منتخب تحریریں

ہائے کم بخت کو کچھ یاد نہیں!

Share

میرے ایک پروفیسر دوست کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ یہ ابھی کل کی بات ہے کہ وہ صبح جلدی گھر سے نکلے کیونکہ کالج سے دیر ہو رہی تھی، ناشتہ بھی نہیں کیا اور سیدھا کالج کی راہ لی، راستے میں موٹر سائیکل پنکچر ہو گئی اور جب آدھ گھنٹہ اس کی مرمت پر ضائع ہو گیا تو انہوں نے سوچا کہ کالج سے دیر تو ہو ہی گئی ہے لہٰذا کیوں نہ کسی ہوٹل سے ناشتہ کر لیا جائے چنانچہ انہوں نے پورے ٹھاٹھ سے ناشتہ کیا اور پھر سگریٹ سلگا کر بیرے کو بل لانے کے لئے کہا۔ جب بیرا بل لایا، انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ بٹوہ تو وہ گھر ہی بھول آئے ہیں اور پنکچر والے کو جو پیسے دیئے تھے وہ اتفاقیہ جیب کے کسی کونے میں پڑے ہوئے تھے۔ بہرحال دکاندار شریف آدمی تھا اس نے ان کی پریشانی دیکھی تو کہا کوئی بات نہیں بابو جی، پیسے پھر آ جائیں گے۔ موصوف خاصے نادم ہوئے اور ایک بار پھر کالج کی راہ لی۔ راستے میں چائے کی دکان پر نظر پڑی تو چائے پینے کے لئے رک گئے اور بل کی ادائیگی کے وقت ایک بار پھر انہیں یاد آیا کہ بٹوہ گھر پر ہی بھول آئے ہیں۔ اتفاق سے یہ دکاندار بھی بھلا مانس تھا سو اس نے بھی یہی کہا کہ کوئی بات نہیں، بابو جی پیسے پھر آ جائیں گے۔ پروفیسر صاحب کو کچھ ضروری کاغذات فوٹو اسٹیٹ کروانا تھے لیکن اچانک یاد آیا کہ بٹوہ تو وہ گھر ہی بھول آئے سو الٹے پائوں دکان سے نکل آئے۔ راستے میں ایک دکان پر سگریٹ لینے کے لئے رک گئے اور سگریٹ کی ڈبی جیب میں ڈالنے کے بعد بٹوہ یاد آیا تو انہوں نے سگریٹ کی ڈبیہ دکاندار کو واپس کی اور کہا ’’میں ذرا ایک کام نمٹا آئوں، واپسی پر سگریٹ لیتا جائوں گا۔‘‘ ممکن ہے میرے پروفیسر دوست کے اس کمزور حافظے کے محرکات کچھ اور بھی ہوں مگر اس قسم کے کمزور حافظے والے لوگ تو میں نے بہرحال دیکھے ہیں کہ جنہیں کچھ یاد رہ جاتا ہے اور کچھ بھول جاتا ہے، مثلاً ایک اور دوست اس بات پر سخت پریشان نظر آ رہے تھے کہ ان کا حافظہ لین دین کے معاملے میں بے حد کمزور ہو گیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کا ہزار روپیہ حامد نے دینا ہے، پانچ سو روپے امجد کی طرف ہیں، پچاس روپے نواز نے دینے ہیں، چھ سو چھبیس روپے مجاہد کی طرف نکلتے ہیں مگر یہ سب کچھ ان کے ذہن سے محو ہو چکا ہے اور یہ کہ اس وقت بڑی مشکل سے انہیں یہ نام اور رقم یاد آئی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کے پیسے میرے اس دوست کی طرف نکلتے ہیں اور یہ بات میں نے انہیں یاد دلائی مگر وہ اپنی اور میری تمام تر کوشش کے باوجود ان لوگوں کے نام یاد نہ کر سکے۔ فقط اپنے حافظے کو کوستے رہے۔

ویسے کمزور حافظے والا ایک طبقہ اور بھی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس طبقے کے افراد کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہے۔ یہ کم تنخواہ پانے والے لوگوں کا طبقہ ہے۔ مہینے کی پہلی تاریخ کو انہیں تنخواہ ملتی ہے اور دس تاریخ کو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں کہ یہ تنخواہ آخر گئی کدھر ؟ انہیں بہت یاد دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بھائی فلاں فلاں کاموں پر خرچ ہو گئی ہے مگر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ کمزور حافظے والا ایک طبقہ عشاق کا بھی ہے اور ان کے حافظے کی کمزوری نہایت خطرناک قسم کی ہے۔ اسی گروہ کے حوالے سے ظفر اقبال کا شعر ہے

ظفر ضعف دماغ اب اس سے زیادہ اور کیا ہو گا

وہاں جاتا ہوں اور پھر واپس آنا بھول جاتا ہوں

چنانچہ جس طرح فلموں میں ہیرو کے سر پر چوٹ لگنے سے اس کی کھوئی ہوئی یادداشت واپس آ جاتی ہے۔ اسی طرح ان عشاق کی کھوئی ہوئی یادداشت بھی محلے کے نوجوان کچھ اسی قسم کے طریقوں سے واپس لاتے ہیں۔ اور اب اگر میں کمزور حافظے والوں کا موازنہ کرنے پر تل ہی گیا ہوں تو آخر میں کمزور ترین حافظے والے طبقے کا ذکر بھی کر ہی دوں اور میرے نزدیک یہ طبقہ، طبقہ امراء ہے۔ اس کے افراد اتنی محنت سے دولت کماتے ہیں مگر انہیں اپنی دولت کی تفصیل ہی یاد نہیں رہتی۔ ان کے کمزور حافظے کا تو یہ عالم ہے کہ کسی ہوٹل میں کھانا کھا کر بل منگواتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہ ہوٹل تو انہی کا ہے چنانچہ ان کے انتقال کی خبر بھی کچھ اسی طرح کی چھپتی ہے کہ مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور بیس کارخانے سوگوار چھوڑے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں جو غیر فطری مہنگائی پائی جاتی ہے اور اس کے علاوہ معاشرے میں جو بے شمار قباحتیں موجود ہیں ان کا ایک سبب اس طبقے کے بیشتر افراد کی ہوس زر بھی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو تاہم میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس میں ان کی نیت کا کوئی دخل نہیں بلکہ سارا قصور ان کے حافظہ کا ہے جو اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو اب خدا بھی یاد نہیں رہا۔

آخر میں پشاور میں مقیم میرے شاعر اور کالم نگار دوست حماد حسن کی ایک نہایت خوبصورت غزل ؎

عذابِ دیدہ وری گر کہیں رقم ہو جائیں

تو حکم یہ ہے کہ وہ ہاتھ سب قلم ہو جائیں

وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی رقمطراز نہ ہو

وہ کہہ رہے ہیں خطیبانِ مدح و ذم ہو جائیں

کبھی تو ہو کہ اک آسودگی میسر ہو

کبھی اترتے مسلسل عذاب کم ہو جائیں

نہیں کسی کو بھی اب اذنِ مر ثیہ خوانی

کسی کو کیا ہے جو آنکھیں کسی کی نم ہو جائیں

عجب نہیں ہےکہ مدحت سرا ہوں شب زادے

جمالِ صبح سے گر قافلے بہم ہو جائیں

سفر ہے شب بھی ہے اور منطقہ غنیم کا ہے

سو تیز گام چلیں اور ہم قدم ہو جائیں

سپردگی ہو تو ایسی کہ سانس تک گن لیں

اگر ہو قرب تو پھر خواب ہم قدم ہو جائیں

نکل رہے ہیں غلاموں کے قافلے حماد

عجب نہیں جو کسی موڑ پر بہم ہو جائیں