دنیابھرسے

اسرائیل، متحدہ عرب امارات امن معاہدہ: ’تاریخی‘ امن معاہدے کے دیگر عرب ممالک پر کیا اثرات ہوں گے؟

Share

پیر کو اسرائیل سے متحدہ عرب امارات کے لیے روانہ ہونے والی پہلی سرکاری پرواز کی اڑان ایک تاریخی واقعہ تھا۔ گذشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان اعلان کردہ امن معاہدے کے تناظر میں باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے یہ پہلا باضابطہ اور اہم قدم تھا۔

اسرائیلی عہدیداروں کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیریڈ کشنر بھی اس پرواز میں موجود تھے، جنھوں نے طیارے کے متحدہ عرب امارات پہنچتے ہی کہا ’یہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نیا سکرپٹ ہے۔‘

درحقیقت جیریڈ کشنر ہی وہ شخص ہیں جنھوں نے اس نئے سکرپٹ کو لکھنے میں مدد کی ہے۔ وہ فریقین کے مابین اس حوالے سے ہونے والی بات چیت میں ہمیشہ شامل رہے ہیں جبکہ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بہت بڑا سیاسی ایجنڈا رہا ہے۔

معاہدے کا فائدہ کس کس کو ہوگا؟

اس معاہدے سے امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات تینوں ممالک کو ہی فائدہ ہو گا۔

خطے میں اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے عمل کو فروغ ملے گا۔ متحدہ عرب امارات کو سلامتی اور سائبر سپر پاور کے میدان میں اسرائیل کی مدد ملے گی اور امریکی صدر تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکی ووٹروں کے سامنے خود کو مشرق وسطیٰ میں بطور امن مندوب پیش کریں گے۔

اگرچہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کے غیر رسمی تعلقات کچھ برسوں سے جاری ہیں لیکن خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے خلیجی ممالک اور اسرائیل کے مابین فاصلہ کافی حد تک کم ہوا ہے۔ عمان اور بحرین بھی اس کی واضح مثال ہیں۔

اسرائیل

اسرائیل سے قربت کی وجہ کیا ایران سے خطرہ ہے؟

انڈیا کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ویسٹ ایشیا سینیٹر کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ ’ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت دونوں فریقوں کو قریب لانے کی ایک وجہ ضرور ہے لیکن اسرائیل اور عرب ممالک میں قربت کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً تیل کی قیمتوں میں کمی، خلیجی ممالک میں حکومتوں کے خلاف بغاوت کا خطرہ اور امریکی حمایت کے خاتمے کا خوف۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس معاہدے کے ذریعے خطے میں شناخت اور قبولیت حاصل ہو گی اور دوسرے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کر سکیں گے۔

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو اسرائیل جدید اسلحہ اور حفاظتی سامان فروخت کرنے کی ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھتا ہے۔

خطے میں بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی ماحول اور کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل اسرائیل کو عرب ممالک کے قریب لا رہے ہیں۔

امریکہ کی سین ڈیاگو سٹیٹ یونیورسٹی میں مغربی ایشیا کے ماہر ڈاکٹر احمت کرو کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں مسلم ممالک پہلے سے کہیں زیادہ منقسم ہیں۔

بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’اسرائیل کے لیے مغربی ایشیا کے تین مسلم پاور بلاکس کے مابین تفریق کا فائدہ اٹھانے کا یہ اچھا موقع ہے۔ پہلا ترکی اور قطر، دوسرا ایران اور عراق اور تیسرا متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر۔ خاص طور پر مشرق وسطی میں قطر اور متحدہ عرب امارات کے درمیان نہ صرف سیاست بلکہ مذہب کی تشکیل کے معاملے میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ ہاتھ ملانے کی اسرائیل کی کوششیں تب ہی کامیاب ہونی چاہییں جب سعودی عرب اور مصر اس پر اپنی رضامندی ظاہر کریں۔

بنیامن تین یاہو

نتن یاہو کی خود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا خیال تھا اور انھوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کو الگ رکھتے ہوئے بھی عرب ممالک کے ساتھ امن معاہدے طے پا سکتے ہیں۔

اسرائیل کے سیاسی امور کی ماہر سونی اوونی کے مطابق وزیر اعظم نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر کے خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ عربوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں اسرائیل کی وزارت خارجہ کئی برسوں سے ڈیجیٹل آؤٹ ریچ مہم چلا رکھی ہے جس میں لاکھوں عام عرب شہری غیر رسمی طور پر اسرائیل سے جڑے ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی کوششیں

ان کوششوں میں سے ایک کی قیادت لنڈا مینوہین عبدالعزیز کر رہی ہیں جو 40 سال قبل عراق سے اسرائیل منتقل ہوئی تھیں۔

وہ وزارت خارجہ کے عربی زبان کے فیس بک پیج کے ذریعے عراق کے لاکھوں عرب نوجوانوں سے رابطے میں ہیں۔ انھوں نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ عرب ممالک کے رہنماؤں کے لیے ان کی مجبوری ہو سکتی ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں کھل کر بات نہ کریں لیکن عام عوام اسرائیل کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اب متحدہ عرب امارات کے نوجوان اپنی زندگی میں پہلی بار اسرائیل جا سکیں گے۔ اوونی کا کہنا ہے کہ جب دوریاں ختم ہو جائیں گی تو غلط فہمیاں اور گلے شکوے مٹ سکتے ہیں۔

لیکن سونی اوونی نیتن یاہو کو اس معاہدے اور عربوں کے ساتھ تعلقات بنانے کا سہرا نہیں دینا چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں ’اسرائیل میں اس وقت 13 ایسی تنظیمیں ہیں جن میں اسرائیلی اور فلسطینی عرب ممالک سے دوری ختم کرنے اسرائیلی حکومت سے ٹکر لینے اور خطے میں امن کے قیام کے لیے مل کر کام کرنے میں مصروف ہیں۔‘

اسرائیل متحدہ عرب امارات

امن کا گاؤں

یروشلم اور تل ابیب کے درمیان واقع پہاڑی پر اسرائیل کا ایک گاؤں ہے جس میں فلسطینی مسلمان اور اسرائیلی یہودی ایک دوسرے کے ساتھ امن اور محبت سے رہتے ہیں۔

اس گاؤں کا نام نیو شالوم وہت السلام ہے، جو ہیبرو اور عربی الفاظ سے مل کر بنا ہے اور جو اسرائیل میں عرب یہودی اتحاد کے لیے مشہور ہے۔

میں نے دو سال قبل اس گاؤں کا دورہ کیا تھا اور دونوں برادریوں سے ملاقات کی تھی۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ اس گاؤں میں دو مذاہب کے درمیان دنیا بھر میں کھڑی نفرت کی دیوار موجود ہی نہیں ہے۔

گذشتہ ماہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین امن معاہدے کے اعلان کے بعد گاؤں کی فلسطینی خاتون سمہ سلام سے دوبارہ رابطہ کیا کیونکہ میں ان سے جاننا چاہتا تھا کہ اس معاہدے پر ان کے گاؤں کے یہودیوں اور مسلمانوں کا کیا ردعمل ہے؟

ان کا جواب تھا کہ ’عرب اسرائیل اختلافات کئی دہائیوں پرانے ہیں۔ دونوں کے درمیان نفرت کی ایک موٹی دیوار کھڑی ہوئی ہے۔ ہم نے سنہ 1974 میں یہ گاؤں آباد کیا تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔اس گاؤں کا ہر شہری ’دو ریاستی حل‘ کے تحت اسرائیلی اور فلسطینی قوم کی تشکیل کا حامی ہے۔ امارات کے ساتھ معاہدہ اس کا حصول اور بھی ناممکن بنا دیتا ہے۔‘

سنہ 1948 سے جاری اسرائیل فلسطین تنازع کے ’دو ریاستی حل‘ کا مطلب یہ تھا کہ فلسطین ایک علیحدہ آزاد قوم اور اسرائیل الگ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے دونوں جانب بہت سارے مذاکرات ہوئے ہیں لیکن گذشتہ 10 برسوں سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

ٹرمپ

سمجھوتے کی شرائط

فلسطینی مسائل اور مسلم دنیا کا مقدس شہر مشرقی یروشلم (جو آزاد فلسطین کا حصہ ہو گا) پر اب تک عرب ممالک میں اتفاق رائے تھی اور ان ممالک نے اسرائیل کے سامنے ایک شرط رکھی تھی کہ جب تک وہ فلسطینیوں کو الگ ریاست بنانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں، تب تک وہ ان کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کریں گے۔

مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے باوجود عربوں کے درمیان یہ اتفاق رہا۔ لیکن اب متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اس معاہدے کو توڑتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔

صرف یہی نہیں اب یہ بات بھی عام ہو گئی ہے کہ سوڈان بھی خفیہ طور پر اسرائیل سے بات کر رہا ہے۔ لیکن سوڈان جو سمجھوتے کے نزدیک پہنچنے والا یہ ملک اب تھوڑا سا محتاط ہو گیا ہے۔

سوڈان کی عبوری حکومت اب یہ فیصلہ نہیں کر سکتی اور سنہ 2022 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔

سعودی عرب کی پالیسی کیا ہے؟

دوسری جانب عرب ممالک کا طاقتور ترین ملک والا سعودی عرب اسرائیل کے خلاف نرمی کا رویہ اپناتے نظر آ رہا ہے۔ اس نے اسرائیل متحدہ عرب امارات کے معاہدے کی مخالفت نہیں کی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی طیاروں کو سعودی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے کر سعودی عرب یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ آنے والے برسوں میں وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

لیکن سعودی عرب کی شرط شاید یہ ہے کہ اسرائیل پہلے فلسطینیوں کو ان کا حق دے پھر وہ بات کریں گے۔ دوسری جانب عمان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پہلے ہی بہتر ہیں اور اب بحرین بھی اسرائیل کے ساتھ ملنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔

اس سمت میں ہونے والی پیش رفت کا انحصار بھی اس بات پر ہو گا کہ امریکی انتخابات کون جیتے گا۔

سنہ 2017 میں جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے ان کی کوشش رہی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کریں تاکہ آخر کار اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین معاہدہ ہو اور مغربی ایشیا میں ہمیشہ کے لیے امن قائم ہو سکے۔