کالم

کچھ تو خوف ہمیں بھی ہے!

Share

اتوار کو اپنے ایک پڑوسی کے ہمراہ ویمبلڈن کے شاپنگ سینٹر جانے کا اتفاق ہوا۔ دراصل انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ٹریکنگ جوتے کی خریداری کے لیے ویمبلڈن کے سینٹر کورٹ جانا چاہتے ہیں۔ یوں تو پچھلے کئی سالوں سے میں لندن میں شاپنگ پر جانا چھوڑ ہی چکا ہوں۔ اس کی ایک وجہ وقت کی کمی اور شوق کا ضائع ہونا ہے۔

سوموار سے جمعہ تک کام و کاج میں پھنسے رہنا اور اس کے بعد ہفتہ اور اتوار کو کالم لکھنے کے علاوہ دیگر چیزوں کے مطالعے میں ایسا وقت گزرتا ہے کہ سچ پوچھئے شاپنگ یا کہیں جانا اب ناممکن ہی نہیں، یاد بھی نہیں رہتا۔یاد رہتا بھی ہے تو اس بات کی فکر لگی رہتی ہے کہ باقی ماندہ کام کیسے مکمل ہوں گے۔ان ہی وجوہات کی بنا پر پچھلے کئی برسوں سے باہر نکلنا یا شاپنگ پر جانے کا شوق بے معنی ہوچکا ہے۔ تاہم گاہے بگاہے کسی کی درخواست پر نکل ہی جاتا ہوں۔

ہمارے پڑوسی اب ساٹھ سال پار کر چکے ہیں تو ان کو حکومت کی طرف سے فریڈم پاس ملا ہوا ہے جس کے ذریعہ وہ لندن کے ٹرام،انڈر گراؤنڈ، بس اور ٹرین پر مفت سفر کر سکتے ہیں۔ تبھی مہاشے مجھ سے اس بات پر اصرار کرنے لگے کہ گاڑی سے نہ چلیں، بس سے ویمبلڈن چلتے ہیں۔ طئے شدہ وقت کے مطابق حضرت ٹھیک دس بجے گھر کے باہر پہنچ گئے۔ گھر سے نکل کر تھوڑے ہی فاصلے پر بس اسٹاپ پہنچے اور بس پر سوار ہو کر ویمبلڈن کی جانب چل پڑا۔بس میں کوئی تین لوگ ہی سوار تھے جنہوں نے ماسک پہن رکھا تھا۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ لندن سمیت برطانیہ بھر میں بس ٹرین پر سفر کرنے کے لیے ماسک کا پہننا لازمی ہے۔ اور اگر آپ نے ماسک نہیں پہن رکھا تو ڈرائیور آپکو سوار ہونے سے روک سکتا ہے۔خیر ہم نے بھی مارے خوف کے اپنے منھ کو چھپا رکھا تھا۔ اور بس پر سوار باقی مسافروں نے بھی احتیاط کے طور پر ماسک پہنا ہوا تھا۔کوئی آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم لندن کے معروف ویمبلڈن علاقے پہنچ گئے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ برطانیہ میں فروری سے کوروناکی آمد کے بعد سے لندن کی بس پریہ میرا پہلا سفر تھا۔

ویمبلڈن ٹاؤن سینٹر میں وہ رونق نہیں تھی جو میری آنکھوں نے دیکھ رکھی ہے۔یعنی زیادہ تر دکانیں بند پڑی تھیں اور جو کھلی تھیں ان میں بمشکل ہی چند لوگ دکھائی دے رہے تھے۔کئی دکانوں میں داخل ہوا اور سیلز اسٹاف سے لے کر تمام خریدارماسک لگائے ہوئے دکھے۔ ایسا ہونا لازمی تھا کیونکہ برطانوی حکومت نے سختی سے اس بات کا اعلان کیا ہے بنا ماسک کسی بھی گاہک کو دکان میں داخل نہ ہونے دیا جائے اور دکان کے اسٹاف کو بھی ماسک پہننے پر زور دیا گیا ہے۔ایسا نہ کرنے پر دکاندار گاہک کو دکان میں داخل ہونے سے روک سکتاہے یا گاہک کی نافرمانی یا حکم نہ ماننے پر پولیس کاروائی بھی کر سکتی ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد گریگ بیکری شاپ سے ہم نے چائے اور ویگن سوسیج رول خریدا اور ویمبلڈن اسٹیشن کے باہر بینچ پر بیٹھ کر کھانے لگے۔ لندن میں ان دنوں سردی کی آمد ہے اور ہوا بھی کافی تیز چل رہی تھی۔ اس دوران ہمارے پڑوسی کا پیپر بیگ تیز ہوا کی وجہ سے اُڑ کر تھوڑی دور جا گرا۔ ہم کھا پی کر جب جانے لگے تو پاس ہی کھڑا انوائرمنٹ انفورسمنٹ آفیسر نے ہمیں روکا اور ماحولیاتی ایکٹ کی بنا پر کوڑے کو چھوڑنے کے جرم میں ہمارے پڑوسی پر ڈیڑھ سو پاؤنڈ کا جرمانہ عائد کر دیا۔ جو کہ ہم دونوں کی زندگی کا ایک پہلا اور انوکھا واقعہ تھا۔

اب دکانوں کا بندہونا حیران کن بات بھی نہیں ہے کیونکہ کورونا کی آمد سے مجھے زندگی میں تین تبدیلیوں کا شدت سے احساس ہوا ہے۔آن لائن شاپنگ کا مقبول ہونا، دوسرا گھروں سے کام کرنے کا رحجان اور تیسرا سماجی بدلاؤ۔پہلی بات کہ شاپنگ سینٹر کا زوال ہونا۔ یوں تو پچھلے کئی سالوں سے آن لائن شاپنگ کی سہولت نے لوگوں کو گھر بیٹھے شاپنگ کرانے کا دھیرے دھیرے عادی بنا دیا ہے۔ اس طرح سے وقت بھی بچ جاتا اور سامان بھی گھر آجاتاہے۔آن لائن شاپنگ میں گھر کی ضروریات کے سامان سب سے پہلے مقبول ہونے لگے۔پھر دیکھتے دیکھتے گھر کی ضروریات کی آن لائن شاپنگ اتنی مقبول ہوئی ا کہ کہ اب اگر آپ کسی سے دورانِ گفتگو یہ کہیں کہ کل میں شاپنگ کے لیے گیا تھا تو وہ فوراً مسکرا کر کہیں گے کہ ہم تو گھر کی ضروریات کی شاپنگ کئی مہینے سے آن لائن کر رہے ہیں۔بس اب اس بات پر لوگ شرمندہ ہو کر آن لائن شاپنگ کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں۔

دکانوں کے بند ہونے کی اگر ایک وجہ کرونا ہے تو وہیں آن لائن شاپنگ کو بھی اس کی ایک وجہ بتا ئی جارہی ہے۔تاہم میں صرف کورونا کو ہی اس کی ایک وجہ نہیں مانتا بلکہ مجھے اس بات کو کہنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس ہو رہی کہ آن لائن شاپنگ جو دھیرے دھیرے اپنے قدم جمارہی ہے۔اس نے کورونا کی آمد کا فائدہ اٹھا کر اب پورے طور پر اپنا مقام بنا لیا ہے۔تاہم آن لائن کی سہولت سے معذور، ضعیف اور دیگر لوگوں کو کافی آسانیاں ہو گئی ہیں۔جن کا دکانوں میں بحالتِ مجبوری اور خراب صحت کی بنا پر جانا نامشکل تھا۔

دوسری اہم تبدیلی گھروں سے کام کرنے کا رواج ہے۔ برطانیہ میں گھروں سے کام کرنے کا چلن کئی برسوں سے زور پکڑ رہا تھا۔ جس کی ایک وجہ عورتوں کی گھریلو ذمہ داریاں اور انٹر نیٹ کی سہولیت تھی۔ لیکن کورونا کے پھیلتے ہی جب برطانوی حکومت نے لوگوں سے اپیل کی کہ اگر لوگ گھروں سے کام کرے تو کرونا کی روک تھام میں آسانی ہوگی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ تر لوگوں نے گھروں سے کام کرنا شروع کردیا۔ اب چھ مہینے گزرنے کے بعد لوگ یہی کہہ رہے کہ کیوں آفس جانا ضروری ہے۔تاہم پچھلے مہینے برطانوی وزیراعظم نے لوگوں سے اپیل کی کہ اب وہ دفتر آنا شروع کردیں۔ لیکن ابھی ایک مہینہ ہی ہوا کہ وزیراعظم نے کورونا کیسز کے بڑھنے سے دوبارہ لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ گھروں سے کا م کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی آمد کے بعد زیادہ تر لوگوں کا روزانہ دفتر جانے کا رحجان ختم ہو چکا ہے۔ اور کیوں نہ ہو انٹر نیٹ کی سہولت اور کمپیوٹر کی فراہمی لوگوں کو اتنا فعال کر چکی ہے کہ اب وہ گھر بیٹھے اپنے تمام کر رہے ہیں۔اگر میں اپنی مثال دوں تو اس بات کی وضاحت ہو جائے گی۔ مارچ کے مہینے سے اب تک میں نے گھر سے کام کیا ہے اور انگلی پر گن کر اب تک چند دن ہی دفتر گیا ہوں۔ہسپتال کے آئی ٹی نے ہمیں ایک لنک دیا ہے جس کے جوڑنے سے ہم اپنے گھریلو کمپیوٹر کے ذریعہ ہسپتال اور این ایچ ایس کے ای میل اور مریضوں کے الیکٹرانک فائل سے جڑ جاتا ہوں۔ جس کے بعد ہمارا رابطہ بحسنِ خوبی انجام پانے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ زوم اور مائیکروسوفٹ لنک کے ذریعہ میٹنگ میں بھی شرکت کرتا رہتاہوں۔جس سے ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی ٹیم اور ہسپتال سے دور ہیں۔ تاہم ہسپتال کا دفتر اور کمرے میں موجود دیگر اسٹاف سے گفت و شنید کی کمی کو محسوس کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ ہسپتال کی کینٹین اور روبرو لوگوں سے ملاقات اور بات چیت کی کمی کوبھی محسوس کرتا ہوں۔لیکن وہیں بہت سارے لوگ ان باتوں کو اتنی ترجیح نہیں دیتے اور کام کو ترجیح دیتے ہوئے ان باتوں کی پرواہ کئے بغیر گھر سے کام کرنے کو ایک نئے باب کا آغاز بتا رہے ہیں۔

سماجی الگ تھلگ یا دوری تیسرا ایسا مسئلہ ہے جس نے کورونا کی آمد سے لوگوں کی زندگی کو بدل دیا ہے۔کورونا کے شروع ہوتے ہی حکومت اور سائنسدانوں کے احکامات کے بعد لوگوں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ ایسا لگتا ہے کہ اب لوگ کسی سے ملنا جلنا ضروریہی نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے اعلان کے بعد شادی اور جنازے میں لوگوں کی شمولیت میں مہمانوں کی تعداد تیس تک کر کے رہی سہی کسر کو پورا کر دیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رشتہ دار تو دور پڑوسی بھی اپنی جان کے جانے کے خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ اب تو کورونا کے دوبارہ بڑھنے سے حکومت نے دوبارہ چھ لوگوں سے زیادہ لوگوں کے ملنے جلنے پر پابندی لگا کر جو تھوڑا سا اعتماد اور حوصلہ لوگوں میں آیا تھا وہ اب ختم ہوگیا ہے۔اور اب تو ایسا معلوم ہورہا کہ کورونا کے ختم ہونے کے بعد بھی شاید لوگ کسی سے ملنا جلنا نہیں چاہیں گے۔ مہینوں سے جاری لاک ڈاؤن اور خوف نے ہر انسان میں اپنی جان بچانے کا ایسا خوف اور شک پیدا کر دیا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ کورونا کے خاتمے کے بعد بھی لوگ اسی شک اور شبہ میں رہیں گے کہ کس سے ملا جائے یا نہ ملا جائے۔

زندگی کی تین اہم تبدیلیوں نے جس طرح سے ہماری زندگی کو اثر انداز کیا ہے اس سے ہم فکر مند تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی ہم سب اس نئی زندگی کو دھیرے دھیرے اپنانے بھی لگے ہیں۔ جس سے کچھ تو خوف ہمیں بھی ہے کہ کہیں ہماری نئی زندگی ہمیں گھروں میں قید کر کے نہ رکھ دے۔