منتخب تحریریں

کرنے کے کام

Share

سیالکوٹ موٹروے کو لاہور سے ملانے والی رنگ روڈ پر ہونے والے دلخراش واقعے کی گونج نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں رہائش پذیر پاکستانیوں کے لیے بہت بڑے صدمے اور افسوس کا باعث ہے۔ کل رات امریکہ سے ڈاکٹر انیس کا فون آیا تو وہ افسردہ بھی تھا اور خوفزدہ بھی۔ پوچھنے لگا :خالد بھائی! اب ہم پاکستان آئیں تو موٹرے پر بچوں کے ساتھ کس طرح سفر کریں گے؟ اب تو موٹرویز بھی محفوظ نہیں رہیں۔ پاکستان میں اسلحہ لائسنس لینے کا کیا طریقہ کار ہے؟ کیا یہاں آرمز پرمٹ مل جاتا ہے؟ میں نے کہا: یہ پاکستان ہے‘ امریکہ نہیں کہ آپ اسلحہ کی دکان پر گئے‘ ڈرائیونگ لائسنس یا کوئی اور فوٹو آئی ڈی دکھائی اور بندوق‘ رائفل یا پستول خرید لی۔ یہاں اسلحہ خریدنے سے پہلے لائسنس لیا جاتا ہے اور آپ کیونکہ پنجاب کے رہائشی ہیں‘ لہٰذا آپ کو لائسنس بھی پنجاب سے لینا ہو گا اور وہ فی الحال بند ہیں۔پھر اس سانحے پر لمبی گفتگو ہوئی جو صرف افسوس‘ ملال اور غم و غصہ کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی۔
یہ ایک دل ہلا دینے والا واقعہ ہے ‘لیکن اگر مجھے معاف کر دیا جائے تو میں کہوں گا یہ سارا شور و غوغا‘ یہ سارا کہرام اور حکومت کی ساری پھرتیاں چار دن کی بات ہے۔ متاثرہ خاتون واپس فرانس چلی جائے گی‘ مجرموں کو ‘اول تو امکان یہی ہے کہ پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا ‘ یہ بھی ممکن ہے کہ جدید سائنسی شواہد کی بنیاد پر انتہائی تیز رفتاری سے چلائے جانے والے مقدمے کے بعد قرار واقعی سزا مل جائے۔ لیکن کیا یہ سب کچھ کافی ہے؟ کیا اس سے اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکے گا؟ کیا تھوڑے دن کے بعد ہمیں من حیث القوم یہ یاد بھی رہے گا کہ کیا ہوا تھا؟ درجنوں نہیں‘ سینکڑوں واقعات ہیں کہ جب ہوئے تو چاروں طرف کہرام مچ گیا‘ لیکن تھوڑے عرصے کے بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہا۔ سانحہ ساہیوال‘ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو سر عام ڈنڈے مار مار کر جان سے مار دینے کا واقعہ‘ اے ٹی ایم میں کیمرے کو منہ چڑانے والے فاتر العقل کی پولیس تحویل میں موت‘ وڈیروں کے بچوں پر قتل کے مقدمات اور بے شمار اسی قسم کے واقعات جن کا کوئی منطقی نتیجہ نکلنا چاہیے تھا‘ سسٹم کو درست ہونا چاہیے تھا اور آئندہ کے لیے اس کا کوئی حل نکلنا چاہیے تھا‘ لیکن صد افسوس کہ ریاست ایسا کرنے میں قطعاً ناکام رہی۔
میں ایک عرصے سے موٹروے کے معاملات پر نظر رکھ رہا ہوں۔ بلکہ اتنا لکھا کہ بعض قاری تو باقاعدہ اس سے تنگ آ گئے اور ای میلز کے ذریعے مجھے باقاعدہ برا بھلا کہنے اور طعنے مارنے پر آ گئے کہ آپ کو اس موضوع کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا لکھنے کو؟
میرا مسئلہ تب بھی معاملات کو نچلی سطح سے سدھارنے کا تھا اور حالیہ واقعہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ اور خاص طور پر میں کہوں گا کہ موٹروے اس معیار پر پوری اترے بغیر چلانے کا جو رواج ہمارے ہاں چل نکلا ہے یہ اس کی انہی خرابیوں میں سے ایک خرابی ہے اور جب تک اسے مکمل طور پر قواعد کے مطابق پورا نہیں کیا جاتا اس قسم کے واقعات کا امکان ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ڈکیتی کے دوران گھر میں مردوں کی عدم موجودگی یا کئی مواقع پر ان کی موجودگی میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی گونج کبھی کبھار سنائی دیتی رہتی ہے‘ تاہم اس قسم کے بیشتر واقعات میں متاثرہ خاندان یہ سوچ کر کہ مالی نقصان تو جو ہونا تھا ہو گیا اب معاشرے میں ایک عزت بچی ہوئی ہے وہ بھی خراب نہ ہو جائے‘ لہٰذا وہ ڈکیتی کے واقعے میں سے زیادتی کا پہلو بتاتے ہی نہیں اور ایسے بے شمار واقعات ہمارے سامنے ہی نہیں آتے۔ اس حوالے سے یہ کوئی حیران کن واقعہ نہیں ہے‘ تاہم وقت کی ضرورت ہے کہ اس اندوہناک اور المناک واقعے کو بنیاد بنا کر قانون سازی میں مناسب ترامیم‘ قانونِ شہادت میں جدید سائنسی طریقہ کار کی شمولیت اور بطور گواہی قانونی حیثیت‘ دورانِ مقدمہ مختلف قانونی موشگافیوں اور طوالت دینے کے حربوں سے نجات کا طریقہ کار بھی طے کرلیا جائے۔ اب پرانا قانون ان تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر اور عاری ہے ‘جو فی الوقت درکار ہیں۔
موٹرویز کو موجودہ حکومت میاں نواز شریف کا منصوبہِ خیال (Brainchild) سمجھتی ہے اور اس کے بارے میں اگر کچھ کرتی بھی ہے تو نہایت بے دلی اور مجبوری کے عالم میں کرتی ہے۔ موٹرویز کے معاملے میں کوئی کام خوشی سے کرنا تحریک انصاف کی حکومت کیلئے بہت مشکل ہے۔ اندازہ کریں دو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں شام کوٹ (خانیوال) انٹرچینج پر ایک طرف موٹروے پر چڑھنے اور اترنے کیلئے ٹال ٹیکس بوتھ ہی نہیں بن پائے۔ یہ تو صرف ایک مثال تھی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ موٹروے کے بعض سیکشنز پر اردگرد کے گاؤں والوں نے اپنی سہولت کے لیے آر پار جانے کی غرض سے دونوں اطراف میں لگی ہوئی باڑ (Fence) جگہ جگہ سے کاٹی ہوئی ہے۔ ملتان سے لاہور جانیوالی M-3 اور اسلام آباد جانیوالی M-4پر یہ باڑ درجنوں جگہ سے کٹی ہوئی ہے۔ ارد گرد کے دیہاتوں کے نوجوانوں کو کئی بار میں نے خود موٹروے کے کنارے ہارڈ شولڈر پر پکنک منانے کے طریقے میں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ موٹروے پر کئی جگہ پر مجھے ذاتی طور پر کتوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور کئی جگہوں پر گاڑیوں سے ٹکڑا کر مرے ہوئے کتے پڑے دیکھے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کتے لوہے کی تار والی باڑ پھلانگ کر تو نہیں آتے۔ باڑ جگہ جگہ سے کٹی ہوئی ہے لہٰذا کتے بھی موٹروے پر گھومتے پھرتے ہیں اور ارد گرد کے لوگ بھی۔ اب جرائم پیشہ افراد کو موٹروے پر آنے سے کون روک سکتا ہے؟ موٹروے پولیس کا کام صرف چالان کرنا نہیں بلکہ موٹروے پر محفوظ سفر کو یقینی بنانا ہے۔ دونوں اطراف پر لگی ہوئی باڑ اس محفوظ سفر کا ایک لازمہ ہے اور اس کی حفاظت بھی موٹروے پولیس کے فرائض میں شامل ہے۔ اس باڑ کی حفاظت کیلئے باقاعدہ سخت قانون ہونا چاہیے اور اسے کاٹنے‘ اتارنے یا نقصان پہنچانے کی صورت میں سخت سزا اور جرمانہ ہونا چاہیے۔ جہاں سے باڑ کٹے وہاں کے نزدیکی گاؤں کے ذمہ دار افراد کو اس کا جوابدہ ہونا چاہیے اور کسی عام شہری کو‘ خواہ اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ ہو یا نہ ہو‘ موٹروے پر آنے کی صورت میں سزا ہونی چاہیے۔ لیکن صرف یہی کافی نہیں۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں ملتان تا عبدالحکیم اور ملتان تا سکھر موٹرویز چالو ہوئی ہیں۔ خیر پہلے تو یہ دونوں سیکشن چالو ہی بڑی مشکل سے ہوئے ہیں اوپر سے مزید زیادتی یہ ہوئی کہ دونوں سیکشنز پر موٹروے پولیس کی نفری ہی پوری نہیں۔ موٹروے کی تکمیل اور چالو ہونے کی تاریخ کا بہت پہلے سے پتا چل چکا ہوتا ہے اور اس کو چالو کرنے سے پہلے اس موٹروے پر پولیس کی نفری تعینات کرنا اس سارے نظام کا سب سے لازمی حصہ ہوتا ہے‘ لیکن موٹروے چل پڑتی ہے اور پولیس کی تعیناتی تو رہی ایک طرف ان کی بھرتی ہی نہیں ہوتی۔ ٹریننگ کا مرحلہ تو اس کے بعد آتا ہے اور پھر کہیں جا کر موٹروے پولیس اپنی ڈیوٹی پر آتی ہے۔
ہم موٹروے پر جو ٹال ٹیکس دیتے ہیں وہ موٹروے استعمال کرنے کے علاوہ ان تمام سہولیات کیلئے ادا کیا جاتا ہے جن سے ہم موٹروے پر استفادہ کرتے ہیں۔ سروس ایریاز‘ سائیڈوں پر لگی باڑ اور موٹروے پولیس کی موجودگی اس سارے پیکیج کا حصہ ہے۔ حکومت نے ابھی چند روز قبل اس ٹال ٹیکس میں دس فیصد اضافہ کیا ہے لیکن محفوظ سفر اب خواب بنتا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کو سیاسی مخالفین کے لتے لینے سے فرصت نہیں مل رہی اور موٹروے کے حفاظتی نظام کے اپنے کپڑے اترے پڑے ہیں۔ سرکار میں کسی وزیر کو باقی ہر کام آتا ہے صرف اپنے محکمے کا کام ہی نہیں آتا۔حالانکہ کرنیوالے کاموں کی ایک طویل فہرست ان کی نظر ِکرم کی منتظر ہے۔