پاکستان

کورونا وائرس کے باعث حفاظتی ٹیکوں کی سرکاری مہم میں خلل: ‘کورونا سے نہ گھبرائیں بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں‘

Share

‘میں اسلام آباد سے 40 کلومیٹر دور ایک علاقے میں رہتی ہوں اور اتنا فاصلہ طے کر کے اپنے بچے کو ہسپتال حفاظتی ٹیکے لگوانے صرف اس لیے آئی ہوں تاکہ میں وہ غلطی نہ کروں جو میری بہن نے کی تھی۔’

حلیمہ اپنے دس ماہ کے بچے کو اسلام آباد میں واقع سرکاری ہسپتال پولی کلینک لے کر آئی تھیں۔ کورونا کی وبا کے آغاز سے اب تک یہ ان کا ہسپتال کا دوسرا دورہ تھا۔

رواں برس مارچ میں جب حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر جب لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تو بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے والے ٹیمیں بھی حلیمہ کے علاقے سمیت دیگر علاقوں میں نہیں پہنچ پائیں۔

حلیمہ کے ہمسایوں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ بچے کو ٹیکے لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد لگوا لیں لیکن وہ ‘اپنی بہن والی غلطی ہرگز نہیں دہرانا چاہتی تھیں۔’

حلیمہ کی پھوپھی لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں لیکن پھر بھی جب ان کی بہن پہلی بار ماں بنیں تو انھیں حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘میری بہن کا بیٹا چھ ماہ کا ہو گیا تھا اور اس نے اسے ایک بھی حفاظتی ٹیکہ نہیں لگایا تھا اور پھر ایک دن وہ اسہال کا شکار ہو گیا جو اتنا شدید تھا کہ اسے ہسپتال داخل کروانا پڑا اور اسے کئی دن وہیں رکھا گیا۔‘

‘میں نے اس سے سبق حاصل کیا اور فیصلہ کیا کہ کورونا کے باعث اپنے بچے کے حفاظتی ٹیکوں کے شیڈیول میں خلل نہیں آنے دوں کی چاہے مجھے اس کے لیے لمبا سفر طے کر کے ہسپتال ہی کیوں نہ جانا پڑے۔’

کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے وہیں اس کے باعث بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں بھی خلل پڑا ہے۔

حفاظتی ٹیکے
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر سید اویس عابد: ‘میں والدین کو کہتا ہوں کہ اگر آپ کورونا کے ڈر سے ہسپتال نہ آئے اور ویکسین نہیں لگوائی اور خدانخواستہ بچے کو گھر بیٹھے پولیو ہو گیا تو وہ ساری زندگی کے لیے معذور ہو سکتا ہے۔’

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ کورونا کے باعث آٹھ کروڑ بچوں کو خسرہ، پولیو اور ہیضے سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگ پا رہی، جس سے ایک سال سے کم عمر بچوں کی صحت کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔

‘کورونا سے نہ گھبرائیں بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں‘

پولی کلینک ہسپتال میں بچوں کے ڈاکٹر سید اویس عابد کا کہنا ہے کہ کورونا کے باعث اکثر والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لیے ہسپتال لانے سے کترا رہے ہیں کہ کہیں انھیں یا ان کے بچے کو کورونا نہ ہو جائے۔

‘لیکن دراصل یہ حفاظتی ٹیکے بچوں کو دس ایسی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔

‘میں والدین سے کہتا ہوں کہ اگر آپ کورونا کے ڈر سے ہسپتال نہ آئے اور ویکسین نہیں لگوائی اور خدانخواستہ بچے کو گھر بیٹھے پولیو ہو گیا تو وہ ساری زندگی کے لیے معذور ہو سکتا ہے۔’

ڈاکٹر اویس نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران جب ملک کے تمام ہسپتالوں میں او پی ڈیز بند کر دی گئیں تھیں تب بھی بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کا سلسلہ ایک خصوصی کیپس کے ذریعے جاری رکھا گیا۔

ویکسین
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر اویس کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے مرتب کردہ پروگرام کے تحت پیدائش سے 15 ماہ تک کے بچوں کو چھ دفعہ ویکسین دینا لازمی ہے جو انھیں 10 متعدی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں

بچوں کو کب اور کتنے حفاظتی ٹیکے لگوانے چاہیے؟

ڈاکٹر اویس کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے مرتب کردہ پروگرام کے تحت پیدائش سے 15 ماہ تک کے بچوں کو چھ دفعہ ویکسین دینا لازمی ہے جو انھیں 10 متعدی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

ان کا شیڈول یا نظام الاوقات کچھ اس طرح سے ہے کہ پیدائش کے وقت پہلا بی سی جی کا ٹیکہ لگتا ہے اورساتھ ہی پولیو وائرس سے بچاؤ کے لیے دوا کے قطرے بھی پلائے جاتے ہے۔

ڈیڑھ ماہ یعنی چھ ہفتے کی عمر کے بچوں کو پولیو کی خوراک کے ساتھ پیناٹاویلینٹ اورنمونیہ سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ روٹا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بھی دی جاتی ہے۔

بچے کو تیسری خوراک ڈھائی ماہ یا دسویں ہفتے میں دی جاتی ہے اس میں پولیو کی حفاظتی خوراک کے ساتھ پیناٹاویلینٹ، نمونیہ اور روٹا وائرس سے بچاؤ کا دوسرا حفاظتی ٹیکہ لگایا جاتا ہے، چوتھی بار 14ویں ہفتے میں یا ساڑھے تین ماہ کی عمر میں پولیو کی تیسری خوراک کے ساتھ پیناٹاویلینٹ نمونیہ سے بچاؤ کا تیسرا ٹیکہ اور روٹا وائرس سے بچاؤ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔

پانچویں بار نو ماہ کی عمرکے فوری بعد خسرہ سے بچاؤ کا ٹیکہ اورچھٹی بار 15 ماہ کی عمر میں بچے کو خسرہ سے بچاؤ کا دوسرا حفاظتی ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کا توسیعی پروگرام برائے پاکستان کے مطابق پیناٹا ویلینٹ ویکسین میں پانچ بیماریوں کی حفاظتی ویکسین شامل ہیں۔

حفاظتی ٹیکے
،تصویر کا کیپشنبچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کا توسیعی پروگرام برائے پاکستان کے تحت یہ ویکسین تمام سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریز سے بالکل مفت لگوائی جا سکتی ہیں

اس کے علاوہ پانچ سال کی عمر پر ڈی پی ٹی یعنی تشنج، خناق اور کالی کھانسی کے خلاف بوسٹر لگوانے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے لیکن یہ لازم ویکسین کورس میں شامل نہیں۔

یہ حفاظتی ٹیکے 15 ماہ تک کے بچوں میں 10 مہلک بیماریوں سے لڑنے کے لیے قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔

ان میں مندرجہ بیماریاں شامل ہیں:

  • تب دق یا ٹی بی
  • کالا یرقان یا ہیپاٹائٹس بی
  • کالی کھانسی
  • تشنج
  • خناق
  • اسہال
  • گردن توڑ بخار
  • پولیو
  • خسرہ
  • نمونیا

بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی قیمت کتنی ہے؟

بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کا توسیعی پروگرام برائے پاکستان کے تحت یہ ویکسین تمام سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریز سے بالکل مفت لگوائی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ والدین کو اس کے ساتھ ایک ویکسین کارڈ بھی جاری کیا جاتا ہے جس میں ان حفاظتی ٹیکوں سے متعلق پوری معلومات اور اس کا شیڈیول درج ہوتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر سید اویس کے مطابق نجی ہسپتالوں میں ایک مرتبہ کی ویکسین کے لیے آٹھ سے دس ہزار روپے قیمت وصول کی جاتی ہے۔

بچوں کا حفاظتی ٹیکوں کا کورس ہرگز ادھورا نہ چھوڑیں

ڈاکٹر اویس کے مطابق اکثر والدین متعدد وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں کو وقت پر ٹیکے نہیں لگوا پاتے اور دیر ہونے کی صورت میں پورا کورس ہی ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔

‘ہماری والدین سے یہی گزارش ہے کہ اگر کسی وجہ سے ایک یا دو ہفتے اوپر بھی ہو گئے ہیں تو کورس کو ادھورا نہ چھوڑیں بلکہ اسے ہر صورت مکمل کریں۔’

ڈاکٹر اویس کا ماننا ہے کہ یہ حفاظتی ٹیکے بچے کی صحت مند اور کامیاب زندگی کے لیے اتنے ہی ضروری ہیں جتنی کہ اچھی خوراک، تعلیم اور تربیت۔