منتخب تحریریں

اخلاقی وجود اور کورونا

Share

انسان صرف مادی وجود نہیں،ایک اخلاقی وجودبھی ہے۔
یہ مذہب کانہیں،عقلِ عام کا مقدمہ ہے۔ انسانی لغت میں لفظ ‘اخلاق‘ کی موجودگی، اس کے اخلاقی وجود کی سب سے بڑی گواہی ہے۔ لسانیات کا معلوم اصول ہے کہ کسی شے کاوجود پہلے ہوتا ہے اورنام بعدمیں۔ نام اس کی لفظی تجسیم کرتا اور ابلاغی ضرورت کوپورا کرتاہے۔ وجودمادی ہوتا ہے اورتصوراتی بھی۔ دونوں صورتوں میں، لفظ کی حاجت تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی’وجود‘انسانی محسوسات کا حصہ بنتا ہے۔
سچ جھوٹ، صحیح غلط‘محبت نفرت،اچھا برا،محض الفاظ نہیں‘یہ غیر مادی وجود ہیں جن کو ہم نے کبھی دیکھا نہیں مگران کی کارفرمائی سے انکار ممکن نہیں۔ ہمارے سامنے صدق صادر ہوتا ہے اورکذب بھی۔ ہم ان کے معاشرتی اثرات کو بچشمِ سر دیکھتے ہیں۔ وہ ہمارے مادی وجود کو بھی متاثر کرتے ہیں اور اخلاقی وجود کو بھی۔ جھوٹ قدر بن جائے تو معاشرے برباد ہوجاتے ہیں۔
یہی بات جب اہلِ مذہب کہتے ہیں تو غیر مذہبی صاحبانِ عقل ان سے دلیل مانگتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ انسان پر اترنے والی بلائیں،اس کے اخلاقی زوال کا نتیجہ ہیں تو وہ حیرت سے ان کا منہ تکنے لگتے ہیں اور زبانِ حال ہی سے نہیں، اب تو زبانِ قلم سے بھی اس مقدمے پر سوال اٹھادیتے ہیں۔ اگر آپ سچ اور جھوٹ کو مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ اس کے اثرات مادی زندگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں تو اس بات کو قبول کرنے میں تامل کیوں ہے کہ بے حیائی بھی اس کی مادی زندگی کو متاثر کر سکتی ہے؟ معلوم ہوا مسئلہ اخلاقیات کا نہیں، حیا کو اخلاقی قدر ماننے کا ہے۔
امام غزالی نے اس کیفیت کوبہت حکیمانہ اندازمیں بیان کیاہے۔ ایک آدمی جب تم سے کہتا ہے کہ دیکھو! تمہاری قمیص میں بچھو ہے تو تم بغیر سوچے سمجھے، سرعت کے ساتھ قمیص اتار پھینکتے ہو۔اس سے دلیل مانگتے ہو نہ سچائی کی سند۔ بچھو کا خوف تم کو یہ مہلت ہی نہیں دیتا۔ لیکن جب خدا کے پیغمبر تمہیں ان دیکھے خطرات کا خوف دلاتے تو تم ان سے دلیل مانگتے اور ان کا ٹھٹھا اڑاتے ہو۔ اس رویے کے ساتھ بھی ، انسان کا اصرار ہے کہ وہ ایک عقلی وجودہے۔
چلیے، مسئلے کی کچھ تسہیل کرتے ہیں۔ کوئی مذہب کو مانے یا نہ مانے، یہ تسلیم کرتاہے کہ انسان کا ایک اخلاقی وجود ہے اور اس کی سلامتی، اس کے مادی وجود کی سلامتی کی طرح لازم ہے۔ اس اخلاقی وجود کو سلامت رکھنے کے لیے ،اسے ایک نظام ِ اقدار کی ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتا ہے جہاں کوئی دوسرے کو دھوکہ نہ دے۔ سچ بولے ۔ دکان دار پورا تولے۔ملاوٹ نہ کرے۔
وہ جانتاہے کہ جب معاشرے میں لوگ دھوکہ دینے لگیں،جھوٹ بولیں اور دکان دار ملاوٹ کرے تو معاشرہ مادی طور پر بھی بر باد ہو جا تا ہے۔ یوں وہ اخلاقی زوال کے نوحے لکھتا ہے۔ سچ کے اٹھ جانے کا ماتم کر تا ہے۔ گزرے وقت کی یاد میں آنسو بہاتا ہے جب ملاوٹ کا تصور نہیں تھا۔ اس کا تجربہ ہے کہ جب اخلاقی قدریں برباد ہو جاتی ہیں تو معاشرے اپنا مادی وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔اخلاقی وجود کی ایک اینٹ ہلتی ہے تو اس کے مادی وجود کی دراڑیں صاف نظر آنے لگتی ہیں۔
گویا مذہب کا انکار کرنے والا بھی جانتا ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود رکھتا ہے اور اس کی سلامتی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اس کے مادی وجود کی سلامتی۔ اسے یہ معلوم ہے کہ منشیات بیچنے سے پیسہ ملتا ہے لیکن زندگی کو نقصان پہنچتاہے۔یوں محض سرمایے کی گردش کے لیے ،وہ کبھی اس کا قائل نہیں ہوتا کہ منشیات کی تجارت کو جائز قرار دے دیاجائے یاجوئے کو قانو نی گرفت سے آزاد کردیا جائے۔
غیر مذہبی انسان بھی ایک نظام ِ اخلاق کو مانتا ہے لیکن اسے یہ قبول کرنے میں تامل ہے کہ حیا بھی کوئی اخلاقی قدر ہے یا اس کے پامال ہونے سے انسان کا اخلاق زوال واقع ہو جا تا ہے۔ گویا اختلاف بنیادی مقدمے میں نہیں، اس قدرکے نظامِ اخلاق کا حصہ ہونے میں ہے۔ غیر مذہبی انسان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اخلاقیات کا ایک عورت کے لباس سے کیا تعلق ہے؟ عورت اگر پیرہن دریدہ ناچتی ہے تو معاشرہ کا اخلاقی وجودکیسے کمزور ہوتا ہے؟
یہ سوال نیا ہے نہ یہ مقدمہ۔ اس کا تعلق جنس کے باب میں انسانی خیالات کے ساتھ ہے۔ اخلاقیات کے مباحث میں، یہ سوال ابتدا ہی سے شامل ہے کہ جنسی رویے کی تشکیل مقامی رواج اورروایت کے زیرِ اثر ہے یا کسی عالمگیر قدرکے تابع ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس باب میں دونقطہ ہائے نظر ہمیشہ رہے ہیں۔ ایک وہ جو اسے مقامی روایت کے تابع قرار دیتا ہے جنہیں Moral Relativists کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کو عالمگیر قدروں کے زیرِاثر مانتے ہیں۔ انہیں Moral Objectivists کہا جا تا ہے۔ دونوں اس پر متفق ہے کہ جنسی رویہ بہر حال کسی نظام ِاقدار کے تابع ہوتاہے۔
مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ انسان کے اخلاقی وجود میں جو فساد برپا ہو تا ہے،جنس اس کا ایک دروازہ ہے، اگراس کوچوپٹ کھول دیا جا ئے۔ دوسرے نظام ہائے اخلاق میں اسے صرف معاشرتی فساد کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔ مذہب کا بنیادی مقدمہ چونکہ اخلاقی تزکیہ ہے، اس لیے وہ جوہری طور پر اس معاملے کو اخلاقی حوالے سے دیکھتا ہے۔ معاشرتی فساد بھی اہم ہے لیکن مذہب کے نزدیک وہ اس کا حقیقی سبب نہیں، نتیجہ ہے۔
اس سے بچنے کے لیے مذہب کا تجویز کردہ طریقہ یہ ہے کہ وہ ان امکانات کو بھی ختم کر نا چاہتا ہے جن کا نتیجہ اخلاقی فساد ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ بتاتا ہے کہ جب مرد اور خواتین کسی سماجی تقریب میں جمع ہوں تو کچھ آداب کا خیال رکھیں۔ ان آداب کا تعلق لباس سے بھی ہے اوررویوں سے بھی۔ وہ انسانی رویے کی تہذیب کرتا ہے۔ یہی کام ہر اخلاقی نظام کرتا ہے۔ غور کیجیے تو یہی ایک وجہ ہے جو انسانوں کو جانوروں سے مختلف ثابت کرتی ہے۔ انسان اپنے جبلی مطالبات کی تہذیب کرتا ہے، جانور اس سے بے نیاز ہوتے ہیں۔
مذہب کا کہنا ہے کہ جب انسان اس کی بتائی ہوئی ا حتیاطوں کو قبول کرنے سے انکارکر تا ہے تو اس پر اخلاقی فساد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہ فسادجب فرد سے آگے بڑھ کر معاشرے میں پھیل جاتا ہے تواخلاقی انارکی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے سماجی نتائج اپنی جگہ مگر اس کے اخلاقی نتائج زیادہ اہم ہیں۔ ایک اخلاقی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنے معاملات میں الٰہی تائید اور نصرت سے محروم ہونے لگتا ہے۔
انسان اپنے اخلاقی وجود کی تطہیر کے لیے حساس ہوتا ہے تواللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے ۔ وہ اس کی حفاظت کرتاہے اور اسے عالمِ اسباب کے حوالے نہیں کرتا۔ بصورت ِدیگر وہ اس مددسے محروم ہوجاتاہے۔ پھراگر وہ کسی وبا کا شکار ہوتا ہے تواس سے بچنے کے لیے اسے عالمِ اسباب ہی پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ خدا کی غائبانہ مدد کا استحقاق کھو دیتاہے۔ ہاں اگر وہ رجوع کرنے والا ہو تو پھر تائیدِایزدی بھی حاصل ہوجاتی۔ توبہ اور استغفار اسی رجوع کا اعلان ہے۔
اس سے واضح ہوجانا چاہیے کہ حیا اور کورونا کا باہمی تعلق کیا ہے۔ یہ مذہب کا اصل مقدمہ ہے، کسی مولوی کی ایجاد نہیں؛تاہم حیا کو عورتوں کے لیے خاص کرنا ایجادِ بندہ ہے۔ مذہب حیا کو مرد اور عورت دونوں کے لیے لازم قراردیتا ہے۔ مرد ہو یا عورت،اگر اپنے اخلاقی وجود کی تطہیر سے بے نیاز ہوجائیں گے توخدا کو ناراض کریں گے اور بطور سزا، اس کی نصرت سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔
اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کے قانونِ آزمائش سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ اس قانون کا اطلاق نیک اور بد،سب پر ہوتا ہے۔ہمارے لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون سی مصیبت اور وبا کس وجہ سے ہے۔خدا کا بندہ وہی ہے جو سب سے پہلے اپنی کمزوریوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔جہاں عالمِ اسباب میں اس مصیبت سے بچنے کے ذرائع تلاش کرتا ہے،وہاں اپنے رب کی طرف بھی رجوع کرتا ہے۔