صحتہفتہ بھر کی مقبول ترین

کورونا وائرس: چہرے کو ہاتھ نہ لگانا اتنا مشکل کیوں؟

Share

کسی وبا کے پھوٹنے کی صورت میں ہمیں اپنی ان تمام عادتوں میں سے جو ہمیں دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں، کے بارے میں متفکر ہونا چاہیے۔

جانداروں کی دوسری تمام انواع میں صرف انسانوں کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ غیرارادی طور پر اپنے جسم کو چھوتے ہیں۔

اور انسان کی یہی عادت کورونا وائرس (کووِڈ 19) کی وبا کے پھیلنے کا سبب بن رہی ہے۔

ہم ایسا کیوں کرتے ہیں، اور اس غیرارادی فعل کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

چھونے کی عادت

آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ہم سب اپنے چہروں کو بہت زیادہ چھوتے ہیں۔

سنہ 2015 میں آسٹریلیا میں میڈیکل کے طلبا پر کی گئی تحقیق میں انھیں بھی اس عادت میں مبتلا پایا گیا۔

طب کے طالب علم کی حیثیت سے تو شاید انھیں اس کے مضر اثرات کے بارے میں زیادہ آگہی ہونی چاہیے تھی۔ مگر دیکھا گیا کہ انھوں نے بھی ایک گھنٹے کے دوران اپنے چہرے کو چھوا، جس میں منھ، ناک اور آنکھوں کو ہاتھ لگانا شامل تھا۔

ماہرینِ صحت اور عالمی ادارۂ صحت سمیت عوامی صحت کے دوسرے اداروں کا کہنا ہے کہ متواتر چھونے کی عادت خطرناک ہے۔

دنتوں میں انگلی دابنا
ہمارا منہ، ناک اور آنکھیں ہی ہمارے جسم میں جراثیم کے داخل ہونے کا راستہ ہیں

کووِڈ 19 سے بچاؤ سے متعلق ہدایات میں ہاتھوں کو غیرمتحرک رکھنے پر اتنا ہی زور دیا گیا ہے جتنا کہ انھیں دھونے پر۔

ہم اپنے چہرے کو کیوں چھوتے ہیں؟

لگتا ہے کہ یہ انسان اور بندر کی نسل کے بس ہی میں نہیں کہ وہ ایسا نہ کرے، یہ ان کے ارتقا کا حصہ ہے۔

زیادہ تر انواع سنورنے اور سنوارنے یا پھر حشرات کو بھگانے کی غرض سے اپنے چہرے کو چھوتی ہیں، مگر انسان اور بندر کے ایسا کرنے کی اور کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

امریکہ میں یو سی برکلے سے وابستہ ماہرِ نفسیات ڈیکر کلکنر کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ فعل سکون بخش ہوتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات ناز اٹھانے یا اٹھوانے یا پھر مختلف جذبات کے اظہار کے دوران وقفہ پیدا کرنے کے لیے چہرے کو چھوا جاتا ہے، ’بالکل ویسے ہی جیسے سٹیج پر ایک منظر کے خاتمے پر پردہ گرتا اور نئے منظر سے پہلے اٹھتا ہے۔`

عادات پر ریسرچ کرنے والے دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ خود کو چھونے کا عمل ایک طرح سے اپنے جذبات اور توجہ کے دورانیے پر قابو رکھنا ہے۔

جرمن ماہرِ نفسیات اور لِپزگ یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹِن گرنوالڈ سمجھتے ہیں کہ یہ ’ہماری انواع کی بنیادی خصلت ہے۔‘

گوریلا
انسان اور بندر کی نسل کے دوسرے جانور اپنے جسم کو بغیر کسی وجہ کے بھی چھوتے ہیں

پروفیسر گرنوالڈ نے بی سی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خود کو چھونے والی حرکات خود ہی سرزد ہوتی ہیں۔ یہ کسی پیغام رسانی کا کام نہیں کرتی اس لیے اکثر ہمیں ان کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔‘

ان کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے سوچنے، سمجھنے اور کئی جذباتی افعال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اور ایسا تمام انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘

خود کو چھونے میں مشکل یہ ہے کہ آنکھوں، ناک اور منھ کو چھونے سے ہر طرح کے جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔

کووِڈ 19 ہی کی مثال لیجیے، یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو اس وقت لگتا ہے جب کسی متاثرہ شخص کی ناک یا منھ سے چھینٹے اُڑ کر دوسروں پر گرتے ہیں۔

صفائی
ایسی چیزوں اور جگہوں کو چھونے سے بھی انفیکشن ہو سکتا ہے جہاں پہلے سے جراثیم موجود ہوں

لیکن یہ وبا اس وقت بھی لگ جاتی ہے جب ہم کسی ایسی چیز یا سطح کو چھوتے ہیں جس پر یہ وائرس پہلے سے موجود ہو۔

اگرچہ ماہرین فی الحال وائرس کی اس نئی قسم پر تحقیق میں مصروف ہیں، تاہم کورونا وائرس کی دوسری اقسام کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت سخت جان ہوتی ہیں اور تحقیق کے دوران وہ مختلف مقامات پر نو روز تک زندہ پائی گئی ہیں۔

بقا کی صلاحیت

ان کے باقی رہنے کی یہ صلاحیت ہمارے چہرے کو چھونے کی عادت کے ساتھ مل کر وائرس کو مزید خطرناک بنا دیتی ہے۔

سنہ 2012 میں امریکی اور برازیلی محققین نے عام لوگوں میں سے بغیر کسی امتیاز کے منتخب ایک گروہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے پایا کہ ان لوگوں نے ایک گھنٹے کے اندر تین سے زیادہ بار عوامی مقامات پر مختلف جگہوں کو چھوا تھا۔

بس میں ماسک پہنے عورت
چہرے پر ماسک یا نقاب ہمیں خود کو چھونے کی عادت سے باز رکھ سکتا ہے

ان لوگوں نے ایک گھنٹے کے اندر تین سے زیادہ مرتبہ اپنے منھ اور ناک کو بھی ہاتھ لگایا تھا۔ یہ تعداد آسٹریلیا میں طب کے طلبہ کی تعداد سے کہیں کم ہے جنھوں نے ایک گھنٹے کے اندر اپنے چہرے کو 23 بار چھوا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ طلبہ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے لیکچر سن رہے تھا جہاں باہر کے مقابلے میں دھیان بٹنے کے امکانات کم تھے۔

بعض ماہرین کے نزدیک خود کو چھونے کا یہ رجحان چہرے پر ماسک چڑھانے کو لازمی بنا دیتا ہے تاکہ ایسے وائرس سے بچا جا سکے۔

برطانیہ میں لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیون گریِفِن کا کہنا ہے کہ ’ماسک یا نقاب پہننے سے لوگوں میں چہرے کو چھونے کی عادت کو بھی کم کیا جا سکتا ہے، جو انفیکشن پھیلنے کا بڑا سبب ہے۔‘

ہم کیا کر سکتے ہیں؟

تو چہرے کو چھونے کی اس عادت میں ہم کیسے کمی لا سکتے ہیں؟

کولمبیا یونیورسٹی میں عادات و اطوار کے پروفیسر مائیکل ہالزورتھ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں مشورہ دینا آسان مگر اس پر کاربند رہنا مشکل ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’لوگوں کو کسی ایسی چیز سے روکنا جو غیرارادی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘

سمائیلی بیگ کے ساتھ ایک شخص
آپ کسی ایسی عادت کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں جس کے بارے میں آپ کو پتا ہی نہ ہو

پروفیسر ہالزورتھ کا کہنا ہے کہ چند تراکیب ہیں جن کے ذریعے ہم چہرہ چھونے کی عادت کو کم کر سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہم یہ عہد کر لیں کہ چہرے کو ہاتھ نہیں لگانا۔

وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’اگر خارش ہو تو متاثرہ مقام کو کھجانے کے لیے متبادل طریقے کے طور پر ہتھیلی کی پشت استعمال کی جا سکتے ہے۔ اگرچہ یہ ایک مثالی حل تو نہیں ہے، مگر اس طرح سے ہم مرض پھیلنے کا خطرہ ضرور کم کر سکتے ہیں۔‘

چھونے کے محرکات کی پہچان

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ان عوامل کی بھی نشاندہی کرنے کی کوشش کرنے چاہیے جو ہمیں خود کو چھونے پر مجبور کرتے ہیں۔

پروفیسر ہالزورتھ کہتے ہیں کہ ’اگر ہمیں خود کو چھونے پر مجبور کر دینے والے عوامل کا پتا چل جائے تو ہم کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔

’جن لوگوں کو آنکھیں چھونے کی عادت ہو وہ دھوپ کی عینک پہن سکتے ہیں۔‘

’یا جب آنکھیں ملنے کو دل کرے تو ہاتھوں کو اپنے تلے دبا لیں۔‘

ہاتھ دھونا
ہاتھ دھونے کو جتنی بھی اہیمت دی جائے کم ہے

یا پھر ہم ہاتھوں کو کسی اور طرح سے مصروف رکھ سکتے ہیں تاکہ وہ خود بخود اٹھ کر چہرے کی طرف نہ جائیں۔

لیکن ہاتھوں کو جراثیم سے پاک رکھنا ہر حال میں ضروری ہے۔

پروفیسر ہالزورتھ کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ چہرے کو چھونے کی اپنی عادت سے مجبور ہیں وہ کسی دوست یا رشتہ دار سے کہہ سکتے ہیں کہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو انھیں ٹوک دیا جائے۔‘

دستانے پہننا کیسا رہے گا؟ اس وقت تک مناسب نہیں ہے جب تک انھیں بھی ہاتھوں کی طرح دھویا نہ جائے یا پھر متواتر بدلا نہ جائے۔

ہاتھ دھونے کے آزمودہ طریقے کا بدل نہیں

توجہ اور باقاعدگی سے ہاتھ دھونے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس گھیبرییسس نے 28 فروری کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا ’ہمیں ویکسین اور دوا کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کے لیے انفرادی سطح پر کئی چیزیں کر سکتے ہیں۔‘