فیچرزہفتہ بھر کی مقبول ترین

کورونا کی وبا اور جسم فروشی: کووڈ 19 اور لاک ڈاؤن برطانوی سیکس ورکرز کو کیسے متاثر کر رہے ہیں

Share

برطانیہ میں ایک خیراتی ادارہ معاشرے کے ایک ایسے طبقے کی فلاح کے لیے کام کر رہا ہے جنھیں اکثر لوگ یا تو بھول جاتے ہیں یا انھیں مدد کا حقدار نہیں سمجھتے: سیکس ورکرز۔

خیراتی ادارہ ’سیفر ویلز‘ سنہ 2005 سے اپنے ’سٹریٹ لائف‘ پراجیکٹ کے تحت ایسی خواتین کی مدد کر رہا ہے جو جسم فروشی کے کاروبار میں پھنس گئی ہیں۔ اب یہ ادارہ ایسی خواتین کو گھروں میں رہنے پر قائل کرنے کے لیے اپنا کام کرنے کا طریقہ کار تبدیل کر رہا ہے۔

’سیفر ویلز‘ کی چیف ایگزیکٹیو برنی بوئین تھامسن کے مطابق انھیں احساس تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث ایسی خواتین سے ان کی تنظیم کے رابطے رک نہیں سکتے اگرچہ اب انھیں اپنے فلاحی کام ورچوئل انداز میں کرنا ہوں گے۔

کارڈف میں واقع خیراتی تنظیم کے مطابق وبا کے دنوں میں ان کا کام تقریباً 70 فیصد بڑھ گیا ہے۔

تنظیم کے مطابق لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد جسم فروشی کے کاروبار سے وابستہ خواتین کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں: یا وہ سماجی دوری اختیار کر کے گھر بیٹھ جائیں اور پیسے کمانا چھوڑ دیں یا پھر وہ اپنا کام جاری رکھیں، جس سے ان کی اور ان کے گاہکوں کی صحت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

مس بوئین تھامسن کے مطابق کسی بھی عورت کے لیے یہ انتخاب کرنا آسان نہیں۔ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان خواتین کو گھر میں ہی رہنے کے لیے امداد فراہم کی جائے۔‘

Bernie Bowen-Thomson
‘سیفر ویلز’ کی چیف ایگزیکٹیو برنی بوئین تھامسن

لاک ڈاؤن کے پہلے چار ہفتوں میں سیفر ویلز کے رضاکاروں نے ایسی 60 خواتین تک گھر کا کھانا اور 10 موبائل فون پہنچائے اور مزید 13 فونز کے آرڈر ابھی باقی ہیں۔

خیراتی ادارے کے مطابق ایسا کرنے سے یہ بات یقینی بنائی جا سکتی ہے کہ سیکس ورکرز کو تمام اہم سہولیات اور معلومات تک رسائی حاصل ہو اور انھیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ وہ بیشک اکیلی ہیں لیکن تنہا نہیں۔

’وائرس کی منتقلی کے لیے وہ چند منٹ ہی کافی ہیں‘

Mistress Pearll
مِسٹریس پرل

مِسٹریس پرل کا تعلق جنوبی ویلز سے ہے اور انھیں اس پیشے میں آئے تقریباً ایک سال ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیکس ورک ہی ان کا واحد ذریعہ معاش ہے اور وہ عام طور پر ایک دن میں دو گاہکوں سے ملاقات کر لیتی ہیں۔

اگرچہ وبا کے بعد سے وہ صرف آن لائن کام کر رہی ہیں لیکن ان کے مطابق گاہک اب بھی ملاقات کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتے ہیں۔

مسٹریس پرل بتاتی ہیں کہ ان کے گاہک پوچھتے ہیں ’کیا آپ ملاقتیں کر رہی ہیں‘ اور جب میں کہتی ہوں ’نہیں‘ تو وہ اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’بس، چند ہی منٹوں کی بات ہے۔‘

تاہم ان کے مطابق وہی چند منٹ ہی وائرس کی منتقلی کے لیے کافی ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی طرح دیگر سیکس ورکرز بھی لاک ڈاؤن کے دوران اپنے گاہکوں سے نہ ملیں۔

وہ کہتی ہیں: ’رک جائیں اور اپنا خیال کریں۔ آپ نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں اور کتنے صاف ہیں۔ بس اپنا دھیان رکھیں۔‘

اب وہ ان لائن ذرائع سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک ایسی ویب سائٹ کا سہارا لیتی ہیں جہاں وہ اپنی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بیچ سکتی ہیں۔

ویب سائٹ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران ان کے صارفین کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے اور فروری اور مارچ کے مہینوں میں ویب سائٹ پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ نئے صارفین آئے ہیں جو کہ گذشتہ سال کے ان ہی مہینوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔

ویلز کے شہر کارڈف میں واقع ایک ایسکارٹ ایجنسی، جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے فی الحال بند ہے، کے حکام کے مطابق انھیں روزانہ کی بنیاد پر نئے گاہکوں کی جانب سے پیغام موصول ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں چند ہی ایسی سیکس ورکرز رہ گئی ہیں جو آزادانہ طور پر اپنا کام کر رہی ہیں۔

’ہمیں یقین ہے کہ ان میں سے زیادہ تر خواتین وبا کے باوجود اپنا کام نہیں روکیں گی کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے پاس پیسے ختم ہو جائیں گے اور وہ اپنی بنیادی ضروریات مثلاً کھانا، گھر کا کرایہ اور بل وغیرہ نہیں پوری کر پائیں گی۔

بی بی سی ویلز کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی کئی مرد اور خواتین اب بھی جنسی تعلقات کے لیے ملنے کے حوالے سے اشتہار لگا رہے ہیں۔

ان اشتہارات میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ان افراد کی سروسز لاک ڈاؤن کے دوران بھی دستیاب ہوں گی۔

Supplies for Safer Wales
خیراتی تنظیم ’سیفر ویلز‘ سیکس ورکرز کو ضروری اشیا کی فراہمی یقینی بناتی ہے

کارڈف کے ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سیکس کے لیے کسی خاتون کی تلاش میں ہیں۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی ایسا کرنا چاہیں گے تو انھوں نے بتایا: ’اگر لڑکی سماجی دوری کو سنجیدگی سے لیتی ہے تو شاید میں اس سے ملنے پر رضامند ہو جاؤں گا۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے مجھے اس سے تفصیلی بات چیت کرنا ہوگی۔‘

ویلز کی حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق: ’ہمیں علم ہے کہ سیکس کی صنعت سے تعلق رکھنے والے افراد پر اپنا کام جاری رکھنے کے لیے دباؤ ہوگا اور سڑکیں خالی ہونے کی وجہ سے ایسے افراد زیادہ خطرہ مول لے رہے ہیں۔‘

ترجمان نے بتایا کہ یہ کاروبار چھوڑنے کی خواہش مند خواتین کی امداد کے لیے ویلز میں کئی خیراتی اور فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت سیکس ورکرز کی امداد کرنے والوں کی حمایت کرتی ہے تاہم ایسے تمام افراد کو سماجی دوری اور ذاتی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔