منتخب تحریریں

چند سنجیدہ لطیفے

Share

انٹر نیٹ پر جہاں ہر قسم کی ویب سائٹس دستیاب ہیں وہاں لطیفوں کی بھی بے شمار سائٹس ہیں جن میں موضوع کے اعتبار سے لطیفے مل جاتے ہیں۔ناخلف شوہروں، بلانڈ عورتوں،سیاست دانوں، طوائفوں،تاجروں، وکیلوں، ڈاکٹروں،پادریوں کے لطیفے،سیاسی لطائف، جمہوریت، آمریت، کیپیٹل ازم، آزادی نسواں، نسل پرستی،ہم جنس پرستی اور سوشلازم پر جملے بازیاں، غرض ہر قسم کا مزاحیہ مواد اِن ویب سائٹس سے مل جاتا ہے۔لیکن ایک مخولیہ بات ایسی ہے جو اِن ویب سائٹس پر بھی نہیں ملتی،صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے اوروہ ہے آمریت کا دفاع کرنے کا مذاق۔یقین نہیں آتا تو ایک اوریجنل لطیفہ سُن لیں۔ 1962میں ہمارے معلی القاب آمر ایوب خان،جنہوں نے خود ہی اپنے سر پر فیلڈ مارشل کا تاج سجا یا تھا،نے سوچا کہ کیوں نہ اِس مملکت خدادا کو مفت میں ایک آئین بھی دے دیاجائے تاکہ پاکستانی عوام رہتی دنیا تک اُن کے سپاس گذار رہیں۔سو،یکم مارچ 1962کوآنجناب نے ایک زیرو میٹر آئین جاری کیا، ذرااُس کا دیباچہ ملاحظہ ہو:”میں فیلڈ مارشل ایوب خان،ہلال پاکستان، ہلال جرات،صدر پاکستان،اُس مینڈیٹ کے تحت جو پاکستان کے عوام نے مجھے 14فروری 1960کو دیا۔۔۔۔یہ آئین نافذ کرتا ہوں۔“۔اب آپ کہیں گے کہ اِس میں لطیفے والی کون سی بات ہے۔تو گذارش یہ ہے کہ 1962تک تو کوئی جنگ ہی نہیں ہوئی تھی،پھر یہ جرات کا مظاہرہ کہاں کیا گیا جس کے عوض ہمارے محبوب صدر نے خود ہی اپنے آپ کو ہلال جرات سے نواز دیا!دوسر ی بات یہ کہ پاکستانی عوام نے عالی جناب کو آئین بنانے کاکون سا اختیار دیا تھا،اگر 1960کا استصواب رائے کامطلب یہ اختیار ہے تو اِس سے بڑی جعل سازی ممکن نہیں جس میں فقط یہ سوال پوچھا گیا تھاکہ کیا آپ کو ایوب خان پر اعتمادہے؟ جواب میں 95.6%ووٹ ’ہاں‘ میں آئے۔دنیا بھر کے آمروں کو اِس قسم کے ریفرنڈم میں ایسے ہی ’مینڈیٹ‘ ملتا ہے۔اب بتائیے ایسے لطیفے کیاکرہ ارض میں کہیں اورملیں گے؟ لطیفوں کی بات چل نکلی ہے تو ایک لطیفہ اور سُن لیں۔مہوش حیات کے محبوب قائد جنرل مشرف نے 1999میں مارشل لگایا تو حسب روایت پی سی او کے پشتارے جاری کیے۔یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ آمریت کی حمایت اُن سب نے کی جن کے پاس ہاوردڑ، آکسفورڈ، کیمبرج اور کولمبیا یونیورسٹی کی بارعب سندیں تھیں، اِن نام نہاد پڑھے لکھوں نے آمریت کی دلہن کو سجایا، پی سی او سے اُس کا بناؤ نگھار کیا اور گھونگھٹ اوڑھا کر اسے ایک حیا دار عورت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ایسے ہی سن 2000ء کے حکم نامہ نمبر 1 کے تحت،جو معزز جج صاحبان کے حلف سے متعلق تھا،یہ عبارت لکھی گئی کہ اعلی عدلیہ کے وہ جج جو اِس حکم نامے کے تحت حلف نہیں اٹھائیں گے یا جنہیں حلف اٹھانے کی دعوت نہیں دی جائے گی، وہ ملازمت سے فارغ سمجھے جائیں گے۔اور جوشخص یہ حلف اٹھا لے گا وہ 14اکتوبر 1999کی ایمرجنسی کے حکم نامے اور بعد ازاں جاری ہونے والے پی سی او احکامات کا پابند ہوگا۔پھر آپ کہیں گے کہ اِس میں لطیفے والی کیا بات ہے، اچھی خاصی سنجیدہ قانونی اور آئینی زبان ہے جو ملک کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے لکھی گئی ہے۔جی بالکل،بجا ’ارشاد‘۔فدوی کا بھی یہی خیال ہے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جسٹس سعید الزماں صدیقی (مرحوم) تو آپ کو یاد ہوں گے جنہوں نے اپنے کچھ ساتھی جج صاحبان کے ساتھ یہ حلف لینے سے انکار کیا تھا۔ اُس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اِس پی سی او کو لطیفہ ہی سمجھتے تھے۔آگے چلتے ہیں۔بعد ازاں چند سر پھرں نے 1999کے مارشل لا کی قانونی حیثیت کو عدالت عظمی ٰ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت نے حسب روایت نہ صرف مارشل لا کی توثیق کی بلکہ آگے بڑھ کر محبوب قائد کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا جس کی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔آج اگر کوئی اِس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ’ارشاد‘ کرے کہ یہ ایک بہترین فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں تین سال کے اندر اندر ’شفاف‘ انتخابات منعقد کروا کے اقتدار عوام کے ’منتخب نمائندوں‘ کو سونپ دیا گیاتو اِس سے بڑا لطیفہ کوئی نہیں ہو گا۔
یہاں ریفرنڈم سے لے کر ’شفاف‘انتخابات تک بہت سے لطیفے اکٹھے ہو گئے ہیں مگر سب کا ذکر انسب نہیں، فقط دو تین سُن لیں۔پہلا لطیفہ تو میں عرض کر چکا ہوں کہ آئین میں ترمیم کا اختیار جو کہ مانگا ہی نہیں گیا تھا وہ محبوب قائد کو دے دیا گیا، محبوب قائد نے اُس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں 37ترامیم کیں۔جی ہاں 37۔ یعنی ایسا کام جو عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت بھی نہیں کر سکتی تا وقتیکہ اُس کے پاس دو تہائی اکثریت ہو، وہ محبوب قائد نے یک جنبش قلم 37مرتبہ کیا۔دوسرا لطیفہ، آئین میں ترمیم کا اختیار اِس بات سے مشروط تھا کہ عدلیہ کی آزادی، اسلامی تشخص اور صوبائی خود مختاری سے متعلق شقوں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ محبوب قائد نے پولیس آرڈر جاری کرکے صوبائی خود مختاری کی دھجیاں اڑائیں اور جو علاقہ اپنی وفاقی حکومت کے زیر انتظام تھا،یعنی اسلام آباد، وہاں یہ آرڈر جاری نہیں کیا۔اِس پر بھی کوئی ’ارشاد‘ نہیں ہوا۔تیسرا لطیفہ۔اقتدار سویلین قیادت کو منتقل نہیں ہوا بلکہ نومبر 2007تک محبوب قائد اپنی خوبصورت وردی میں جگمگاتے رہے، 2008میں مستعفی ہوئے۔اِس پورے قضیئے میں سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ آمریت کا جواز فراہم کرنے کے لیے کھلے خزانے اعتراف کیا گیا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، اب کوئی بھی فیصلہ 12اکتوبر کے عمل کو ’ریورس‘ نہیں کر سکتا سو مدعی سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ کیا کیا جاوے۔اِس لطیفے پر بھی ایک قہقہہ بنتا ہے۔ اگر اِس استدلال کو درست مان لیا جائے تو پھر ہمیں آئین کی ضرورت نہیں رہتی، پھر یہ لکھ دینا چاہیے کہ جب کوئی زور آور آئین پامال کرے تو اُس کی طاقت کی وجہ سے نہ صرف اُس کے اقدام کی توثیق کرو بلکہ اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دو تاکہ وہ کھل کر کھیل سکے۔اور پھر اسی استدلال کودیگر مقدمات میں کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ قتل کے مقدمے میں مدعی سے ہی پوچھ لیا جائے کہ بھائی بندہ تو تمہارا قتل ہو چکا، اب واپس تو آ نہیں سکتا، تم ہی بتاؤ فیصلے میں کیا لکھیں۔اور پھر مدعی بیچار ہ عجز والحاح سے کہے کہ مائی باپ یہی لکھ دیں کہ میری چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ضمانت دی جائے کہ مجرم عدالت سے باہر انہیں قتل نہیں کرے گا۔منصف یہ بات فیصلے میں لکھ دے اور پھر ’ارشاد‘ کرے کہ اُس کی تعظیم کی جائے۔اسے سنجیدہ لطیفہ کہیں گے۔
کالم کی دُم: عرفان صدیقی صاحب ایک مرتبہ قلم کو ہتھکڑی لگوا چکے ہیں،اصولاً انہیں آرام کرنا چاہیے اور گھر بیٹھ کر گڑگڑی پینی چاہیے لیکن یوں لگتا ہے جیسے گڑگڑی کی نسبت انہیں قلمی مہ کشی میں زیادہ لطف آتا ہے۔ ’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘۔میں اِس نشے سے واقف ہی نہیں اِس کا شکار بھی ہوں (Millineals نہ جانے اِس کا کیا مطلب نکالیں)سو اِس کیفیت کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔گزشتہ چند دنوں میں عرفان صاحب نے کچھ کالم لکھ کر ایک مرتبہ پھرٹھہرے ہوئے پانیوں میں تلاطم پیدا کر دیا ہے۔ اِن کے کالموں کے جواب میں آج جنگ میں ’جواب آں ارشاد‘ شائع ہوا توخیال آیاکہ کیوں نہ میں بھی اِس زمین میں طبع آزمائی کروں۔ میں عرفان صاحب جیسا انشا پرداز تو نہیں البتہ آئین کی کچھ سدھ بدھ ضرور ہے۔اسی لیے سوچا کہ آئینی تاریخ کو مسخ نہ ہونے دیا جائے اور ریکارڈ کی درستگی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا جائے۔ اپنے حصے کا جواب عرفان صاحب اپنے اچھوتے رنگ میں دیں گے، اُس کا انتظار رہے گا۔