صحت

کیا چند گھنٹوں کی نیند آپ کو سارا دن تروتازہ رکھ سکتی ہے؟

Share

ہم اکثر کم سونے پر فخر کرتے ہیں اور کم سونے کو اپنے زیادہ مصروف ہونے کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔

تھامس ایڈیسن، مارگریٹ تھیچر، مارتھا سٹیورٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ سب کا دعویٰ ہے کہ وہ رات کو صرف چار سے پانچ گھنٹے سوتے ہیں۔

انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ تقریباً 18 سے 20 گھنٹے کام کرتے ہیں۔

ماہرین کی عمومی رائے یہ ہے کہ بالغ افراد کو روزانہ سات سے نو گھنٹے سونا چاہیے لیکن ایک تہائی امریکی بالغ افراد کو باقاعدگی سے مناسب نیند نہیں آتی ہے۔

کم سونے کے صحت پر بہت مضر اثرات ہیں جن میں یادداشت کی کمی، فیصلے کرنے کی صلاحیت میں کمی، انفیکشن اور موٹاپے میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔ عام طور پر لوگ ان خطرات کو جانتے ہیں، لیکن ان کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جب بھی ہمیں کسی کام کے لیے اضافی وقت درکار ہوتا ہے تو پہلی قربانی نیند کی ہوتی ہے۔

کیا ہو گا کہ اگر ہم کم وقت میں گہری نیند کے زیادہ فوائد حاصل کر سکیں؟

نیند کی نئی آپٹمائزیشن ٹیکنالوجی کے سبب اب ایسا ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔

دنیا بھر کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ رات کو گہری نیند میں جانے اور دماغ کی استعداد دونوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

ماگریٹ تھیچر

دھیمی لہریں، گہری نیند

عام راتوں میں دماغ نیند کے کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ ہر مرحلے میں دماغ کی لہروں کا ایک خاص پیٹرن ہوتا ہے جس میں نیوران ایک ساتھ ایک لے پر متحرک ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کوئی ہجوم اکٹھے گانا گا رہا ہو یا ایک ساتھ ڈھول بجا رہا ہو۔

آنکھوں کی تیز رفتار حرکت (آر ای ایم) کے دوران یہ لے کافی تیز ہوتی ہے۔ اس وقت خواب دیکھنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔

ایک موقع پر ہماری آنکھوں کی پتلیوں کی رفتار رک جاتی ہے، خواب غائب ہو جاتے ہیں اور دماغ کی لہروں کی لے ایک بیٹ فی سیکنڈ میں کم ہو جاتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ اس لاشعوری حالت کو ’سلوویوز‘ یا سست رفتار لہر والی نیند کہتے ہیں۔

یہ وہ مرحلہ ہے جس میں سائنسدان نیند کے بہترین استعمال کے لیے دلچسپی رکھتے ہیں۔ سنہ 1980 کی دہائی سے جاری تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دماغ کی بحالی کے لیے سلوویو والی نیند آنا ضروری ہے۔

اسی وقت دماغ قلیل مدتی یادوں کو طویل المیعاد ذخائر میں بھیجتا ہے تاکہ ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اسے فراموش نہ کریں۔

جرمنی کی ٹیوبنگن یونیورسٹی میں میڈیکل سائیکالوجی اینڈ بیہیورل نیوروبیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جان بورن کا کہنا ہے کہ ’معلومات کی ترسیل سست لہریں کرتی ہیں۔‘

یہ لہریں دماغ میں خون اور دماغی شریانوں کے بہاؤ کو متحرک کر سکتی ہیں اور اس سے اعصاب کے لیے نقصان دہ ملبے کو باہر کیا جاتا ہے۔ یہ لہریں تناؤ پیدا کرنے والے کورٹیسول ہارمون کو کم کرتی ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

اس طرح کے نتائج نے سائنس دانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آیا ہم ان چھوٹی موٹی لہروں کی پیداوار میں اضافہ کر کے نیند کے فوائد میں اضافہ کر سکتے ہیں؟

ایسا کرنے کی سب سے معتبر تکنیک دماغ کی صحیح لے کو شمار کرنے والے میٹرنوم کی طرح کام کرتی ہے۔ تجربے کے شرکا ایک ہیڈ سیٹ پہنتے ہیں جو ان کے دماغ کی حرکت کو ریکارڈ کرتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ سست لہریں کب بننا شروع ہوئیں۔

پھر یہ آلہ دماغ کی قدرتی طور پر سست رفتار لہروں کے ساتھ وقفے وقفے سے اسی سے ملتے جلتے میٹھے سُر بجاتا ہے۔

یہ آوازیں اتنی آہستہ ہیں کہ ان سے نیند متاثر نہیں ہوتی لیکن یہ اتنی تیز ضرور ہوتی ہیں کہ دماغ انھیں لاشعوری حالت میں بھی ریکارڈ کر لیتا ہے۔

بورن نے اس طرح کے کئی تجربات کیے ہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ یہ میٹھی آوازیں دماغ کی لے کو تقویت دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ آوازیں سلوویو نیند کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ ہیڈ سیٹ پہننے والے شرکا نے میموری ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھیں ایک دن پہلے سنی ہوئی باتیں بھی یاد رہیں۔

ان کے ہارمون کا توازن بھی بہتر ہوا، کورٹیسول کی سطح میں کمی آئی اور مدافعتی ردعمل میں بہتری آئی۔ ابھی تک ہونے والے تجربے میں شرکا نے کسی ناپسندیدہ ردعمل کی اطلاع نہیں دی ہے۔

بورن کا کہنا ہے کہ ’ہم پوری طرح مطمئن نہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح مضر اثرات نظر نہیں آئے۔‘

نیند

بہتر نیند لینے والی مشینیں

گہری نیند کو فروغ دینے والے زیادہ تر تجربات نوجوانوں اور صحتمند افراد کے ایک چھوٹے سے گروپ پر کیے گئے ہیں۔ اس کے فوائد کے بارے میں مستند رائے دیے جانے سے پہلے مختلف گروہوں پر بڑے پیمانے پر تجربے کی ضرورت ہے۔

موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے رات کو پہننے والے کچھ ہیڈ بینڈز بنائے گئے ہیں۔

فرانسیسی سٹارٹ اپ کمپنی ڈریم کے ہیڈ بینڈ کی قیمت تقریبا 330 پاؤنڈ ہے۔ اس میں آواز کے محرک استعمال سے گہری نیند میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ ہیڈ بینڈ ایک ایسی ایپ سے بھی جڑتا ہے جو نیند کے نمونوں کا تجزیہ کرتا ہے اور اچھی نیند کے لیے عملی مشورے فراہم کرتا ہے۔

اس میں توجہ اور سانس لینے کی مشقیں شامل ہیں تاکہ آپ رات کو جلد سو جائیں اور رات میں نیند کم متاثر ہو تاکہ پوری رات اچھی نیند آئے۔ فلپس کمپنی نے نیند کی کمی کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لیے سمارٹ نیند یا گہری نیند کا ہیڈ بینڈ تیار کیا ہے۔

فلپس کے چیف سائنٹفک افسر ڈیوڈ وائٹ کے مطابق ان کا ہیڈ بینڈ ان لوگوں کے لیے ہے جو کسی بھی وجہ سے کافی نیند نہیں لے رہے ہیں۔ ڈریم کے ہیڈ بینڈ کی طرح فلپس نے بھی سنہ 2018 میں اپنا پہلا ہیڈ بینڈ لانچ کیا۔

یہ دماغ کی برقی حرکتوں کا احساس کرتا ہے اور باقاعدہ وقفوں سے کچھ میٹھی آوازوں کا اخراج کرتا ہے جو ایسی ہی لہریں پیدا کرتا ہے جو گہری نیند کی خصوصیت ہے۔

یہ ایک ایسے سمارٹ سافٹ ویئر پر مبنی ہے جو مختلف لوگوں کے لیے آواز کی شدت کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ہیڈ بینڈ امریکہ میں 399 ڈالر میں دستیاب ہے۔ وائٹ نے اعتراف کیا ہے کہ یہ آلات رات کی نیند کا مکمل متبادل نہیں، لیکن نیند سے محروم لوگوں کی مدد ضرور کر رہے ہیں۔

نیند

یادداشت کم ہونے کے خراب اثرات

نیند کی کمی کے شکار افراد میں یہ مشینیں یادداشت کی کمی جیسے ذیلی اثرات کو بھی کم کرتا ہے۔ مونٹریال کی کونکورڈیا یونیورسٹی کی آرور پیرالٹ نے ایک راکنگ بستر کا تجربہ کیا ہے جو ہر چار سیکنڈ میں آہستہ آہستہ آگے پیچھے جھولتا ہے۔

یہ تکنیک ان کے ایک ساتھی کے نومولود بچے کو سلانے سے لی گئی ہے۔ ان کی ٹیم سوچ رہی تھی کہ کیا بالغ افراد بھی جھولوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

انھوں نے پایا کہ شرکا جلد ہی گہری نیند میں چلے گئے اور زیادہ دیر اسی حالت میں رہے کیونکہ دماغ کی لہریں بیرونی رفتار کے ساتھ مطابقت پذیر تھیں۔ رات بھر سونے کے بعد وہ تناؤ سے پاک محسوس کر رہے تھے۔ اس سے ان کی یاد اور سیکھنے کی صلاحیت پر بھی اچھے اثرات پڑے۔

اگر اس قسم کی چارپائی مارکیٹ میں آ جاتی ہے تو پھر یہ آواز کو متحرک کرنے والے ہیڈ بینڈ جیسے مقصد کو پورا کرے گی۔ پیرالٹ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا یہ بوڑھے لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

بڑھتی عمر کے ساتھ گہری نیند کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے جو یادداشت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ پیرالٹ کو امید ہے کہ جھولنے والی چارپائی اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہو سکتی ہے۔

نیند کا آلہ

کچھ دیر تو سوئیں!

یہ شعبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان سٹڈیز سے پتا چلتا ہے کہ ہماری نیند کو بڑھانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ پیرالٹ اور بورن دونوں صوتی محرک کا استعمال کرتے ہوئے سست لہریں پیدا کرنے والی اشیا کے متعلق پر امید ہیں۔

پیرالٹ کا خیال ہے کہ تجربہ گاہ سے باہر کے حالات میں مزید جانچ کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ کیا ایسی نیند بھی طویل مدتی فوائد فراہم کر سکتی ہے؟

طویل عرصے تک نیند کی کمی سے ذیابیطس اور الزائمر جیسی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا نئی ٹیکنالوجی ان خطرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی یا نہیں۔

اب تک طویل مدتی اور قلیل مدتی یعنی ہر طرح کے فوائد حاصل کرنے کا صرف ایک ہی گارنٹی والا راستہ ہے اور وہ ہے پوری نیند لینا۔

چاہے آپ یہ ڈیوائسز خریدیں یا نہ خریدیں، آپ کو رات کے وقت جلدی سونے کی کوشش کرنی چاہیے، شراب، کیفین کی مقدار کم کرنا چاہیے اور سونے سے پہلے سکرین سے دور رہنا چاہیے۔

ہمارا دماغ بغیر آرام کے کام نہیں کر سکتا۔ خوشحال، صحت مند اور مفید زندگی گزارنے کے خواہشمند حضرات کو یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے۔