پاکستان

چینی اور آٹا بحران: اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات ذمہ دار قرار

Share

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں ملک میں ماضی قریب میں پیدا ہونے والے چینی کے بحران کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔

حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی کو بھی چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے فروری کے مہینے میں ایف آئی اے کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تفتیش کر کے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے تھے۔ ایف آئی اے نے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں سے تحقیقات کے بعد یہ رپورٹس تیار کی ہیں۔

ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اس کمیشن میں انٹیلیجنس بیورو، ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک، ڈائریکٹوریٹ جنرل اور ایف بی آر کے نمائندے بھی شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا گیا سیاسی شخصیات کا اثر و رسوخ اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ہونے کی وجہ سے انھوں نے کم وقت میں زیادہ سبسڈی حاصل کی اور بہت ہی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع بھی یقینی بنایا۔

چینی کا بحران
چینی بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر عبدالرزاق داؤد سے ملاقات کی اور ان سے وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے وقت لینے کی درخواست کی۔

پاکستان کے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ کمیشن نے انکوائری کے دوران شوگر ملز ایسوسی ایشن سے مؤقف ہی نہیں لیا۔

خیال رہے کہ جہانگر ترین نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور کئی آزاد ارکان کو اپنے ذاتی جہاز میں بٹھا کر عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالا لے کر آتے اور جاتے رہے تھے۔

خسرو بختیار وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور ان کے پاس وزارت تحفظ خوراک اور تحقیق کی وزارت ہے۔ وہ عمران خان کے ساتھ اکثر اہم میڈیا بریفنگز میں بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت پنجاب کابینہ میں شامل ہیں اور صوبائی وزیر خزانہ ہیں۔

حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے بیٹے ہیں۔

خیال رہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں پہلے ہی وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت کے رہنما پر بحران کی ذمہ داری کا الزام عائد کرتی آئی ہیں۔

چینی کا بحران
لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے گزشتہ تین روز میں آٹھ ہزار سے زائد چینی کے تھیلے قبضے میں لیے ہیں جن کا مجموعی وزن چار لاکھ کلو سے زیادہ بنتا ہے

چینی کا بحران کیسے پیدا ہوا؟

تحقیقاتی کمیشن کی فہرست میں جہانگیر ترین کی ’جے ڈی ڈبلیو‘ شوگر ملز اور ’جے کے کالونی- II‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سال 2018-19 کے دوران سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو پہنچایا گیا ہے۔

جے ڈی ڈبلیو نے کل چینی کی پیداوار 640،278 ٹن کی جس میں سے 121،621 برآمد کی گئی جو کل برآمدات کا15.53 فیصد بنتا ہے۔ جہانگیر ترین کو حکومت کی طرف سے 56 کروڑ سے زائد سبسڈی ملی جو کل دی گئی سبسڈی کا 22.52 فیصد بنتا ہے۔

جہانگیر ترین کی ہی جے کے کالونی- II نے 70،815 ٹن چینی کی پیداوار کی اور 1،000 ٹن برآمد کر لی اور پھر اس پر مزید سبسڈی بھی حاصل کی۔

وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے ’آر وائی کے گروپ‘ نے 31.17 فیصد چینی برآمد کی اور 18.31 فیصد سبسڈی حاصل کی جو 45 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔

دیگر کمپنیوں میں ’الموئیز انڈسٹریز‘ اور ’تھل انڈسٹری کارپوریشن‘ ہیں جنھیں کل سبسڈی کا 16.46 فیصد دیا گیا۔

کمیشن رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد جہانگیر ترین نے ٹوئٹر پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ انھیں تین ارب روپے کی ملنے والی سبسڈی میں سے ڈھائی ارب کی سبسڈی مسلم لیگ ن کے گذشتہ دور میں دی گئی جب وہ اپوزیشن میں تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میری کمپنیوں نے 12.28 فیصد چینی برآمد کی اور یہ مارکیٹ کا 20 فیصد تک بنتا ہے جبکہ برآمدگی ’پہلے آئیں پہلے پائیں‘ کی بنیاد پر کی گئیں۔

مونس الہیٰ نے مقامی میڈیا پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں تاہم انھوں نے یہ وضاحت بھی دی کہ ان کا رحیم یار خان ملز میں بلاواسطہ شیئرز ہیں لیکن ملز انتظامیہ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

جبکہ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ خسرو بختیار کا ابھی تک مؤقف سامنے نہیں آیا۔

انکوائری کمیشن رپورٹ کے مطابق سبسڈی اور برآمدات کی اجازت حاصل کرنے والی دیگر شوگر ملز میں ہنزہ شوگر ملز، انڈس شوگر ملز، فاطمہ شوگر ملز، حسین شوگر ملز، شیخو شوگر ملز، نون شوگر ملز، جوہر آباد شوگر ملز اور ہدیٰ شوگر ملز شامل ہیں۔

رپورٹ
ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کا عکس

سبسڈی اور برآمدات کے لیے کس نے دباؤ ڈالا؟

انکوائری رپورٹ میں پنجاب حکومت سے متعلق بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے برآمدات کی اجازت دی۔

تاہم اس انکوائری میں یہ کہیں ذکر نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے کس کے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی اور برآمدات کی اجازت بھی دی۔

رپورٹ کے مطابق ان شوگر ملز کو سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق شوگر ملز نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ملز بند کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں سستے داموں گنا خریدا مگر زیادہ منافع کی دوڑ میں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔

چینی کا بحران

آٹے کا بحران

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔

پاکستان میں جنوری اور فروری میں میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو ہو گئی تھی۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا، جس میں سرکاری افسران اور اہم سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔