منتخب تحریریں

کشمیر پر برادر ملک کی بے اعتنائی!

Share

    مختلف معاملات پر دس برس تک مسلسل رپورٹنگ کی مشقت کے بعد بالآخر خارجہ امور بھی میری “Beat”ہوئے تھے۔ہماری وزارت خارجہ میں ہر ہفتے کم از کم ایک بار بریفنگ ہوتی تھی۔وزارت کے سینئر ترین افسران یہ فریضہ سرانجام دیتے۔آغاز اس کا عموماََ کسی تحریری بیان سے ہوتا۔بعدازاں سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ بسااوقات ان میں کئی مقامات پر ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کا حکم بھی صادر ہوجاتا۔

میں نوٹس لینے کا عادی نہیں رہا۔ اپنی یادداشت پر بھروسہ رکھا۔ دفتر لوٹنے تک ذہن میں خبر کا انٹرو یعنی ابتدائیہ سوچ لیا ہوتا تھا۔ ٹائپ رائٹر میں کاغذ لگاکر ٹائپ کرنا شروع کرتا تو خبر کو One Goمیں ختم کردیتا۔وزارتِ خارجہ کی بریفنگ کے بعد مگر خبر لکھتے ہوئے کم از کم چار سے پانچ مرتبہ پوری خبر ازسرنو لکھنے کی مجبوری لاحق ہوجاتی۔یہ واحد موضوع تھا جس پر لکھی ہوئی خبر کا متن ڈیسک سے ہوتے ہوئے ایڈیٹر تک پہنچتا تو کئی بار میری طلبی ہوجاتی۔ایڈیٹر کے اٹھائے سوالات کے تسلی بخش جوابات فراہم کرنا پڑتے۔ عمومی زبان کے بجائے سفارتی اصطلاحات کے استعمال کے ذریعے خبر لکھنے کی ضرورت کا احساس دلایا جاتا۔خارجہ امور کے بارے میں اپنے مشقت بھرے سال یاد کرتا ہوں تو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان نوجوانوں کے حسد میں مبتلا ہوجاتاہوں جو ان دنوں یوٹیوب پر چھائے ہوئے ہیں۔ نہایت جرأت وبہادری سے وہ فرفربولتے ہوئے خارجہ امور کی تمام تر پیچیدگیاں بیان کردیتے ہیں۔غالباََ یہ وہی نوجوان ہیں جن کی جانب سے اقبالؔ ستاروں پر کمند ڈالنے والے خواب دیکھا کرتے تھے۔ مجھ بدنصیب کو جوانی میں کمند ہی دریافت نہ ہوئی اسے ستاروں پر ڈالنے کی جرأت کہاں سے لاتا۔جرأت سے مالامال سفارتی امور کے تمام تر پہلوئوں سے کامل آگاہ یوٹیوب والوں کی بدولت مجھے اب دریافت ہورہا ہے کہ پاکستان اپنے ایک ’’برادر ملک‘‘ سے ناراض ہوگیا ہے۔ہمارے حتمی فیصلہ سازوں کو گلہ ہے کہ اس ملک نے کشمیر کے موضوع پر ہمارا کھل کے ساتھ نہیں دیا۔مودی کو 5اگست 2019کے بعد بھی نہ صرف اپنے ہاں بلکہ اپنے ’’قریبی‘‘ دوستوں کے ہاں بھی مدعو کرواکے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازتے رہے۔اوآئی سی کا فقط کشمیر پر دہائی مچانے کے لئے خصوصی اور ہنگامی اجلاس طلب کرنے میں لیکن ہماری معاونت نہ فرمائی۔ بالآخر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پھٹ پڑے ہیں۔ دل میں کئی مہینوں سے جمع ہوئے شکوے برسرعام لے آئے۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے دنیا کے دیگر ممالک سے ’’دوست ہو یا دشمن‘‘ والا سوال اٹھانا شروع کردیا تھا۔شاید ہم کشمیر کے تناظر میں اب ایسا ہی سوال اٹھانا چاہ رہے ہیں۔ہمارے یار چین کا ذہن اس ضمن میں پہلے ہی سے بہت صاف ہے۔لداخ کو 5اگست 2019کے دن مقبوضہ جموںوکشمیر سے جدا کرتے ہوئے مودی سرکار نے بلکہ اسے مشتعل کیا۔چین نے بالآخر اس برس کے موسم بہار میں فوجی پیش قدمی سے بھارت کو بوکھلا دیا۔ترکی کے صدر اردوان گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر کے بارے میں واضح مؤقف کے حامل رہے ہیں۔اب ایران بھی ان کا ہمنوا ہوا نظر آرہا ہے۔ ’’مسلم اُمہ‘‘ میں گویا ’’تفریق‘‘ نمایاں ہونا شروع ہوگئی ہے۔ہمیں اس تفریق کو مزید اجاگر کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی طرف بڑھنا ہوگا۔

ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے مذکورہ بالا تناظر میں جن جذبات کا اظہار ہورہا ہے وہ میرے مایوس دل میں بھی بہت عرصے سے موجزن ہیں۔ میں ان کے اظہار کی جرأت سے مگر محروم رہا۔ اشاروں کنایوں میں دل کے پھپھولے عیاں کرنے کی کوشش کرتا رہا۔خارجہ امور کی رپورٹنگ مگر اپنے تئیں ایک ’’پیشہ‘‘ ہے۔ ہر پیشے کی طرح اس کے بھی چند بنیادی تقاضے ہوتے ہیں۔ان تقاضوں کو نگاہ میں رکھوں تو یہ سوال اٹھانا لازمی محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہمیں 5اگست 2019کے ایک برس گزرنے کے بعد ہی 2020کو آئے 5اگست کے دن ’’برادر ملک‘‘ کی بے اعتنائی یاد آئی ہے۔ سفارتی معاملات کے بارے میں استادوںنے سمجھایا تھا کہ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں‘‘ ۔

اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں تو خارجہ امور کی بابت کامل آگہی کے دعوے داروں کو بروقت یہ اطلاع کیوں نہیں مل پائی تھی کہ ’’برادر ملک‘‘ نے آج سے چند ماہ قبل ہمیں وہ تیل فراہم کرنا چھوڑ دیا تھا جس کی ترسیل کا ’’مؤخرادائیگی‘‘ یا Deferred Paymentکی بنیاد پر فراہمی کا بندوبست ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو ’’توانا‘‘ دکھانے کے لئے پاکستان کے قومی خزانے میں گرانقدر ڈالر بھی رکھوائے گئے تھے۔ان میں سے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کا تقاضہ کب ہوا؟  ہم نے چین سے مذکورہ رقم لے کر ادائیگی کردی ہے۔یہ سارا قصہ مجھے یقین ہے 5اگست 2020سے قبل ہوچکا تھا۔اس کے بارے میں سینہ پھلاکر اب تاخیر سے ’’اطلاع‘‘ کیوں دی جارہی ہے۔چرچا یہ بھی ہے کہ ایران اور چین کے مابین طویل المدتی Strategicاتحاد کا بندوبست ہوگیا ہے۔یہ دونوں ممالک سرکاری طورپر اس بندوبست کی تصدیق نہیں کررہے۔ ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں لیکن اسے جزئیات سمیت بیان کرتے ہوئے دعویٰ ہورہا ہے کہ ایران چین کو عالمی منڈی میں موجود نرخوں سے ’’آدھی قیمت‘‘ پر اس کی ضرورت کا تیل فراہم کرے گا۔ چین خود کو حاصل ہوئے تیل کی نقدی کی صورت قیمت ادا کرنے کے بجائے اس رقم میں اضافی رقوم شامل کرتے ہوئے ایران میں سرمایہ کاری کے عظیم تر منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہوجائے گا۔ایران اور چین کے مذکورہ اتحاد کی بدولت ہی بھارت کو ایران نے سرخ جھنڈی دکھادی ہے۔چاہ بہار پر بندرگاہ کی تعمیر کے ذ ریعے اس کا افغانستان سے تجارت کا خواب اس وجہ سے خاک میں مل گیا۔ایک ’’سہ رکنی‘‘ اتحاد گویا تیار ہوچکاہے۔چین،ایران اور پاکستان اس کے کلیدی اراکین ہوں گے۔جنوبی کوریا میں شدید بارشوں سے سیلاب‘ لینڈ سلائیڈنگ‘ 30ہلاک

جس ’’اتحاد‘‘ کا نہایت گرم جوشی سے ذکر ہورہا ہے۔اس پر غور کریں تو امریکہ کی خواہش بھی ذہن میں رکھنا ہوگی۔ایران کے ساتھ اوبامہ کا طے ہوا ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے ’’دوستوں‘‘ کو “Maximum Pressure”کے عنوان سے مجبور کیا کہ وہ ایران سے تیل کی ایک بوند بھی نہ خریدیں۔ بھارت نے اس حکم کی تعمیل کی اور چاہ بہار سے محروم ہوا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر چین نے اس ماحول میں ایران سے بھاری بھر کم مقدار میں تیل اٹھانا شروع کردیا تو امریکہ کس منہ سے اس کی فیکٹریوں میں بنائی مصنوعات کو نیویارک ،واشنگٹن،شکاگو یا ہوسٹن کے بازاروں میں فروخت ہونے کی اجازت دے گا۔ہمارے یار چین کی اصل منڈی کرونا سے چند ہی ماہ قبل تک امریکہ کے علاوہ یورپی ممالک رہے ہیں۔دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کی قوتِ خرید ان ممالک کے باسیوں کی قوتِ خرید کی فی الوقت متبادل نہیں ہوسکتی۔خوش گماں منظر بناتے ہوئے ہمیں ان حقیقت کو بھی نگاہ میں رکھنا ہوگا۔’’برادر ملک‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ہم یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرسکتے کہ لاکھوں پاکستانی برسوں سے اس ملک میں مقیم ہیں ۔ ان کی جانب سے ہوئی ترسیلاتِ زر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو توانا دکھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ہم اگر واقعتا اس ملک سے ’’دوست یا دشمن؟‘‘ والا سوال اٹھانا شروع ہوگئے تو اس ضمن میں بے تحاشہ مشکلات نمودار ہوجائیں گی۔ ہم نے اس کے تدارک کے لئے کیا ’’ہوم ورک‘‘ کررکھا ہے؟!او آئی سی کی کشمیر کی بابت بے اعتنائی کے بارے میں جائز بنیادوں پر شکوہ کناں ہونے کے باوجود ہم یہ حقیقت بھی کیوں فراموش کئے ہوئے ہیں کہ اس فورم نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حقوق کو بنیاد بناتے ہوئے جارحانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔اس مستقل رویے کے باوجود فلسطین کا مسئلہ اپنی جگہ اب بھی بہت شدت سے موجود ہے۔بھارت کئی حوالوں سے بلکہ کشمیر کے بارے میں اس اسرائیلی رویے کی پیروی ہی کررہا ہے جسے چند ماہ قبل میں نے اس کالم میں “Ghazafication”پکارا تھا۔فلسطین بنیادی اعتبارسے ’’عرب مسئلہ ‘‘ بھی ہے۔ او آئی سی اس کی بابت کم از کم دکھاوے کی حد تک سخت ترین مؤقف اختیار کرنے کے باوجود فلسطینیوں کے مصائب کے ازالے میں اب تک ناکام رہی تو بے چارے کشمیریوں کے کیا کام آئے گی۔عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہوکر اپنے گھر تک محدود ہوا میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ ’’برادر ملک‘‘ کی کشمیر کے تناظر میں بے اعتنائی کلیدی مسئلہ نہیں ہے۔پنجابی محاورے والی ’’گوٹ‘‘ کہیں اور پھنسی ہے۔ یوٹیوب پر خارجہ امور کے بارے میں کاملاََ آگاہ نظر آنے والوں سے دردمندانہ فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اس حوالے سے ہماری رہ نمائی فرمائیں۔