کی وفات کی اطلاع پر ہی بھیجا جاتا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں انٹرویو کے بُلاوے پر جانا اورمیدان میں اُترے بغیراہلیّت نہ ہونے پر واپس آ جانا،امیدواروں کے لئے کتنی مایوسی اور شرمندگی کا باعث رہا ہوگا،اِس کا اندازہ اِس کیفیّت سے گذرنے والوں کو ہی ہو سکتا ہے۔اہلیّت(Eligibility)، تدریسی تجربہ، ہائر ایجوکیشن کے منظور شدہ مجلات میں شائع شدہ مقالات کا ہونا وغیرہ جیسی ٹیکنیکل باتیں سمجھنے سے امیدواروں کے دیسی پس منظر والے والدین، دوست احباب اور عزیز و اقارب قاصر ہیں،سو اُن کے لئے اِس عذرکی گنجائش ہی نہ تھی،پس وہ میدان میں اُترے بغیر پاس اور فیل ہونے کے دو قطعی نتائج میں سے فیل قرار پائے۔ اِس سلسلے میں زیادہ مناسب راستہ یہ ہو سکتا تھا کہ اہلیّت کے مرحلے کو کامیابی سے عبور کرنے والوں کو ہی بلایا جاتا، تاکہ کم لوگ اِس اذیت سے گذرتے۔ یقیناً کچھ امیدوار وں کی اہلیّت میں کوئی ابہام ہوگا، اُن کو انٹرویوز کی تاریخ سے پہلے ہی محض اس کام لئے بُلا کے ابہام دور کر لیا جا تا۔تاکہ انٹرویو والے دن کمیشن کی دہلیز پرمایوس لوگوں کا جمِ غفیر نہ ہو، جس سے کوئی ناخوشگوار صورتِ حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِس صورتِ حال کی پیش بینی کے لئے کئی ادارے انٹرویو والے دن رزلٹ تیّار چکنے کے باوجود، اُس کا فوری اعلان نہیں کرتے، بلکہ امیدواروں کے گھروں پر اطلاع دیتے ہیں تاکہ کسی بد مزگی اور حادثے کاامکان نہ رہے۔
سب سے اہم اور دور رس منفی اثرات کا حامل مسئلہ یہ ہے کہ کمیشن نے کئی شعبوں میں مشتہر کی گئی اسامیوں پر اہل امیدواروں کے انٹرویو کئے، لیکن اِس دلیل کے ساتھ بہت سی اسامیاں خالی چھوڑ دیں کہ معیار ی امیدوار دستیاب نہیں ہو سکے۔ یہ دلیل میرٹ کی اصطلاح اور اُس کے فلسفہ کے خلاف ہے، کیونکہ میرٹ پر سلیکشن کا مطلب اصولی طور پریہ ہے کہ اگردس اسامیوں کے لئے، بیس یا اُس سے کم و بیش امیدواروں نے انٹرویو دیے تو نتیجے میں اوپر والے دس کامیاب قرار دے دیے جائیں۔ ماضی میں بھی عموماً ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا۔مثلاً طبیعیات کے شعبے میں خواتین ایسوسی ایٹ پروفیسر کی54دستیاب اسامیوں پر صرف ایک امیدوار منتخب ہوا اور 53 اسامیاں خالی چھوڑ دی گئیں۔اسی طرح اکنامکس کے 35 میں سے دوکے انتخاب سے 33 اسامیاں خالی رہیں۔ یہی حال خواتین کے لئے مختص پولٹیکل سائنس، نفسیات اور عربی شعبوں کا ہے جن میں بالترتیب بارہ میں سے دس،دس میں سے سات اور آٹھ میں سے چھ اسامیاں خالی چھوڑ دی گئیں۔قابل توجہ امر یہ ہے کہ ان کے لئے انٹرویو دینے والے تمام امیدوار پہلے سے ملازمت کر رہے ہیں، جن میں واضح اکثریت اسسٹنٹ پروفیسرز کی ہے اوربعض کا ستائیس ستائیس سال سے زائدعرصے کا تدریسی تجربہ ہے اور کئی ایک ریٹارئرمنٹ کے قریب پہنچے ہوئے ہیں۔ اِن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے سے تنخواہوں اور مراعات میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑنا تھا، کیونکہ سینیئر ہونے کے سبب یہ پہلے ہی اگلے سکیل کی تنخواہ لے رہے ہیں۔ البتہ اُن کی اگلے درجے پر ترقی سے اُن کے شعبے میں اسسٹنٹ پرفیسرز کی اتنی ہی اسامیاں خالی ہو جاتیں اور یہ مثبت اثر لیکچررز کی اسامیوں تک جاتا، نتیجتاً محکمہ تعلیم کالجز ترقیوں کے تناسب سے نئی اسامیاں نکل آتیں، اور یوں غیر محسوس ہی سہی بے روزگاری میں کچھ کمی آتی۔ پھر یہ کہ جو امیدواراہلیت کے معیار پر پورا اُترنے کے باوجود انٹرویو کی پل صراط عبور نہ کرسکے، اُنہوں نے اُسی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے کالجز میں وہی کلاسیں پڑھانی ہیں جو وہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہو کے پڑھاتے، مگر اب وہ یہ کام خود اعتمادی اور خوشی کی بجائے مایوسی اور بے دلی سے کر پائیں گے، کیونکہ منزل کے قریب جا کے محروم رہ جانے کا دکھ سوا ہوتا ہے۔ ایک مایوس اور بد دل اُستاد اپنے شاگردوں میں کیا اعتماد پیدا کرے گا اِس کا اندازہ اہلِ بصیرت بخوبی کرسکتے ہیں۔ صرف جدید دنیا نہیں، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی کہیں کوئی عمارت، سڑک،پُل، ریلوے لائن بناتے، نہر کھودتے اور درخت کاٹتے وقت پہلے ماحول،خاص طور پر وہاں کے باشندوں، اُن کے مزاجوں اور نفسیات پراُس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے سروے کرا کے، ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کہ اِس معاملے میں اُستاد جیسے حساس دل و دماغ رکھنے والے پڑھے لکھے افراد کے سلسلے میں بالکل مشینی طریقہئ کار اختیار کیا گیا ہے، خاص طور پر جب کہ اُن کے ذمّے ملک کی نوجوان نسل کی تربیت کا اہم فریضہ ہے۔اصل میں انٹرویو لینے والوں نے امیدواروں سے اُن کے مضامین کے بجائے زیادہ سوال جنر ل نالج، کرنٹ افیئرز، ایوری ڈے سائنس، تاریخ، جغرافیہ اور سیاسیات و سماج وغیرہ پر کئے۔ اگرچہ اِن شعبوں میں بنیادی معلومات اساتذہ کو ہونی چاہیں، مگر یہ انتخاب کی بنیادی شرط نہیں قرار پاتی، البتہ اُن کی سینیارٹی کے تعیُّن مین اِس کو مدِ نظر رکھا جا سکتا تھا۔ اب نقد نتیجہ یہ کہ سلیکٹ نہ ہو سکنے والے سال دو سال میں پرموشن کے کوٹے پر پرموٹ ہوں گے اور اپنے محکمانہ سینیارٹی نمبر سے آگاہ،پرموشن کی آس میں بیٹھے اساتذہ کی خاصی تعداد کی امیدوں پر پانی پھیریں اور مایوسی کا دائرہ وسیع کریں گے۔
گذشتہ سال سی ایس ایس کے امتحان میں تیرہ ہزار سے زائد امیدواروں میں سے ڈھائی سو کے قریب تحریری امتحان پا س کر سکے، جن میں سے انٹرویو اوردیگر ضروری ٹیسٹس کے بعد دو سو کے قریب کی سیلکشن ہوگئی اور وہ ٹریننگ کر رہے ہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے بظاہر دستیاب محدود تعداد میں سے اوپر والے دو سو نسبتاً بہتر امیدوار منتخب کر لئے اور اِس جنجھٹ میں نہیں پڑا کہ پچھلے کئی سالوں کی طرح چھ سو کے قریب امیدوار ہوں گے تو دو سو کا انتخاب ہو گا۔صحیح اور پریکٹیکل اپروچ بھی یہی ہے، کیونکہ افرادی قوّت خلا سے نہیں درآمد ہونی، دستیاب افراد سے بہتر لوگوں کا انتخاب ہی آئیڈیل راستہ ہے۔ ہمارے ہاں دیگر شعبوں میں بھی ایسا کڑا معیاررائج نہیں ہے۔پنجاب پبلک سروس کمیشن اپنی اعلیٰ روایات کے پیشِ نظر اِس حسّاس مسئلے پر غور کرے کہ بے روزگاروں کے لئے اُس کا نام آس و امید کا پیغام اور عدل و انصاف کی علامت ہے اور آس و امید زندہ رہنی چاہیئے۔چونکہ اب بھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور ابھی محکمہ تعلیم نے منتخب امیدواروں کی پوسٹنگ بھی نہیں کی،اِس لئے کمیشن اُن کے انتخاب کا از سرِ نو جائزہ لے سکتا ہے اور اگراِس میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے تو فوری طور پر دوبارہ خالی رہ جانے والی اسامیوں کو مشتہر کر کے اُن کا پراسیس کیا جائے تاکہ اساتذہ کی مایوسی کا ازالہ ہواور پنجاب پبلک سروس کمیشن کا نام اونچارہے۔کیونکہ ادارے ہی ملک و قوم تشکیل دیتے ہیں اور اُن کی ناکامی قوموں کی ناکامی ساتھ لے آتی ہے۔اِس بات کی تائید کے لئے “Why Nations fail”نامی کتاب کا مطالعہ تسلی بخش رہے گا۔