منتخب تحریریں

چپ کی بیماری

Share

نہ طاعون پھیلی ہے نہ ملیریا یا ہیضے کی وبا مگر خوف سے خاموشی اور سراسمیگی چھائی ہوئی ہے۔ بظاہر نہ ایسا کوئی خطرہ اور نہ ہی دور دور تک ایسا کوئی امکان ہے مگر پھر بھی سب کو پُراسرار سی چپ لگی ہے۔ صدیوں پہلے برصغیر میں طاعون، ہیضہ یا ملیریاکی وبا پھیلتی تھی تو بستیوں کی بستیاں اُجڑ جاتی تھیں، گھر اُجڑ جاتے تھے، ہنستی بستی آبادیوں میں قبرستان کا سماں ہوتا تھا مگر اِن دنوں اسموگ کے علاوہ کوئی بڑی وبا نہیں ہے اور یہ بھی اتنی ظالم نہیں کہ کسی کی جان ہی لے لے۔ اِس کے باوجود معاشرہ خاموش ہے، سکوتِ مرگ طاری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بقول منیر نیازی شہر پر آسیب کا سایہ ہو۔

وہ بھی چپ ہے تو میں بھی چپ ہوں۔ مریم آزاد ہونے کے باوجود خاموش ہے، حمزہ جیل کاٹنے کے باوجود دل کی بات کر نہیں پاتا، بلاول بولتے بولتے رک جاتا ہے، نواز کا بیانیہ لندن روانہ ہو گیا، مریم کی زوردار تقریریں باپ کے لئے دعائوں میں تبدیل ہو چکیں، گرفتار خواجہ برادران اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات سے گریز کرنے لگے ہیں۔ خورشید شاہ، آصف زرداری، شاہد خاقان عباسی اور سبھی زعمائے ملت سرفروشی چھوڑ کر مصلحت کی خاموش چادر اوڑھے اچھے وقت کے انتظار میں ہیں۔ کہنے کو تو یہ معاشرہ زندہ ہے، لوگ سانس لے رہے ہیں، کھا پی رہے ہیں مگر اس مجرمانہ خاموشی کو اگر محسوس کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ اس معاشرے کی روح پر ایسا گھائو لگا ہوا ہے کہ وہ بولنے کے قابل بھی نہیں رہا۔

بلاول ہو یا مریم اگر ان تازہ دم نوجوانوں کی زبانوں پر بھی قفل پڑے نظر آئیں، اعتزاز، تاج حیدر اور رضا ربانی جیسے نظریاتی سلگتے مسائل پر آزادانہ رائے نہ دے رہے ہوں، فرحت اللہ بابر اور خواجہ آصف بےباکی چھوڑ کر احتیاط اور ہوش مندی پر اتر آئیں تو سمجھ لیجئے کہ معاشرہ بیمار ہے۔ عہد ساز ولیم شیکسپیئر نے 5صدیاں پہلے لکھا تھاSomething is rotten in the state of Denmark۔ ہمارے خاموش معاشرے کی پُراسرار خاموشی ڈنمارک سے بھی خطرناک ہے جب معاشرے کو زبان دینے والوں کی آوازیں بند ہو جائیں، باغی مصلحت کی پناہ میں آ جائیں، سچے اور بڑبولے تقیہ کا نظریہ اپنا لیں تو سمجھ لیں خطرناک بیماری عود کر آئی ہے۔

ابدی سچ یہ ہے کہ صحت مند معاشرہ دیوانگی اور فرزانگی کا مجموعہ ہوتا ہے اگر کسی ملک سے دیوانے اٹھ جائیں اور سبھی لوگ سیانے ہو جائیں تو سمجھیں جبر نے معاشرے کی توانائی، فکر اور آزادیٔ اظہار کو چھین لیا ہے۔ دنیا میں صرف وہ قوم شکست کھاتی ہے جو دیوانوں، باغیوں اور جنونیوں سے خالی ہو۔ فرزانے مصلحت پسند ہوتے ہیں جنونی، دیوانے اور باغی ہی معاشروں کو آگے لیکر چلتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے کی صحت، تازگی اور مستقبل کا تجزیہ کرنا ہو تو دیکھ لیں کہ وہاں کے دیوانے آزاد ہیں یا سب کے سب اسیر ہو گئے، کیا قوم کے منصور اور سرمد زندہ بھی ہیں یا سارے کے سارے قتل گاہوں میں گردنیں کٹنے کے انتظار میں ہیں؟

کیا حکومت، کیا اپوزیشن، کیا میڈیا، کیا ادارے، کیا عدلیہ اور کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں، سب ہی سرفروشی کا راستہ چھوڑ چکے۔ بڑے بڑے محبّانِ وطن بھی معاشرتی مُردنی اور بیمار خاموشی کو ختم کرنے کے لئے بہادری نہیں دکھا رہے۔ کسی بھی قوم کی وہ ’’تخلیقی اقلیت‘‘ ہی جو اسے ترقی اور فکر کی مہمیز دیتی ہے مگر یہاں وہ دانشمند کہیں بیہوش اور بےسدھ پڑے ہیں۔ مغرب کو اسی تخلیقی اقلیت ہی نے بڑی جرات، بہادری اور پامردی سے فکری، سیاسی و تخلیقی آزادی دلوائی۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ محمود علی قصوری اور عاصمہ جہانگیر کے جانے کے بعد پورے ملک میں کون ایسا ہے جو انسانی حقوق کے لئے ڈٹ جائے، کون ہے جو آئین کی ہر ہر شق کو مقدس جان کر اسکا دفاع کرے؟ کون ہے جو قانون کو موم کی ناک بنانے پر اب سڑک پر آکر احتجاج کرے؟ اِدھر اُدھر نظر دوڑائیںکوئی بھی نہیں جب سب سرفروش ہی روح فروش اور سارے اہلِ سیاست، اہلِ مصلحت بن جائیں تو پھر معاشرہ آگے کیسے بڑھے گا؟ بیمار معاشرہ آگے کے سفر سے رک جاتا ہے اور پھر بالآخر تعفن زدہ ہو جاتا ہے آج اگر معاشرے کے تخلیقی سوتے مر رہے ہیں تو کون ہے جو انہیں جگانے کی کوشش کرے؟ کہاں ہیں غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ؟ وہ نہیں ہیں اور نہ ان جیسا کوئی اور جراتِ اظہار والا، اسی لئے تو شاعری میں تاثیر نہیں؟ کون ہے جو اب کسی شاعر کے فلسفہ زندگی سے متاثر ہوتا ہو، کوئی بھی نہیں۔ پوری قوم پر نظر ڈالیں، کیاکوئی سر سیّد جیسا ہے جو پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر چلے اور نیا راستہ نکالے، کوئی ایک بھی ایسا ہے جو قوم کا درد ویسا محسوس کرے جیسا سرسید محسوس کرتا تھا۔ لیڈرانِ گرامی کو دیکھیں کیا کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اپنے اصولوں کی خاطر بھٹو کی طرح پھانسی کے پھندے کو چوم سکے۔ کسی کو گرمی لگتی ہے تو کوئی بیمار ہے، کسی کو علاج کے لئے باہر جانا ہے تو کسی کو اپنی پسند کے ڈاکٹر سے علاج کرانا ہے۔ اگر واقعی یہ قوم کے درد میں ڈوبے ہوں تو کیا ایسی شکایات اور مطالبات کریں۔ سیاسی اسیری کی جو شاندار مثالیں حسرت موہانی، آزاد، نہرو اور نوابزادہ نصراللہ خان کی نسل قائم کر چکی وہ اب کہاں؟ نوجوان سیاستدانوں کو دیکھیں مریم تب بولے گی جب والد کو ضرورت ہوگی، عوام کے مسائل بھی تب ہی اجاگر ہوں گے جب کوئی مشکل ہو گی، وہ پارٹ ٹائم سیاست کرتی ہیں جبکہ جمہور کو فل ٹائم سیاستدان کی ضرورت ہے۔ بلاول نظریاتی سیاست کا وارث ہے لیکن کیا غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے لئے کبھی گہری سوچ رکھی؟ کیا ان کے مسائل کے حل کے لئے کوئی نیا منشور، کوئی نیا طریق کار لیکر آیا ہےکیا اِسے علم ہے کہ گندم کی نئی قیمت قابلِ قبول نہیں؟ ظاہر ہے نہیں۔ عمران اور اس کی جماعت نیا پاکستان بنانے آئی تھی مگر اس نے تو پرانے پاکستان کی چولیں بھی ہلا ڈالی ہیں۔ عمران کو تو ملک میں آزادیٔ فکر و اظہار کو فروغ دینا چاہئے تھا مگر اس نے تو آوازوں کا گلا دبوچنے کا سلسلہ اپنا رکھا ہے۔ صالحین کی جماعت سیاسی خلا سے نکل کر اب اسلام آباد کا لنکا ڈھائے جا رہی ہے حالانکہ پچھلے 5سال وہ اسی عمران خان کی اتحادی رہی اور پچھلے ڈیڑھ سال میں اس نے کسی ایک ایشو حتیٰ کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد تک میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر ٹریک ریکارڈ یہ ہے تو آگے مزاحمت کیا کرنی؟ اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعت (ق) کا کردار دیکھ لیں، اشارہ ہوتا ہے تو متحرک ہو جاتے ہیں اشارہ نہ ہو تو لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ سیاسی نقشہ جس سے مستقبل صاف پڑھا جا سکتا ہے۔ اس نقشے سے تو آگے بھی کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا۔ راستہ صرف ایک ہے کہ عوام، ادارے اور سیاستدان آئین کی بالادستی اور اس پر سو فیصد عمل کے لئے یکسو ہو جائیں۔ اگر آئین کی زنجیر کو پکڑے ہوئے جمہور کی آزادیٔ فکر کی تخلیق اور رائے کے اظہار کو یقینی بنایا جائے تو نئی صبح طلوع ہو سکتی ہے ورنہ یہی چپ ہمارا مقدررہے گی۔