پاکستانہفتہ بھر کی مقبول ترین

’چینی برآمد ہوئی بھی تھی یا نہیں؟‘: حکومت کا تحقیقات کا حکم

Share

حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں چینی بحران سے متعلق تحقیقات کرنے والے کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے پر بھی تفتیش کرے کہ حکومت کی طرف سے چینی برآمد کرنے سے متعلق جو اجازت نامہ دیا گیا تھا اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے کتنی چینی بیرون ممالک بھجوائی گئی۔

اس تحقیقاتی کمیشن کو اس بارے میں بھی جانچ پڑتال کرنے کا کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کا بھی سراغ لگائے کہ چینی کی برآمد جعلی ناموں سے تو نہیں کی گئی۔

کمیشن کو اس بارے میں سٹیٹ بینک سے بھی معلومات لینے کے بارے میں کہا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اُس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں قومی اقتصادی کمیٹی نے ملک میں چینی کی اضافی پیداوار کے بعد شوگر ملز مالکان کو 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ قومی اقتصادی کمیٹی کے اس فیصلے کی توثیق وفاقی کابینہ نے دی تھی۔

ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق اپنی رپورٹ کو گذشتہ ہفتے حکومت کو بھجوا دی تھی تاہم حکومت نے اس معاملے کا فرانزک آڈٹ کروانے کا فیصلہ کیا جس کی حتمی رپورٹ 25 اپریل تک متوقع ہے۔

حکومتی جماعت کے ذرائع کے مطابق چند روز قبل ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جب چینی بحران کا معاملہ زیر بحث آیا تو متعدد وزرا نے یہ معاملہ اُٹھایا کہ ایسی معلومات سامنے آرہی ہیں کہ چینی بیرون ملک برآمد کرنے کی بجائے افغانستان میں سمگل کی گئی ہے اور اس میں کسٹم کے عملے کے ملوث ہونے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

یاد رہے کہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرون ممالک چینی برآمد کرنے کی مد میں پنجاب حکومت کی طرف سے شوگر ملز مالکان کو جو تین ارب روپے کی سبسڈی دی گئی تھی اس میں زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اُٹھایا ہے۔

جہانگیر ترین چھ شوگر ملز کے مالک ہیں اور رپورٹ کے مطابق اُنھوں نے سبسڈی کی مد میں 56 کروڑ روپے لیے تھے۔

اس کے علاوہ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک وفاقی وزیر خسرو بختیار کی شوگر مل کو بھی 35 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی۔

صوبائی حکومت کی طرف سے سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود مارکیٹ میں چینی کے ریٹ بڑھا دیے گئے جس سے شوگر ملزمالکان کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ چینی بحران سے متعلق حکام کی طرف سے مختف معاملات پر دی گئی ہدایات کی روشنی میں کام شروع کردیا گیا ہے جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران افغانستان سے ہونی والی تجارت کی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ چمن بارڈر اور طورخم بارڈر کے ذریعے ہونے والی تجارت کی تفصیلات بھی حاصل کی جارہی ہیں۔

اہلکار کے مطابق چینی کی برآمد کے حوالے سے جن بینک اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کی گئیں، ان کی تفصیلات حاصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد کی مالی حثیت کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔

چینی

اہلکار کے مطابق بےنامی اکاؤنٹس پر ابھی بھی کارروبار ہو رہے ہیں کیونکہ ٹیکس اور دیگر معاملات سے بچنے کے لیے بڑے بڑے بزنس مین ان کاموں میں ملوث ہیں۔

اہلکار کے مطابق اس معاملے پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ آیا چینی کو بیرون ممالک برآمد بھی کیا گیا ہے یا ملک میں ہی ذخیرہ کر کے محض کاغذوں میں ہی برآمدگی ظاہر کی گئی ہے۔

اہلکار کے مطابق تحقیقاتی ٹیم 16 سے زائد شوگر ملز کے آڈٹ کا جائزہ لے رہی ہے اور اس بارے میں جلد ہی رپورٹ مرتب کر لی جائے گی۔

ملک میں شوگر ملز کی تعداد 80 سے زیادہ ہے اور اس کاروبار سے وابسطہ بہت سے افراد سیاست میں بھی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا اس ضمن میں ایک ٹویٹ سامنے آیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ کمیشن نے صرف 9 شوگر ملز کو آڈٹ کے لیے منتخب کیا ہے۔

جہانگیر ترین کا کہنا تھاکہ اُنھیں ان کی شوگر مل کے آڈٹ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے ایسا کوئی غلط کام نہیں کیا جس کو چھپایا جائے۔