فیچرز

کسووری: لاہور کے چڑیا گھر کا وہ نایاب پرندہ جسے 50 سال میں کوئی جیون ساتھی نہ مل سکا

Share

وہ اس قدر خوبصورت ہے کہ اس کے رنگوں میں کھو کر اس سے نظریں ہٹانا مشکل ہو جائے۔ قدم زمین پر رکھتے ہی لچک کر یوں اٹھاتی ہے کہ جیسے ڈر ہو کہ میلے نہ ہو جائیں۔ جب چلتی ہے تو اس کے سیاہ کالے لمبے بالوں کی چمک پورے بدن پر لہراتی ہے۔

دراز قامت پر لمبی گردن اور اس پر فیروزی اور لال رنگ کی آمیزش سے وجود پاتا قدرتی بناؤ سنگھار۔ ان ہی فیروزی دھاروں سے ابھرتی انتہائی گہرے سرخ رنگ کی کلغی یوں محسوس ہوتی ہے جیسے دو بندے جھوم رہے ہوں۔ سر پر سات انچ اونچا کلہ۔

یہ مادہ کسووری ہے۔ بنا پروں کے زمین پر دوڑنے والے چند پرندوں میں سے ایک ہے مگر باقی سب سے منفرد اور دلکش۔ ایسے خوبصورت ساتھی کا فراق کون چاہے گا۔

لاہور کے چڑیا گھر میں قید ایک بے نام نر کسووری برسوں سے ایسے ہی کسی ہم سفر کی آمد کا منتظر رہا ہے۔ اس انتظار میں اس کی تمام عمر بیت گئی۔ یہ انتظار تھا یا کچھ اور لیکن وہ اپنی نوع کی عمومی مدتِ حیات سے زیادہ جی چکا ہے۔

جانور اور پرندے عمومی طور پر جوڑوں یا گروہوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ تنہائی میں وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ ان کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

کسووری نے تو پچاس برس اکیلے گزار دیے۔ لاہور کے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر چوہدری شفقت کو یاد ہے کہ ایک مادہ کے ہمراہ یہ کسووری سنہ 1971 میں نیوزی لینڈ سے خرید کر پاکستان لایا گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر پانچ برس تھی۔ اس کی مادہ کچھ ہی دنوں میں مر گئی تھی۔

کسووری

اب کسووری تقریباً 54 برس کا ہے۔ چوہدری شفقت بتاتے ہیں کہ ‘قدرتی ماحول میں ایک کسووری کی عمر 40 سے 45 برس اور قید میں 50 سال تک ہو سکتی ہے۔ یہ اب بھی صحت مند ہے۔’

تنہائی برداشت کرتا کسووری اتنے لمبے عرصے میں ڈپریشن کا شکار کیوں نہ ہوا؟ اتنے برسوں میں اس کے لیے کوئی ساتھی تلاش کیوں نہ کیا جا سکا؟ ماہرین کہتے ہیں اس کی ایک وجہ کسووری کا پیچیدہ نظامِ افزائشِ نسل ہے۔

‘نر انڈوں پر بیٹھتا، بچے پالتا ہے’

آسٹریلیا اور قریبی جزائر پر پھیلے گرم مرطوب گھنے جنگلات کے باسی کسووری کو طبعاً تنہائی پسند تصور کیا جاتا ہے۔

جنگل کے ماحول میں نر اور مادہ اپنا اپنا علاقہ متعین کر لیتے ہیں اور اس میں کسی دوسرے کی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔ لیکن ملن کے دنوں میں مادہ نر کے علاقے میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ اس علاقے میں خصوصاً کسی دوسری مادہ کی پرچھائی بھی برداشت نہیں کرتی۔

نر کسووری پتوں اور شاخوں کا گھونسلا بناتا ہے اور مادہ اس میں انڈے دیتی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد وہ اسے چھوڑ کر کسی دوسرے نر کے علاقے میں چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد نر کسووری انڈوں پر بیٹھتا ہے اور بچے نکلنے کے بعد انہیں پالتا بھی ہے۔

لیکن لاہور کے اکیلے کسووری کو اس کی کیا پرواہ۔ یہ ہر جائی پن تو اس کی جبلت میں ہے۔ اس کو بھی کوئی جیون ساتھی ملتا تو وہ خوشی سے بچے کیوں نہ پالتا؟ وہ تو ہر ملن کے موسم میں بیتابی سے مادہ کا منتظر رہتا ہو گا۔۔۔

کسووری

‘قید کی زندگی میں اس کی افزائش مشکل ہوتی ہے’

چڑیا گھر کے ڈائریکٹر چوہدری شفقت کہتے ہیں افزائش کا یہ قدرتی طریقہ کار کسووری کے لیے قید میں میسر آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ماحول کی تبدیلی کے ساتھ یہ ملن نہیں کر پاتا۔

‘قدرتی ماحول سے نکل کر جب یہ قید میں آتے ہیں تو زیادہ تر افزائشِ نسل نہیں کر پاتے۔ اسی لیے دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی قید میں کسووری موجود ہیں، ان میں افزائشِ نسل نہ ہونے کے برابر ہے۔’ اس طرح کسووری ایک نایاب پرندہ ہے۔

چوہدری شفقت کے مطابق یہی وجہ ہے کہ لاہور کے تنہا کسووری کے لیے ساتھی بھی نہیں ڈھونڈھا جا سکا۔ ‘یہ ایک نایاب پرندہ ہے۔ نایاب پرندوں کی خرید و فروخت اور ترسیل کے حوالے سے قوانین انتہائی سخت ہیں۔’

جنگل سے کوئی کیوں نہیں لایا جا سکتا؟

لاہور کے چڑیا گھر کی ایجوکیشن آفیسر کرن سلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا بالکل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

‘دنیا بھر میں پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی جانور یا پرندے کو اس کے قدرتی ماحول سے الگ نہ کیا جائے۔ چڑیا گھر وغیرہ میں انہیں اسی وقت لایا جاتا ہے جب مقصد ان کی نسل کو بچانا ہو یا ان کے حوالے سے آگہی پیدا کرنا ہو۔’

اس لیے تنہا کسووری کے لیے ساتھی کسی دوسرے چڑیا گھر سے یا قید سے ہی لایا جانا تھا۔ کرن سلیم کے مطابق اس کے لیے کوششیں ضرور کی گئیں۔ ایک کوشش کچھ عرصہ قبل کی گئی۔

کرن سلیم کے مطابق سنہ 2016 میں جب چڑیا گھر کو نئے جانور خریدے کے لے فنڈ ملا تو اس وقت ایک مرتبہ پھر اکیلے کسووری کے لیے ساتھی ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔

‘ہم نے بہت کوشش کی کہ ہمیں اس کی قیمت کا اندازہ مل جائے، لیکن کہیں سے نہیں ملا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ باقی نہ اڑ پانے والے پرندوں کے برعکس کسووری کی فارمنگ وغیرہ بھی نہیں ہوتی۔’ اور اس کی ایک وجہ اس کی آدم بیزاری اور زمین پر سب سے خطرناک پرندے کی شہرت ہے۔

کسووری

‘اس کے پنجے کا ایک وار جان لیوا گھاؤ دے سکتا ہے’

کسووری جتنا حسین ہے، اتنا ہی خطرناک بھی ہے۔ یہ اپنے پنجوں میں خنجر لیے گھومتا ہے۔ اس کی مضبوط ٹانگیں، لمبی لچکدار گردن اور سر کا کُلّہ اسے گھنے جنگلات میں 50 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے میں مدد دیتی ہیں۔

اس کے تین شاخوں والے پنجوں میں درمیانی شاخ درحقیقت پانچ انچ لمبے ایک خنجر کی طرح ہے۔ اپنی مضبوط ٹانگوں کے ایک ہی وار سے کسووری اپنے مخالف کو جان لیوا گھاؤ دے سکتا ہے، چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو۔

انسان سے تو خصوصاً یہ کوسوں دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر آمنا سامنا ہو جائے تو ملاقات زیادہ تر خوشگوار نہیں رہتی۔ پھر بھی اس کے بچوں کو اور کچھ صورتوں میں بڑے پرندوں کو بھی پالنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ تاہم زیادہ تر اسے پالتو جانور بنانے سے گریز کیا جاتا ہے۔

چڑیا گھر کے ڈائریکٹر چوہدری شفقت کے مطابق ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کسووری نے حملہ کر کے انسانوں کی جان لی ہو۔ تاہم لاہور کے چڑیا گھر کے کسووری سے انہیں کبھی ایسا خطرہ محسوس نہیں ہوا اور نہ کوئی ناخوشگوار واقع پیش آیا۔

کسووری

اس نے اتنی لمبی زندگی تنہا کیسے گزاری؟

لاہور کے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر چوہدری شفقت کے مطابق طبعاً تنہائی پسند ہونے کی وجہ سے کسووری ڈپریشن کا شکار نہیں ہوا۔ وہ چڑیا گھر کے ایک کونے میں قائم اس کے احاطے میں بھی کم ہی اپنی کوٹھڑی سے باہر نکلتا تھا۔

اس کا نظارہ لینے کے لیے سیاحوں کو بھی ذرا کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چڑیا گھر کے ماحول میں اسے کسی دوسرے نر کسووری یا کسی بھی دوسری شکاری جانور کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ نہ ہی اسے اپنی خوراک یعنی پھل وغیرہ کے لیے کسی درخت کی حفاظت کرنا پڑی۔

ایجوکیشن آفیسر کرن سلیم کہتی ہیں کہ شاید یہی وجہ تھی کہ اس ماحول میں کسووری اپنی مدتِ حیات سے زیادہ جی گیا۔

’اب وہ عمر کے اس حصے میں ہے کہ تیکھے نین نقش والی کسی مادہ کی قربت کی کوئی امید بھی نہیں۔‘