منتخب تحریریں

یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم

Share

رانا ثناء اللہ خوش قسمت ہیں کہ میڈیا میں ان کی بے گناہی کے حوالے سے ”اجماعِ امت‘‘ رہا۔ انہیں یکم جولائی کی سہ پہر راوی ٹول پلازہ پر ہیروئن سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ (تب) وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہر یار آفریدی نے (اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ) ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ تین ہفتے سے رانا صاحب کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جا رہی تھی۔ اس دوران وہ اس لیے بچ نکلنے میں کامیاب رہے کہ اِن کے ساتھ گھر کی خواتین بھی ہوتی تھیں۔ بالآخر یکم جولائی کو دھر لیے گئے‘ جب وہ فیصل آباد سے لاہور آ رہے تھے (کچھ عرصہ قبل انہیں مسلم لیگ (ن) پنجاب کی صدارت سونپی گئی تھی۔ ان دنوں وہ رابطہ عوام مہم کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ چند روز قبل مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکان پنجاب اسمبلی کی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبر پر ان کا اعلان تھا کہ وہ خود ان ”لوٹوں‘‘ کے گھیراؤ کی مہم کی قیادت کریں گے۔ ان کے مطابق یکم جولائی کی دوپہر فیصل آباد سے لاہور کا سفر بھی پارٹی کی ایک اہم میٹنگ میں شرکت کے لیے تھا) استغاثہ کی مطابق خود انہوں نے نیلے رنگ کا ایک بیگ اے این ایف والوں کے سپرد کیا جس میں 15 کلو ہیروئن تھی (ابتدا میں اس کی مقدار 21 کلو بتائی گئی) نارکوٹکس ایکٹ کے تحت اس کی سزا، سزائے موت، عمر قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ 14 سال قید تھی۔
رانا ثناء اللہ ایک عرصے سے گرفتاری کے ”منتظر‘‘ تھے۔ وہ ٹاک شوز میں بلانے والے اینکرز سے بھی کہتے کہ شاید یہ آپ کے ساتھ آخری پروگرام ہو۔ ان کا خیال تھا کہ انہیں کرپشن کے کسی الزام (مثلاً آمدن سے زائد اثاثے وغیرہ) میں گرفتار کیا جائے گا۔ کچھ روز سے تو وہ گرفتاری سے بڑھ کر خطرہ محسوس کرنے لگے تھے؛ چنانچہ اپنے گارڈز بھی بدل لیے تھے۔ اہل خانہ کے بقول، وہ انہیں بھی گھر سے باہر نکلنے میں احتیاط کا مشورہ دیتے۔ یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہیں ہیروئن سمگلنگ کے سنگین الزام میں گرفتار کر لیا جائے گا اور یہی بات ان کے بد ترین سیاسی مخالفین کے لیے بھی حیران کن تھی۔ وہ جو جگہ جگہ لکھا ہوتا ہے، خبردار! کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے تو رانا صاحب بھی کیمرے کی آنکھ کی زد میں تھے۔
رانا ثناء اللہ کے ذہنی طور پر ”ابنارمل‘‘ ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ مشرف دور میں بھی اِن کی سیاست ایک ”ابنارمل‘‘ آدمی ہی کی سیاست تھی جس کے ”علاج‘‘ کے لیے اغوا کرنے کے بعد، ان کی بڑی بڑی مونچھیں اور بھنویں صاف کرنے کے علاوہ جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈ سے کٹ بھی لگائے گئے اور پھر بے ہوشی کی حالت میں سڑک پر پھینک دیا گیا تھا لیکن اس سے الٹا ان کی ”ابنارملٹی‘‘ میں اضافہ ہو گیا۔ پنجاب اسمبلی میں وہ انہی خون آلود کپڑوں میں اسی وضع قطع کے ساتھ چلے آئے اور پہلے سے زیادہ جارحانہ تقریر کر ڈالی لیکن وہ رانا کا سیاسی پاگل پن تھا‘ جس میں وہ کسی خطرے، کسی نقصان کی پروا نہ کرتا‘ لیکن مسلسل کیمروں کی زد میں رہنے والا شخص، جس کے فون بھی ٹیپ کئے جاتے ہوں گے، 15 کلو ہیروئن کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہا ہو، یہ تو ایک اور طرح کا پاگل پن تھا اور میرے خیال میں رانا بہرحال ایسا پاگل نہیں تھا۔ہمیں ایک ٹاک شو میں جناب ایاز امیر کی گفتگو یاد ہے، (غالباً انہوں نے اپنے کالم میں بھی یہ بات لکھی تھی) کہ وہ کسی کام سے فیصل آباد گئے۔ میل ملاقاتوں میں رانا کی گرفتاری کی بات ہوئی۔ ایاز امیر کے بقول، فیصل آباد میں بد ترین سیاسی مخالفین بھی رانا کے خلاف ہیروئن والا یہ الزام تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ یہی بات حسن نثار بھی کہتے ہیں (اپنے آبائی شہر سے حسن کی جذباتی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ وہ آج بھی اسے لائل پور ہی کہتے ہیں) حسن کا رویہ عموماً ”گرم دمِ گفتگو‘‘ کا رہتا ہے لیکن راناثناء اللہ کے خلاف اس الزام پر تو وہ گرما گرم تھے۔
یکم جولائی کی گرفتاری سے 24 دسمبر کو ضمانت پر رہائی کے حکم تک رانا کے خلاف قانونی کارروائی کی جملہ تفصیل میڈیا پر آ چکی۔ 15 کلو ہیروئن کے کیس میں‘ جس میں سزائے موت، عمر قید یا 14 سال قید ہو سکتی ہے، ضمانت پر رہائی یقینا ایک منفرد واقعہ ہے۔ لیکن اگر ساڑھے پانچ ماہ سے زائد عرصے کے دوران بھی استغاثہ ایسے شواہد تیار (اور پیش) نہ کر سکے جو عدالت عالیہ کو مطمئن کر سکیں تو ضمانت تو بنتی ہے۔ وزیر مملکت شہر یار آفریدی، اس کیس کے حوالے سے پہلے دن سے ہی میڈیا کی تنقیدکی زد میں رہے۔ وہ جو کسی نے کہا، اس نے بات کی، میں نے صحیح مان لیا، اس نے اسے دہرایا، مجھے شک پڑ گیا۔ قسم کھائی تو مجھے یقین ہو گیا کہ جھوٹ بول رہا ہے۔ آفریدی صاحب نے پارلیمنٹ میں اور ”ٹاک شوز‘‘ میں، اس حوالے سے گفتگو میں ”میں نے خدا کو جان دینی ہے‘‘، ”جھوٹ بولوں تو مرتے دم کلمہ نصیب نہ ہو‘‘… جیسے الفاظ جس تواتر سے دہرائے اس نے انہیں بڑی مضحکہ خیز پوزیشن میں ڈال دیا تھا۔ وہ رانا کی تین ہفتے کی نقل و حرکت کی فوٹیج کا دعویٰ کرتے لیکن عدالت میں چالان کے ساتھ، استغاثہ نے جو فوٹیج پیش کی اس میں ہیروئن کی برآمدگی کا کوئی منظر نہ تھا۔ اڑھائی تین سیکنڈ کی یہ فوٹیج، فیصل آباد سے ایگزٹ اور لاہور ٹول پلازہ پر انٹری کی تھی (جو ہر گاڑی کی ہوتی ہے) ہائی کورٹ سے ضمانت کے اگلے روز آفریدی صاحب نے ایک اور پریس کانفرنس کی ٹھان لی۔ (ندیم افضل چن کے بقول انہوں نے آفریدی کو اس سے روکا بھی تھا) جس میں وہ میڈیا والوں کو ”ویڈیو‘‘ اور” فوٹیج‘‘ کا فرق سمجھاتے رہے۔ کسی ستم ظرف کے بقول فرق تو ہے، کہ ویڈیو ”و‘‘ سے اور فوٹیج ”ف‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ یہ ”ضمانتوں کا موسم‘‘ ہے۔ ان کا اشارہ رانا کی ضمانت سے ایک روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی طرف تھا (ایل این جی کیس میں، جناب شاہد خاقان عباسی کے شریک ملزم) عدالت عالیہ میں تفتیشی افسر کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہ تھی کہ ساڑھے چار ماہ کے اس عرصے میں، اس نے ایک بار پھر بھی جیل جا کر، مفتاح اسماعیل سے تفتیش نہیں کی۔ اس کیس کے ”بڑے ملزم‘‘ شاہد خاقان عباسی عجیب ”اذیت پسند‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ جولائی کے وسط میں گرفتاری کے بعد عدالت میں پیشی پر وہ 90 روز کے جسمانی ریمانڈ کی ”رضا کارانہ پیش کش‘‘ کر رہے تھے کہ اس دوران وہ تفتیش کاروں کو یہ کیس اچھی طرح سمجھا سکیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بقول، ملک کے سابق وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل میں ”ڈیتھ سیل‘‘ میں رکھا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے پروڈکشن آرڈر کے حوالے سے بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک سامنے آیا۔ سپیکر صاحب کے پروڈکشن آرڈر کی بجائے وہ ہائی کورٹ کے حکم پر اجلاس میں آئے اور سپیکر صاحب کو ان کے فرائض و اختیارات اور منتخب نمائندوں کے استحقاق کا سبق یاد دلا کر چلے گئے۔ ان کی مختصر تقریر، ایوان کی یادگار تقاریر میں سے ایک تھی،
آج تک گم صم کھڑی ہیں شہر میں
جانے دیواروں سے تم کیا کہہ گئے
رانا صاحب لاہور کی کیمپ جیل میں تھے۔ ان پر منشیات کا کیس تھا، اس لیے الگ سیل میں رکھا گیا، جہاں وہ بی کلاس کی سہولت کے مستحق نہیں تھے۔ خواجہ سعد رفیق سمیت نیب کے گرفتار شدگان کو یہ سہولت تھی کہ ایک الگ احاطے میں، ان کی کوٹھڑیاں تو الگ الگ تھیں ،شام کو بند اور صبح کو دروازہ کھول دیا جاتا اور وہ شام تک احاطے کے اندر، ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے۔ اس عرصے میں رانا صاحب کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا ایک پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہ ہوا۔
آفریدی صاحب نے ”ضمانتوں کے موسم‘‘ کی بات کی ہے، لیکن یہ گرفتاریوں کا موسم بھی ہے۔ احسن اقبال کی گرفتاری، مریم نواز کی 6 جولائی کی پریس کانفرنس میں موجودگی پر، پرویز رشید، عظمیٰ بخاری اور عطاء اللہ تارڑ کی ایف آئی اے میں طلبی … اور لاہور رنگ روڈ میں 62 ارب کی مبینہ کرپشن کی انکوائری کا حکم، گرفتاریوں کے موسم کی خبر بھی تو دے رہا ہے۔ ”موسم‘‘ سے فیض یاد آئے ؎
یہی جنوں کا یہی طوق و دار کا موسم
یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم