صحتہفتہ بھر کی مقبول ترین

ہم مرچیں کھا کر خود کو تکلیف کیوں دیتے ہیں؟

Share

گذشتہ برس ایک امریکی ہسپتال کے ڈاکٹرز ایک ایسے مریض کو دیکھنے کے لیے دوڑے جو سر، گردن اور پیٹ میں شدید تکلیف کے سبب تڑپ رہا تھا۔ ڈاکٹرز اس کی حالت کی وجہ معلوم نہیں کر پا رہے تھے۔

اس شخص کے بلڈ پریشر، سی ٹی سکین، پیشاب کے نمونوں کے معائنے اور دیگر طبی تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ اس شخص کو نہ تو کوئی زہر دیا گیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی پراسرار بیماری ہے۔

بلکہ اس نے دنیا کی سب سے تیز مرچ کھائی ہے۔

34 سالہ اس شخص نے ایک مقابلے میں بدنام زمانہ مرچ ’کیرولائنا ریپر‘ کھائی تھی جو ہلاپینو مرچ سے 275 گنا زیادہ تیز ہوتی ہے۔

اس شخص کے دماغ کی شریانیں سکڑ رہی تھیں تاہم بعد ازاں ڈاکٹرز اس کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

ریپر مرچ
ریپر مرچ جنوبی کیرولائنا میں پیدا ہوتی ہے اور دنیا کی سب سے تیز مرچ کہلائی جاتی ہے

دنیا بھر میں آج کروڑوں یا اربوں لوگ ہر روز تیکھا یا مرچ والا کھانا کھاتے ہیں جس سے ان کی زبان جلتی ہے، پیٹ خراب ہوتا ہے اور کبھی کبھار اس سے بھی زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ آخر لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

مرچ سے محبت کا یہ سلسلہ ہزاروں سال سے چلا آ رہا ہے اور اس میں کمی کے بجائِے اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ 2007 سے سنہ 2018 کے دوران ہری مرچوں کی پیداوار میں 27 سے 37 ملین ٹن کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

مرچوں کے کاروبار کا تجزیہ کرنے والی کمپنی انڈیکس باکس کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال ہم میں سے ہر ایک فرد نے اوسطاً پانچ کلو مرچیں کھائی ہیں جو 250 پٹاخے کھانے کے برابر ہے۔

کچھ ممالک میں مرچیں دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں۔ ترکی اور میکسیکو بھی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں مرچوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔

ہمیں مرچ اتنی پسند کیوں ہے؟

ارتقائی جبلت کو چیلنج کرنے اور سنسنی اور جوش والی نفسیات کی یہ ایک پیچیدہ کہانی ہے۔

مرچ
دنیا بھر میں مرچوں کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے

سائنسدان یہ اندازہ نہیں لگا پائے کہ کیا مرچ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کو انھیں کھانے سے روکنے کے لیے وجود میں آئی کیونکہ پرندوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

امریکی ریاست ایریزونا کی یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ پرندوں میں مرچ کا بیج ان کے نظام انہضام میں ٹوٹنے کے بجائِے ثابت ہی باہر نکل جاتا ہے۔ اگر مرچ کے پودے جانوروں کو دور رکھنے کے لیے تیکھے اور تیز ہوتے ہیں تو انسانوں پر ان کا اثر کیوں نہیں ہوتا۔

مقابلہ
چین کا مرچیں کھانے کا مقابلہ دنیا بھر میں مشہور ہے

اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انسان مرچ کیوں کھاتا ہے۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ انسان مرچ اس لیے کھاتا ہے کیونکہ مرچوں میں موجود فنگس اور بیکٹیریا میں دفاع کی خوبیاں ہیں۔

لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہونے لگا کہ مرچوں والا کھانا جلدی خراب نہیں ہوتا۔

سائنسدانوں نے 36 ممالک کے گوشت سے بننے والے ہزاروں پکوانوں کی تراکیب کا جائزہ لیا جس سے انھیں پتا چلا کہ گرم ممالک میں مرچ مصالحوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور وہاں بھی جہاں کھانا سڑنے کا اندیشہ زیادہ ہو۔

کھانا
سائنسدانوں کے مطابق انسانوں نے مرچوں کا استعمال کھانے کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے شروع کیا

تحقیق کاروں کے مطابق گرم ممالک میں گوشت سے بنی ہوئی ہر ڈش میں کم سے کم ایک مصالحہ ضرور ہوتا ہے اور زیادہ تر میں کئی طرح کے مصالحے ہوتے ہیں۔ جبکہ ٹھنڈے ممالک میں بغیر مرچ مصالحے کے کھانے بنائے جاتے ہیں۔

تھائی لینڈ، فلپائن، ملیشیا اور انڈیا میں زیادہ تیکھا کھانا بنایا جاتا ہے جبکہ سویڈن، فِن لینڈ اور ناروے اس زمرے میں سب سے نیچے آتے ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم کھانے کے ساتھ چاہے جو مرضی کریں۔ اسے پکائیں، سکھائیں یا اس میں مصالحہ ملائیں، اس کا مقصد بیکٹیریا کی افزائش کو روکنا ہوتا ہے۔

ترکی میں مرچوں کا کارخانہ
ترکی دنیا میں مرچیں پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے

ماہر بشریات کاوری او کونر کا کہنا ہے کہ گنے اور آلو کی طرح مرچیں بھی یورپ کے کھانوں میں شامل ہو چکی ہیں۔ لیکن جب یورپی سیاح تجارت کے لیے امریکہ پہنچے تو مصالحے پوری دنیا میں پھیل گئے تھے۔

او کونر کا کہنا ہے کہ یہ مصالحے یورپی تاجروں کے ساتھ پوری دنیا میں پہنچے۔

پیٹ درد یا سنسنی

مصالحے دار یا مرچ والے کھانے کے ساتھ ہماری محبت کو ایک طرح سے مشکل کام کرنے والی فطرت یا شوق کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔

تکلیف دہ تجربہ

کہا جاتا ہے کہ ہم نے مرچیں اس لیے کھانا شروع کی کیونکہ ہم ایسا ہی لطف اٹھانا چاہتے ہیں جیسا کہ آج کل کے رولر کوسٹر میں بیٹھ کر آتا ہے۔ پنسلوینیا یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر پال روزن کا خیال ہے کہ دودھ پلانے والے جانوروں کی اکثریت مرچیں نہیں کھاتی۔

پروفیسر پال روزن نے کچھ لوگوں کو کھانے کے لیے مرچیں دیں اورآہستہ آہستہ انھیں تیز سے تیز تر مرچیں دیتے گئے، اتنی کہ وہ برداشت نہ کر پائیں۔

اس کے بعد ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ انھیں کس حد تک مرچیں پسند آئیں۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ برداشت کرنے کی حد تک۔

پال روزن کا کہنا ہے کہ انسان فطری طور پر منفی کھیل پسند کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہمیں ڈر بھی لگ رہا ہو پھر بھی ہم ڈراؤنی فلم سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔

مرچیں
تحقیق کے مطابق بعض لوگ مرچیں صرف تھرِل یعنی اس سے ملنے والی سنسنی کے لیے کھاتے ہیں

سائنسدانوں کو یہ جانے میں بھی دلچسپی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں مرچیں زیادہ پسند کیوں ہوتی ہیں۔

ماہر خوراک نادیہ بائرنس نے یہ بھی پتا لگانے کی کوشش کی کہ اس میں جنس کا کتنا کردار ہوتا ہے۔ نادیہ کے مطابق کچھ مرد دکھاوے کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، مثلاً دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس لیے وہ زیادہ مرچ والا کھانا کھا کر خود کو بہادر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ عورتوں کی دلچسپی مرچ اور اس سے ملنے والی سنسنی میں ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر میکسیکو میں مرچیں کھانے کا تعلق طاقت، بہادری یا مردانگی سے وابستہ کیا جاتا ہے۔

ایک بات تو واضح ہے کہ تیز سے تیز تر مرچوں کی پیداوار بڑھتی جا رہی ہے۔

اب آپ چاہے مرچیں صرف ذائقے یا بہادری کے لیے کھاتے ہوں، کسی بیماری کی وجہ سے یا کھانے کو سڑنے سے بچانے کے لیے، آپ کے کھانوں کے لیے مرچوں کی کمی کبھی نہیں ہو گی۔