منتخب تحریریں

آزاد پریس اور انتخابات سے خوف کیوں؟…یارِ من ترکی (3)

Share

پاکستان میں سویلین بالا دستی کے لیے سیاسی وغیر سیاسی عناصر میں کشمکش کی اپنی کہانی ہے اوربرادر ملک ترکی کی اپنی داستان ۔ پاکستان ایک سیاسی قائد کی زیر قیادت ‘ ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا‘ اسلام جس میں بنیادی قوت ِ متحرکہ بنا اور پھر مملکتِ خداداد میں قائد اعظم کے انتقال اور ان کے دستِ راست لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد عملاً جو کچھ ہوا‘ اس سے قطع نظرتحریری حد تک یہاں کے سبھی دساتیر میں یہ اسلامی جمہوریہ تھا‘جہاں امورِریاست میں منتخب قیادت(اور منتخب ادارے) ہی بالا دست تھے۔ کمال اتاترک کے ”جدید ترکی‘‘ میں معاملہ مختلف تھا۔ پہلی جنگ ِعظیم میں شکست اور پھر سلطنت ِعثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ کمال اتا ترک کی زیرِقیادت یہ ”ینگ ترکس‘‘(Young Turks) تھے جن کی عسکری جدوجہد نے ”جدید ترکی‘‘ کو جنم دیا؛ چنانچہ یہاں کے دستور میں امورِ مملکت میں فوج بالا دست اور اتاترک کا ”سیکولر ازم‘‘ طرزِ حکمرانی قرار پایا‘ جس میں ترک زبان کا رسم الخط ہی نہیں بدلا‘ بلکہ عربی میں اذان اور قرآن کی تبلیغ اور نشرواشاعت بھی ممنوع قرار پائی۔ ترکی مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ آج (طیب اردوان) کے ترکی تک پہنچنے میں ‘ یہاں کے جمہوریت پسندوں (اور اسلامسٹوں ) کا سفر بہت کٹھن رہا۔ اس میں قید وبند کی صعوبتوں کے علاوہ‘ منتخب وزیر اعظم عدنان میندریس کی پھانسی بھی تھی۔
اس وقت میرے سامنے ترکی کے ایک سابق وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل کا انٹرویو ہے۔ جناب الطاف حسن قریشی کے قلم سے نصف صدی پہلے کا یہ انٹرویو آج بھی تروتازہ لگتا ہے جس میں پاکستانی قیادت کے لیے سیکھنے اور سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔ نواز شریف کی طرح‘ سلمان ڈیمرل کی سیاسی کہانی کو بھی ”ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘‘ کا عنوان دیا جاسکتا ہے‘ اس فرق کے ساتھ کہ میاں صاحب تین بار وزیر اغظم بنے‘ جبکہ ڈیمرل کومختلف اوقات میں یہ اعزاز چھ بار حاصل ہوا۔ اپریل1993ء میں صدر ترگت اوزال کے اچانک انتقال کے بعد ڈیمرل نے قائم مقام صدر کا منصب سنبھال لیا‘ جس کے بعد پارلیمنٹ نے انہیں باضابطہ طور پر سات سال کے لیے صدر منتخب کرلیا (ڈیمرل 17جون 2015ء کو اگلے جہاں سدھار گئے) ۔ اس طویل انٹرویو سے کچھ اقتباسات:
اس سوال پر کہ آپ انتخابات سے خوف زدہ تو نہیں؟ ترک لیڈر کا جواب تھا: خوف کس بات کا؟ انتخابات تو ہماری اصل قوت ہیں۔ ان کے ذریعے سیاسی آب وہوا اور موسم کا اندازہ رہتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ ملک کے اصل حکمران عوام ہیں۔ ایک شخص ایک پارٹی یا چند خاندان نہیں۔ہمارے ملک میں طویل عرصے تک ایک پارٹی کی حکومت رہی‘ لیکن عوام نے اس کے خلاف ایک نئی جماعت”ڈیموکریٹ پارٹی ‘‘ تشکیل دے کر جدوجہد کا آغاز کردیا ۔ 1950ء میں ری پبلکن پارٹی شکست کھا گئی اور ڈیموکریٹ پارٹی حکومت میں آ گئی۔ 1960ء کے فوجی انقلاب کے فوراً بعد عوام نے جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد شروع کردی اور بالآخر فوج عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے 1961ء میں بیرکوں میں چلی گئی‘ لیکن اس کا ایک حصہ اقتدار سے دستبردار ہونے پر کسی طرح آمادہ نہیں تھا‘ اللہ کا شکر ہے کہ عوام کے زبردست جوش وخروش اور سیاسی بیداری نے فوج کے اس حصے کی کوشش ناکام بنا دی۔
ترکی میں آزادیٔ صحافت کے حوالے سے ‘ سلیمان ڈیمرل کا کہنا تھا: قومی سلامتی ‘ اخلاق ِعامہ ‘ افراد کے وقارواحترام اور عدالتی عملداری کے مناسب تحفظ کے ساتھ ‘ پریس مکمل طور پر آزاد ہے۔ اخبار نکالنے کے لیے حکومت سے ڈیکلریشن لینے کی ضرورت نہیں۔حکومت پریس پر سنسرشپ عائد کرسکتی ہے نہ کسی اخبار کے خلا ف کوئی کارروائی کرسکتی ہے۔ یہ حق صرف عدالتوں کو حاصل ہے۔ ہمارے ملک میں کسی قسم کے پریس قوانین سرے سے موجود نہیں۔”پھر تو آپ کے لیے قدم قدم پر بہت سی دشورایاں بیدار ہوتی ہوں گی۔ یہ صحافی غضب کے ہوتے ہیں ‘ بے پرکی اڑاتے اور تخریبی تنقید کرتے ہیں‘‘؟”جی نہیں‘ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ درست ہے کہ بعض اخبارات غیر ذمے دارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں‘ مگر جب دوسرے اخبار عوام کے سامنے صحیح اور مستند تصویر پیش کرتے ہیں‘ تب عوام جان لیتے ہیں کہ کون سا اخبار معتبر ہے اور کون سا غیر معتبر‘ اس طرح ایک صحت مند رجحان فروغ پاتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہمارے ہاں بعض اخبارات نے از خود ضابطۂ اخلاق مرتب کیا ہے اور وہ اس کے مطابق کا م کررہے ہیں‘‘۔”مگر ڈیمرل صاحب! یہ خطرہ بھی تو موجود ہے کہ اخبارات ایک غلط نظامِ زندگی کو عوام کے ذہنوں میں راسخ کرتے چلے جائیں‘‘۔”اگر ایک اخبار غلط نظامِ ِفکر کی حمایت کرتا ہے تو دوسرا اخبار اس کی خامیاں ‘ گمراہیاں اور غلطیاں بے نقاب کردیتا ہے۔ دونوں تصویروں کے سامنے آجانے سے عوام فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سا نظامِ فکر ان کے لیے نقصان دہ ہے اور کون سا نفع بخش۔ ہمارے عوام اس قدر سادہ لوح نہیں کہ انہیں دھوکا دیا جاسکے۔ انہیں یہ ذہانت اور احساسِ ذمے داری مسلسل تجربات اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔”جناب ڈیمرل! پریس کی مکمل آزادی میں یہ خطرہ بھی تو پنہاں ہے کہ بعض اخبارات بیرونی دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ملکی مفاد کو نقصان پہنچاتے رہیں؟‘‘۔”میں اسے فقط ایک مفروضہ سمجھتا ہوں: مجھے یقین ہے کہ میرے ملک کا کوئی صحافی اپنی قوم کے خلاف آلۂ کار نہیں بن سکتا۔ ایسا سوچنا تو میری قوم اور میرے وطن کی توہین ہے۔ میں جانتا ہوں کہ پریس کا ایک حصہ ہماری پالیسیوں کا مخالف ہے اور وہ حکومت پر سخت تنقید بھی کرتاہے‘ لیکن اگر کبھی ملک کی سالمیت اور وطن کی حفاظت کا مسئلہ پیدا ہوا ‘ تب سارا پریس متحدہو کر وطن کی حفاظت کرے گا‘‘۔”پریس کی غیر ذمے دارانہ حرکتوں سے ملکی امیج بیرونی ملکوں میں خراب بھی تو ہوتا ہے‘‘؟”یہ امیج بھی ایک فریب ہے۔ لوگ ہمارے ملک کے بارے میں جورائے قائم کرتے ہیں وہ اس بات سے نہیں کرتے کہ ہمارے اخبارات ہمارے بارے میں کیا لکھتے ہیں‘ بلکہ اس بات سے کرتے ہیں کہ ہماری اصل داخلی طاقت کس قدر ہے اور بین الاقوامی معاملات میں ہمارا اعتبار کس قدر ہے۔ آج اہلِ نظر سے کوئی چیز چھپانا ممکن نہیں رہا۔ تب اپنے آپ کو بے وقوف بنانے کا کیا فائدہ ؟پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پریس کی آزادی سے حکومت کی مشینری مستعد اور چوکس رہتی ہے‘ ہم عوام کا پیسہ خرچ کرتے ہیں‘ تو ان کے نگہبانوں کو ہمارا محاسبہ کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پریس آزاد اور جرأت مندنہ ہو‘ تو حقیقی خطرات اکثر اوقات ہماری آنکھوں سے ہمیشہ اوجھل رہتے ہیں۔ آزاد اور بے باک پریس کی مثال ایک ا ُبلتے ہوئے سٹیمر میں سیفٹی والو جیسی ہے۔ جب تک سیفٹی والو کام کرتا رہے گا‘ تب تک سٹیمر کے پھٹنے کا کوئی احتمال نہیں ہوگا۔ سیفٹی والو نہ ہو ‘ تو کیا خبر کس وقت خوفناک دھماکہ ہوجائے‘‘۔
”پچھلے دنوں آپ کے ملک میں طلبہ کے مظاہرے اور ہڑتالیں ہوئیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ہاں بھی طلبہ زیادہ وقت سیاسی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں‘‘؟”صحت مند سیاسی سرگرمیاں کسی اعتبار سے بری نہیں ۔ طلبہ کو آگے چل کر قوم اور ملک کے معاملات چلانا ہوں گے جس کے لیے انہیں سیاسی شعور اور تربیت کی ضرورت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر یونیورسٹیاں مکمل طور پر آزاد ہیں کیونکہ علم آزاد فضا ہی میں برگ وبارلاتا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ ملکی مسائل پر تحقیق کرتے اور ہمارے سامنے ٹھوس حل پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں ان کی صلاحیتیں قومی ترقی اور صحت مند سیاسی زندگی کے لیے استعمال میں لانا چاہئیں‘‘۔”پاکستان کو بھارت کی طرف سے جارحیت کی صورت میں آپ کا رویہ کیا ہوگیا‘‘؟”خدا نخواستہ پاکستان پر کسی طرف سے حملہ ہوا تو ترکی پاکستان کے شانہ بشانہ لڑے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ترک قوم جب کوئی وعدہ کرلیتی ہے ‘تب جان پر کھیل کر اسے پورا کرتی ہے‘‘۔