منتخب تحریریں

کورونا اور احمد فراز!

Share

میں کئی دنوں سے اپنے کالموں میں کورونا کو موضوع بنا رہا ہوں، میرے کئی دوست مجھے سمجھا چکے ہیں کہ اس کمینے کو منہ نہ لگائو، یہ بہت گھٹیا ہے اور اس قدر بے دین اور ملحد بھی ہے کہ مسجد میں جاکر نماز پڑھنے والوں کی تاک میں رہتا ہے۔

اللہ کو یہ مانتا ہی نہیں، یہ دینداروں کو کہاں خاطر میں لائے گا، چنانچہ یہ بے چینی سے رمضان کے مقدس مہینے کا انتظار کر رہا ہے کہ اس مہینے میں وہ لوگ بھی مسجدوں کا رخ کرتے ہیں جو سارا سال دنیاوی ہنگاموں میں مگن رہتے ہیں مگر رمضان میں پنج وقتہ نماز ہی نہیں تراویح کا اہتمام بھی کرتے ہیں، آخری ہفتے میں مشترکہ اعتکاف بھی ہوتا ہے۔

شبینہ کی ایمان افروز محفلیں بھی منعقد ہوتی ہیں، چنانچہ یہ انسان اور ایمان دشمن وائرس مختلف طریقوں سے کوشش کرے گا کہ اس بار رمضان کا مہینہ ایسے ہی گزر جائے، لوگ پنج وقتہ نمازیں اور تراویح کی نفلی عبادت بیشک گھروں میں کریں لیکن انہیں ہجوم کی صورت مسجدوں میں جانے سے روکنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی جائے۔ ظاہر ہے یہ اس لئے کہ اسے وافر تعداد میں اضافی خوراک ہجوم ہی سے ملتی ہے۔

اوپر سے بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ پچاس سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد اس کا آسان شکار ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں عموماً اس عمر کو پہنچنے کے بعد ہی خدا زیادہ یاد آتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس بے دین دشمن کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے حکومت کی اس پالیسی سے متفق ہوتے ہیں جو ان دنوں تمام عالم اسلام میں علماء کی مشاورت یا اس کے بغیر ہی اپنائی جا رہی ہے یا شریعت کے اصولوں کی تعبیر اپنی فہم کے مطابق کرتے ہیں۔

چند روز پیشتر اس شیطان ملعون کا ایک چیلا میرے پاس آیا، اس کا اندازہ مجھے اس کی باتوں سے ہوا۔ پہلے تو اس نے میرے کالموں کی تعریف کی اور کہا کہ آپ میڈیا کے پھیلائے ہوئے خوف و ہراس کے اس دور میں اپنے ہلکے پھلکے کالموں سے ان کا خوف کم کرنے اور سخت پریشانی کی وجہ سے ان کے مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی جو کوشش کر رہے ہیں یہ ایک بڑی قومی خدمت ہے، میں نے کہا، میں جوانی میں اسکائوٹ رہا ہوں اور ہمیں بتایا جاتا تھا کہ اسکائوٹ خطرے کی صورت میں سریلی سی سیٹی بجاتا ہے اور پھر اس پر پل پڑتا ہے۔

بولا، آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن چونکہ آپ سے غائبانہ محبت اور عقیدت کا رشتہ ہے، اس لئے ایک نہایت کنفیڈنشل بات بتانے آپ کو آیا ہوں اور وہ یہ کہ کورونا وائرس کے پیروکاروں نے ان دنوں ایک فہرست تیار کی ہے جو مسلسل ان کے خلاف زہر فشانی کر رہے ہیں، ان کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے انہی ’’انسان دوستوں‘‘ کو مارنا ہے جو ہمارے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہیں اور اس فہرست میں آپ کا نام پہلے نمبر پر ہے۔

میں آپ سے آپ کے عقیدت مند کے طور پر درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے خاندان پر دم کریں اور اس شیطان لعین پر دل ہی دل میں لعنتیں بھیجتے رہیں، بس یہی کافی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے رخصت چاہی اور ہاتھ ملانے اور معانقہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر میں نے اسے اس خباثت کا موقع نہیں دیا۔

اب آپ کو ایک سچی بات بتائوں کہ اس کے سامنے تو میں شیر بنا رہا، لیکن جب وہ گیا تو میں نے اسی وقت مارکیٹ کا رخ کیا اور کورونا کٹ خرید کر دکان پر ہی پہن لی، اس حفاظتی اقدام کے بعد میں نے گھر واپس آ کر ظہر کی نماز پڑھی اور اب پنج وقتہ نمازیں گھر پر ہی ادا کر رہا ہوں کیونکہ حدیث نبویؐ ہے کہ اونٹ کو رسی سے باندھ کر اس کی حفاظت اللہ پر چھوڑو۔ میں اب یہی کر رہا ہوں۔

اپنی حفاظت کے دنیاوی انتظامات مکمل کر لیے ہیں اور باقی اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ میرا حسن ظن ہے کہ ہمارے علمائے کرام بھی ماہِ رمضان میں نمازیوں کو گھروں پر عبادت کرنے اور دنیاوی حفاظتی انتظامات کی پابندی کی تلقین کریں گے!

میں نے ابھی ابھی احمد فراز کی ایک پرانی غزل پڑھی ہے۔ آخر میں یہ، شاعری کا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک عہد اور کسی ایک صورتحال کی نہیں، آنے والے دنوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ تو احمد فراز کی غزل اور اس خوبصورت شاعر کے لیے دعا بھی کریں!

اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے

اس شہر پہ اُتریں گے عذاب اور طرح کے

اَب کے تو نہ چہرے ہیں نہ آنکھیں ہیں نہ لب ہیں

اِس عہد نے پہنے ہیں نقاب اور طرح کے

اَب کوچۂ قاتل سے بلاوہ نہیں آتا

قاصد ہیں کہ لاتے ہیں جواب اور طرح کے

سو تیر ترازو ہیں رگِ جاں میں تو پھر کیا

یاروں کی نظر میں ہیں حساب اور طرح کے

اِس درد کے موسم نے عجب آگ لگائی

جسموں میں دہکتے ہیں گلاب اور طرح کے

واعظ سے فرازؔ اپنی بنی ہے نہ بنے گی

ہم اور طرح کے ہیں جناب اور طرح کے