پاکستان

کورونا وائرس: یہ ایس او پی کیا ہیں؟

Share

دنیا بھر میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد زندگی کے ضابطے اور دنیا داری کے طریقے تبدیل ہو گئے ہیں۔ مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر روز مرہ کے امور انجام دینے کے لیے نئے ضابطے اور طریقہ کار وضع کیے گئے ہیں، جنھیں ایس او پیز یا سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کہا جاتا ہے۔

گذشتہ برس تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ سنہ 2020 میں زندگی گزارنا تبدیل ہو جائے گا جہاں چلنے پھرنے، سانس لینے، بازار جانے، کام کے لیے دفاتر، عبادت کے لیے مساجد جانا محال ہو گا۔ تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہو جائیں گے اور بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوں گے۔ ہر کام کے لیے نئے اور حیران کن وضع کردہ رہنما اصولوں پر زندگی گزارنا پڑے گی۔

لوگوں سے سماجی دوری اختیار کرنے کا کہا جائے گا، ماسک پہننے اور ہر وقت ہاتھ دھونے کی تلقین کی جائے گی۔ دکانوں کے باہر دائرے بنا دیے جائیں گے جہاں لوگ اپنی باری کا انتظار کریں گے یا لوگ دکان کے باہر کھڑے ہو کر سودا خریدیں گے۔ ہسپتالوں میں جانے سے خوف آئے گا۔ یہ سب کچھ اب ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ کب تک جاری رہے گا کچھ معلوم نہیں لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے نئے اصول ضرور مرتب کر دیے گئے ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کام رواں برس فروری میں ہی شروع کر دیا گیا تھا جب ہمسایہ ممالک سے ملنے والی سرحدوں اور تمام ایئر پورٹس پر احتیاطی تدابیر کے علاوہ ایسے ضابطے اور طریقہ کار وضع کیے گئے تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔

پاکستان

یہ ایس او پیز کیا ہیں؟

پاکستان میں جب سے کورونا وائرس کے مریض سامنے آئے ہیں تب سے ایس او پیز کی گردان روزانہ میڈیا اور روز مرہ زندگی میں سنی جا رہی ہے۔ یہ ایس او پیز سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کا مخفف ہے اور عام الفاظ میں اس کا مطلب ایک معیار کے مطابق کام کرنے کا ضابطہ کار ہے۔

ان ایس او پیز کا مطلب بنیادی طور پر ایسے اقدامات یا ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہے جس پر عمل کر کے اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ یہ ایس او پیز قومی ادارہ صحت نے دیگر محکموں اور اداروں کی مدد سے تیار کیے ہیں اور انھیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر جاری کیا ہے۔ قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک دو درجن کے قریب ایسے ایس او پیز جاری کیے جا چکے ہیں۔

ان ایس او پیز یا رہنما اصولوں میں کورونا وائرس کے بارے میں نئے اور حیران کن انکشافات سامنے آنے کے بعد ترامیم کی جا رہی ہیں۔

اب تک کون سے رہنما اصول مرتب کیے جا چکے ہیں؟

قومی ادارہ صحت نے اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے 2 فروری کو ملک میں مختلف ائیر پورٹس پر آنے والی بین الاقوامی پروازوں کی آمد اور ایئر پورٹس پر کیسے اقدامات ہوں گے، اس بارے میں ایس او پیز جاری کیے تھے۔ ان ایس او پیز میں مسافروں کی سکریننگ، ان کا ریکارڈ رکھے جانے اور پھر ان تمام افراد کے کی نگرانی تک کے عمل کا ذکر بھی تھا۔

پاکستان

قومی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا ٹیسٹنگ، عام لوگوں کی نقل و حرکت، بازاروں میں تاجروں کی ذمہ داریوں، ہسپتالوں میں مریضوں کی آمد، قرنطینہ کے نظام اور متاثرہ مریضوں کے لیے رہنما اصول، ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے لیے ایس او پیز، ان سیکیورٹی اہلکاروں اور عملے کے لیے ضابطے جو اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے اور لوگوں کو سماجی دوری اختیار کرنے کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں، ان سب کے لیے اور دیگر افراد کے لیے اصول مرتب کیے گئے۔

اس وائرس سے متاثرہ افراد کی اموات کے بعد میت کو دفنانے کے لیے اقدامات بھی ایک باقاعدہ نظام کے تحت سر انجام دینے کے لیے تجاویز دی گئیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

گھروں میں قرنطینہ

ان ایس او پیز میں وقت کے ساتھ ساتھ ترامیم بھی کی جاتی رہی ہیں، مثلاً اگر ایک شہری اس وائرس سے متاثر ہو جاتا ہے تو اسے ابتدائی طور پر گھروں میں اپنے آپ کو محدود کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔

اس ضمن میں مرتب کردہ رہنما اصولوں میں متاثرہ مریض کے لیے علیحدہ کمرہ، علیحدہ باتھ روم جس میں سنک اور کموڈ موجود ہو، اس کمرے میں آنے جانے کے راستے کا علم گھر کے متعلقہ افراد کو ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ٹیلیفون کے ذریعے مریض کا مسلسل رابطہ متعلقہ حکام سے ہونا چاہیے۔

ان ایس او پیز میں اس وقت ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی جب غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے جن کے لیے علیحدہ کمرے اور باتھ روم کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کے لیے ان ایس او پیز میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

اس بارے میں صوبہ پنجاب میں ترامیم کی گئیں اور ایسے مریضوں کو یہ حق دیا گیا کہ اگر وہ حکومت کی جانب سے قائم قرنطینہ مراکز میں رہنا چاہیں تو انھیں یہ سہولت فراہم کی جا سکتی ہے ۔ صوبہ سندھ میں یہ رہنما اصول پہلے سے موجود تھے جبکہ خیبر پختونخوا کے ایس او پیز میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

سماجی دوری اختیار کرنے کے لیے کیا ہونا چاہیے

سماجی دوری

کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا بڑا اور اہم کام سماجی دوری اختیار کرنا ہے اور عام شہریوں سے کہا گیا کہ وہ نہ تو کسی سے ہاتھ ملائیں نہ ہی گلے ملیں بلکہ اتنا فاصلہ اختیار کیا جائے کہ چھینک یا کھانسی کے اثرات دوسرے تک نہ پہنچ سکیں۔

صرف یہی نہیں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ماسک پہنیں اور ہاتھوں کو بار بار صاف کریں گھروں سے باہر نکلنے اور گھروں میں داخل ہونے کے رہنما اصول وضع کیے گئے۔ اس وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود تمام افراد سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں سے دور رہیں یا گھر میں داخل ہونے کے بعد تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

ماہرین کی جانب سے عام لوگوں کو بار بار یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو محدود کر دیں اور اس کا مقصد بنیادی طور پر وائرس کو پھیلنے سے روکنا ہے تاکہ جب وائرس آگے منتقل نہیں ہو گا تو وہ ادھر ختم ہو جائے گا۔

اس کے لیے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اگر آپ کا کوئی ضروری کام نہیں تو آپ گھر پر ہی رہیں۔ اگر باہر جانا ضروری ہو تو کسی کے زیادہ قریب مت جائیں، ہاتھ ملانے یا گلے ملنے اجتناب کیا جائے اور صرف سلام کیا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی جاننے والا مل جاتا ہے تو اس سے کم سے کم چھ فٹ کے فاصلے پر رہیں کسی کو اپنا موبائل فون نہ دیں اور کسی اور کا موبائل فون استعمال نہ کریں اس کے علاوہ موبائل فون اور دیگر سامان جو آپ ہاتھ میں لیے پھرتے ہیں جیسے چابیاں وغیرہ انھیں جراثیم کش سپرے سے صاف کریں۔

اگر آپ بازار خریداری کے لیے جا رہے ہیں تو ماسک اور دستانے پہن کر جائیں، اپنے ساتھ سینیٹائزر رکھیں، اور دکان کے اندر اگر رش ہے تو آپ باہر کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کریں۔

اسی طرح تاجروں اور دکانداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ دکانوں کے باہر قطار کے لیے نشان لگائیں۔ اسی طرح اگر آپ بینک یا کسی دفتر جا رہے ہیں تو وہاں یہ تمام احتیاطی اقدامات کریں۔ بینکوں اور دفاتر میں میز دیوار یا دیگر اشیاء کو نہ چھوئیں اور وہاں داخل ہوتے اور باہر نکلتے وقت سینیٹائزر کا استعمال ضرور کریں۔

اگر خدانخواستہ آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ میں کورونا کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو آپ ہرگز گھر سے باہر نہ جائیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور ان کے مشورے پر عمل کریں، لوگوں سے ٹیلیفون اور ای میل کے ذریعے رابطہ کریں۔

اگر بخار، کھانسی، سانس لینے میں دشواری، سینے میں مسلسل درد یا بوجھ محسوس کرنا، اٹھنے بیٹھنے پر تکلیف ہونا اور یا ہونٹ اور چہرے کا سرخ ہو جانا جیسی علامات ظاہر ہوں تو اپنے آپ کو دیگر افراد سے علیحدہ کرلیں۔ اس صورتحال کو دیکھیں اور اگر یہ لمبے عرصے تک ہوتا ہے تو ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کے بعد اپنے آپ کو گھر میں ہی قرنطینہ کرلیں اور اس وقت تک رہیں جب تک کورونا کے ٹیسٹ کا رزلٹ نہیں آ جاتا۔

اگر ایک عام شہری کا سامنا کورونا کے متاثرہ یا مشتبہ شخص سے ہو؟

ڈاکٹر

اگر کہیں کسی شخص کا کورونا کے مشتبہ یا متاثرہ شخص سے قریبی رابطہ ہوتا ہے اور یہ رابطہ ایک میٹر یا اس سے کم فاصلے پر کم سے کم 15 منٹ تک ہوا ہو، یا اس شخص کے جسم کی کوئی رطوبت آپ کے ساتھ لگ گئی ہو تو کیا کرنا چاہیے اس متعلق بھی ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں۔

ایسے افراد جو متاثرہ یا مشتبہ شخص کے ساتھ ایک کمرے یا ایک مکان میں رہ رہے ہو یا کم سے کم ایسے شخص کے ساتھ ایک کمرے میں دو گھنٹوں سے زیادہ وقت گزارا ہو تو ان کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جزوی یا سرسری رابطے میں آنے والے افراد کی نشاندہی بھی ضروری ہے اور ان کے ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں متاثرہ شخص کے اہلخانہ، متاثرہ شخص کے ساتھ سفر کرنے والے مسافر بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

اس کے لیے اس محکمہ صحت کی ٹیم کے لیے بھی طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس کے تحت وہ اس متاثرہ یا مشتبہ شخص سے رابطہ کریں گے۔

مساجد کا ضابطہ کار

مسجد

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مسجدوں میں نماز ادا کرنے کے لیے بھی ضابطہ کار مرتب کیے گئے ہیں۔

حکومت کی جانب سے اس بات کر زور دیا گیا ہے کہ لوگ گھروں میں نماز ادا کرنے کو ترجیح دیں اور مساجد میں صرف امام اور مسجد کا عملہ ہی باجماعت نماز ادا کریں۔

اس کے علاوہ نماز جمعہ اور تراویح کے لیے صفوں میں کم از کم تین میٹر کا فاصلہ، مسجدوں کے فرش سے قالین اور صفیں ہٹانا، مسجد کے فرش کو جراثیم کش سپرے سے دھونا، نمازیوں کا گھر سے وضو کر کے آنا، اپنے ساتھ جائے نماز گھر سے لانا، نمازیں مساجد کے صحن میں ادا کرنا، مساجد میں 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد اور بچوں کے داخلے پر ممانعت، نماز کے بعد اجتماع پر پابندی شامل ہے۔

اس کے علاوہ ان ایس او پیز میں کہا گیا ہے کہ تمام افراد ماسک پہن کر آئیں، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے اجتناب کیا جائے۔ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں گھروں میں اعتکاف بیٹھا جائے۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ نے مساجد میں اعتکاف پر پابندی کا اعلان کر رکھا ہے۔

میت کی تدفین کے ضابطے

کورونا

کورونا سے متاثر ہو کر ہلاک ہونے والے شخص کی میت اور تدفین کے بارے میں جاری ایس او پیز میں ترامیم کی گئی ہیں لیکن اس کے لیے بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا انتہائی صروری قرار دیا جا چکا ہے۔

قومی ادارہ صحت کے مطابق اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ کورونا وائرس سے انتقال کر جانے والے شخص سے وائرس پھیل سکتا ہے لیکن میت کو محفوظ کرنے، اس کی نماز جنازہ پڑھانے، تدفین اور آخر میں متاثرہ شخص سے جڑی اشیا کو باقاعدہ سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے تک کے عمل کے اصول وضع کیے گئے ہیں۔

اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثرہ یا مشتبہ شخص ہو اور وہ انتقال کر جائے تو اس کے لیے طبی عملے کو ہدایات جاری کی گئئ ہیں کہ وہ کیسے میت کو محفوظ بنائیں گے اور کن کپڑوں اور شیٹس میں میت کو محفوظ کریں گے۔

اس کے علاوہ طبی عملے کے لیے یہ احکامات بھی ہیں کہ مردہ خانے میں میت کو کیسے رکھا جائے، میت کا اگر پوسٹ مارٹم کرنا ہو تو اس کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہیں یہ سب واضح کیا گیا ہے۔

سرکاری سطح پر پانچ مئی سے پہلے تک جو اموات ہوئی ہیں ان میں بیشتر طبی عملے کو ہی یہ ذمہ داری تفویض کی گئی تھی کہ وہ میت کی آخری رسومات اور تدفین کا عمل مکمل کریں۔

اب پانچ مئی کو قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے ایس او پیز میں جہاں طبی عملے کے لیے ہدایات موجود ہیں وہاں متاثرہ شخص کے خاندان کے افراد اور عام شہریوں کے لیے بھی رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق اگر آخری رسومات اور تدفین کا عمل طبی عملے کی جانب سے ہو تو اس میں مذہبی رسومات اور مقامی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے ساتھ مکمل کرنا ہوں گی۔

میت کو اگر کہیں زخم ہوں یا رطوبت خارج ہو رہی ہے تو اس کو صاف کرنا اور میت کے جسم کو مکمل خشک کرنا ضروری ہے۔

گھروں میں بھی خاندان کے افراد اگر میت کو غسل دینے اور اسے صاف کر رہے ہیں تو اس کے لیے انھیں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گے اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے دستانے، ماسک، عینک اور حفاظتی لباس ضروری ہے۔

میت اگر گھر میں موجود ہے تو اس چھونا یا بوسہ نہیں دینا چاہیے اور میت کو غسل دینے والے افراد ان رسومات سے فارغ ہونے کے بعد اپنے لباس گرم پانی میں دھوئیں اور غسل کر لیں۔ ایسے افراد جنھیں سانس کی تکلیف ہے اور ان کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے ان آخری رسومات میں شرکت نہ کریں۔ بچوں کو بھی اس سے دور رکھیں۔

مزدور

صنعتی مزدوروں کے لیے ضابطہ کار

اس وائرس سے صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور بھی بڑی حد تک متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان مزدوروں کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ کارخانوں یا کام کی مقامات پر آتے اور جاتے وقت جراثیم کش سینیٹائزر جس میں 70 فیصد تک الکوحل ہو اپنے ہاتھ صاف کریں۔

صنعتوں اور دفاتر میں بائیومیٹرک حاضری کے طریقہ کار کو ترک کر دینا چاہیے، ہر گھنٹے بعد 20 سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھوئیں خاص طور پر اس وقت جب مشینوں کو چھو کر، یا دروازوں ہینڈلز اور دیگر ایسی جگہوں کو چھونا ہو جہاں باقی لوگ بھی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔

اگر کسی مزدور کی طبیعت ناساز ہے تو وہ کام پر نہ جائے اور ان صنعتوں کے مالکان اور انتظامی افسران بھی ان مزدورں اور دیگر عملے کے افراد کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اِختیار کریں۔

ایس او پیز پر کتنا عملدرآمد؟

ان رہنما اصولوں پر عمل درآمد کے حوالے سے کچھ لوگ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن ایک بڑی تعداد اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہے یہیں وجہ ہے کہ ان ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے پڑے اور انتظامیہ کو متحرک کیا گیا ہے۔ اس کے لیے فوج کو بھی سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

انتظامیہ کی جانب سے ایسے تاجر اور دوکاندار جو ان ایس او پیز یا وضع کردہ اصولوں پر عمل درآمد نہیں کرتے انھیں جرمانے کیے جاتے ہیں، گرفتار بھی کیا جاتا ہے اور ان کی دکانیں بند کر دی جاتی ہیں۔

اس سخت عمل درآمد کی بنیادی وجہ وائرس کو پھیلنے سے روکنا ہے لیکن بڑی تعداد میں لوگ اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ پاکستان میں نو مئی کو جب لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کی گئی اور کاروبار ایک حد تک کھولنے کی اجازت دی گئی تو اس کے بعد بازاروں میں رش بڑھ گیا اور ملک کے تقریباً ہر شہر میں انتطامیہ کو سخت کارروائیاں کرنی پڑی ہیں۔

یہ ایس او پیز کتنے ضروری ہے؟

مسجد

کورونا وائرس کی ابتدا کے بعد سے آئے دن اس وبا کے متعلق نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں اور اکثر لوگ اس وبا کی حقیقت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس صورتحال کو غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں حالانکہ یہ وائرس اب تک لگ بھگ دنیا کے تمام ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے۔

یہ ایس او پیز بنیادی طور پر وہ بنیادی اصول ہیں جس پر عمل درآمد کر کے ہی اس خطرناک وائرس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے تمام ممالک میں حکومتوں کی جانب سے ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں اور مذید اس پر کام جاری ہے کہ تاکہ اپنے اپنے ممالک میں شہریوں کو اس وائرس سے بچایا جا سکے۔