سائنس

کورونا وائرس: کیا لاک ڈاؤن میں پھنسے سائنسدانوں کی جگہ ربورٹس لے لیں گے؟

Share

برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیورپول کے سائنسدانوں نے اپنے ایک روبوٹ ساتھی کی رونمائی کی ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران اُن کی لیبارٹری میں کوئی وقفہ لیے بغیر تحقیق کرنے کے کام میں مصروف ہے۔

اس محقق روبوٹ کی مالیت ایک لاکھ پاؤنڈ ہے اور یہ بذاتِ خود حاصل کردہ نتائج سے سیکھتا ہے تاکہ آئندہ تجربوں کو مزید بہتر بنا سکے۔

اس روبوٹ کو بنانے والوں میں سے ایک بینجامن برگر نے اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس روبوٹ میں آزادی کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت ہے جس کے باعث میں گھر سے کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہوں۔‘

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کے ذریعے سائنسی دریافتیں ’ہزار گنا تیز‘ ہو سکتی ہیں۔

رائل سوسائٹی آف کیمسٹری کی ایک نئی رپورٹ کے ذریعے ’کورونا وائرس کے بعد قومی تحقیق کی حکمت عملی‘ وضع کی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، جدید کمپیوٹنگ اور دیگر ٹیکنالوجیز کو ’فوراً استعمال میں لانے‘ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ خودساختہ تنہائی میں موجود سائنسدان دنیا کو درپیش مسائل کے حل تلاش کر سکیں۔

روبوٹک سائنسدان بینجامن اس وقت متعدد تجربوں کے ذریعے ’سولر سیلز‘ میں ردعمل کی استعداد کار بڑھانے کے لیے ایک کیٹالسٹ (ایسا مادہ جو دوسرے مادوں میں کیمائی تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو) ڈھونڈ رہے ہیں۔

روبوٹ

تاہم میٹیریئلز سائنس دان پروفیسر اینڈی کوپر کے مطابق روبوٹس کے لیبارٹری میں کام کرنے سے کووڈ 19 کے خلاف لڑائی میں مدد ملے گی۔

انھوں نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کووڈ 19 پر تحقیق کرنے والی لیبارٹریز میں موجود سائنسدانوں نے روبوٹس کے حوالے سے بہت زیادہ دلچسپی دکھائی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کووڈ 19، موسمیاتی تبدیلی اور اس جیسے دیگر مسائل کے لیے بین الاقوامی سطح پر ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’ہماری سوچ یہ ہے کہ مستقبل میں ہم پوری دنیا میں اس طرح کے روبوٹس بھیجیں جو دنیا کے ہر خطے میں موجود ایک مرکزی نظام سے جڑے ہوئے ہوں، ابھی تک ہم ایسا نہیں کر سکے، یہ پہلی مثال ہے لیکن آئندہ ہم یہ ضرور کرنا چاہیں گے۔‘

سماجی فاصلے کا شکار سائنس

آج ایک ایسی دنیا میں جہاں سائنسدانوں کو لیبارٹری میں اپنے وقت کو کم صرف کرنا ہے اور ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھنا ہے ’روبو سائنسدان‘ کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر برگر نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ (روبوٹ) بوریت کا شکار نہیں ہوتا، تھکتا نہیں ہے، 24 گھنٹے کام کرتا ہے اور اسے چھٹیوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس روبوٹ کے باعث ان کی تحقیق کرنے کی رفتار میں بہت تیزی آئی ہے۔ ’یہ آسانی سے ہزاروں نمونوں کا جائزہ لے سکتا ہے اس طرح یہ مجھے نئی تحقیق کرنے اور نئے حل نکالنے میں مدد دیتا ہے۔‘

خلا میں تحقیق کے لیے ڈیزائن کیے جانے والے روبوٹس کی طرح اس طرح کی مشینیں مزید خطرناک تجربے کر سکتی ہیں۔ جیسے خطرناک تجربے کرنے والی لیبارٹریز یا ایسی جہاں صحت کے لیے مضر کیمیات استعمال ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس: روبوٹ کتا جو سماجی فاصلے کے نفاذ کے لیے گشت کرتا ہے

رائل سوسائٹی آف کیمسٹری میں شعبہ تحقیق اور انوویشن کے سربراہ ڈیرڈری بلیک کے مطابق یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں سانئنس دانوں کے لیے نئی ٹیکنالوجیز بنانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’انسانوں کو اس طرح ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ تیزی سے کام کر سکیں، دریافت کر سکیں، ٹیکنالوجی میں نئی جہت لا سکیں۔

’اس طرح کی بڑی اور مزید پیچیدہ معلومات کا حل تلاش کر سکیں۔ ان میں کاربن کی کمی، بیماری سے بچاؤ اور علاج اور فضائی آلودگی کا خاتمہ شامل ہیں۔‘

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کیونکہ متعدد سائنسدان لاک ڈاؤن میں ہیں اس لیے مشینیں ان کی جگہ لے لیں گی؟

ڈاکٹر بلیک اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، انھوں نے کہا کہ ’ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ سائنس کو ہمیشہ انسانوں کی ضرورت رہے گی۔‘