پاکستان

ادریس خٹک ملٹری انٹیلیجنس کی تحویل میں، سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ

Share

تقریباً سات ماہ سے جبری طور پر گمشدہ سماجی کارکن ادریس خٹک کے وکیل کے مطابق وہ پاکستان کی فوج کی سکیورٹی ایجنسی کی تحویل میں ہیں اور ان پر سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔

ادریس خٹک کے وکیل ایڈوکیٹ لطیف آفریدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ‘جبری طور پر لاپتہ افراد کے کمیشن میں ملٹری انٹیلیجنس نے ایک روز پہلے بیان جمع کروایا ہے کہ ادریس خٹک اُن کی تحویل میں ہیں۔ اور ان کے خلاف سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔’

یاد رہے کہ تقریباً سات ماہ قبل سماجی کارکن ادریس خٹک کو اسلام آباد سے اکوڑہ خٹک کے راستے پر صوابی انٹرچینج کے پاس چند سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اُن کی گاڑی سے اتار لیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے۔

ادریس خٹک
ادریس خٹک کی تحقیق کا ایک بڑا حصہ سابق فاٹا، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد رہے ہیں

وکیل لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ‘پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے لاپتہ افراد کے کمیشن میں جمع کروائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں بنے قانون آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت ادریس خٹک پر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ اور آج ان کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش بھی کیا گیا ہے۔‘

لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ یہ ’غیر قانونی عمل ہے جس کے تحت ادریس خٹک کو چھ ماہ سے زائد عرصے تک غائب رکھنے کے بعد اب بتایا جارہا ہے کہ وہ سکیورٹی سروسز کی تحویل میں ہیں۔‘

ان کے وکیل لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ‘اتنے عرصے تک وہ کس وجہ سے سکیورٹی فورسز کی تحویل میں رہے؟ اگر اس دوران حقیقت میں مقدمہ چلتا تو آج وہ شاید بری بھی ہوچکے ہوتے۔’

واضح رہے کہ اس سے پہلے ادریس خٹک کی بازیابی کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے جس میں تمام سکیورٹی ایجنسیوں کو جواب جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔

اس مقدمے کی اگلی سماعت 25 جولائی کو ہوگی۔

ادریس خٹک کی جبری گمشدگی کا پس منظر

13 نومبر 2019 کو دوپہر کے وقت اُن کی گاڑی کو صوابی ٹول پلازہ سے گزرنے کے بعد روکا گیا۔ وہاں سے ادریس خٹک کو اُن کے ڈرائیور شاھسوار سمیت ایک اور گاڑی میں لے جایا گیا۔

پھر اگلی صبح ادریس خٹک نے اپنے ایک دوست کو فون کرکے اپنا لیپ ٹاپ اور ہارڈ ڈسک منگوائی تھی۔ چونکہ ادریس خٹک گھر بند کر کے گئے تھے تو اُن کے دوست کو گھر بلایا گیا اور تھوڑی دیر بعد دو لوگ اُن کے گھر کی چابی لیے پہنچے اور دوست کے ساتھ ادریس خٹک کے فون کے ذریعے نشاندہی کرنے پر اُن کا سامان لے کر چلے گئے تھے۔

دو دن گزرنے کے بعد ادریس خٹک کے ڈرائیور کو موٹروے پر اسلام آباد ٹول پلازہ کے نزدیک چھوڑ دیا گیا اور انھیں گاڑی واپس دے کر سیدھا گھر جانے کا کہا گیا۔ جس کے بعد وہ دیر رات گاؤں واپس آ گئے۔ اس کے بعد ڈرائیور شاھسوار نے انبر پولیس تھانے میں شکایت درج کرائی۔

شاھسوار کی طرف سے تھانے میں درج شکایت کے مطابق ‘صوابی ٹول پلازہ سے گزرنے کے فوراً بعد سادہ لباس میں ملبوس دو لوگوں نے اُن کی گاڑی کو رُکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی رکتے ہی چار آدمی گاڑی کے اردگرد کھڑے ہو گئے جن میں سے دو نے ادریس خٹک اور شاھسوار کی آنکھوں پر پّٹی باندھ دی اور دوسری گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔

ادریس خٹک نے روس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ اُن کی تحقیق کا ایک بڑا حصّہ سابق فاٹا، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد رہے ہیں جبکہ وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

گذشتہ ماہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ادریس خٹک کے لاپتہ ہونے کو انتہائی سنجیدہ معاملہ قرار دیا تھا۔ تنظیم نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ‘ادریس خٹک کو سادہ لباس میں موجود افراد نے غائب کر رکھا ہے۔ ان کے حوالے سے ان کے خاندان کو معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔’

‘ادریس خٹک تشدد یا اس سے بھی بدترین حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔’