منتخب تحریریں

اصل بحث کچھ اور ہے

Share

لوگ فیصلے میں درج ایک پیرا گراف میں الجھ گئے جو فیصلہ بھی نہیں، ایک رائے ہے، بالکل ایسے ہی جیسے بری کر دینے کی رائے۔ یوں حاشیہ متن پر غالب آ گیا۔
آئین کا احترام اور ریاستی اداروں کا احترام، باہم متصادم تصورات نہیں ہیں۔ فردِ واحد کے کسی جرم کے لیے، کوئی ادارہ اِس وجہ سے جواب دہ نہیں ہے کہ مجرم کا تعلق کبھی ادارے سے تھا۔ عدالتی فیصلوں میں غداری کا مفہوم لغت سے نہیں، آئین کی طے کردہ تعریف سے متعین ہو گا۔ ان امور پر واضح بات کرنے کے بجائے، اہلِ دانش نے خلطِ مبحث پیدا کیا۔ اگر یہ دانستہ ہے تو قابلِ مذمت بھی ہے اور قابلِ افسوس بھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سب جنرل پرویز مشرف کی حمایت کے لیے کسی جواز کی تلاش میں تھے۔ فیصلے میں درج پیرا گراف نمبر 66 نے انہیں یہ جواز فراہم کر دیا۔ اب وہ مسلسل حاشیے کو متن بنانے کی کوشش میں ہیں۔
آئین کیوں ضروری ہے؟ یہ محترم کیوں ہے؟ یہ مضمون کسی نصاب کا حصہ بن سکا اور نہ کسی تربیتی عمل کا۔ یہی سبب ہے کہ معاشرے میں آئین کے لیے وہ حساسیت موجود نہیں، جو لازم تھا کہ پیدا ہوتی۔ آئین پسندی کے بغیر کسی جمہوری کلچر کا تصور کیا جا سکتا ہے‘ نہ ایک مہذب معاشرے کا۔ ہم نے نئی نسل کو یہ تو سکھایا ہے کہ بائیس کروڑ روپے کی کرپشن قابلِ نفرت جرم ہے لیکن یہ کبھی نہیں سکھایا کہ بائیس کروڑ عوام کے بنیادی حق کو چھیننا کتنا بڑا جرم ہے۔ دونوں جرائم ہیں مگر دونوں کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔
انسان کے تہذیبی سفر میں جو اہم ترین پڑاؤ آئے، ان میں ایک ‘عمرانی معاہدے‘ (Social Contract) کا تصور بھی ہے۔ مسلمانوں کو تو خیر پہلے ہی دن سے یہ سمجھا دیا گیا تھا، جب قرآن مجید نے ابدی ہدایت جاری کی کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات اب مشورے سے چلیں گے (سورہ شوریٰ)۔ ختمِ نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب خدائی پروانہ کسی کے پاس نہیں۔ اسی اصول پر خلیفۃ الرسول کا انتخاب ہوا اور دیگر خلفائے راشدین کا۔ یہاں تک کہ نظمِ سیاسی بالآخر خاندانی حکومت میں بدل گیا۔
یورپ نے سولہویں صدی میں اس راز کو پا لیا جب اسے بادشاہت، ملائیت اور جاگیرداری کے جبر کا سامنا ہوا۔ اس سے پہلے، مشرق و مغرب میں اقتدار کے لیے عوام کو حشرات الارض کی طرح مار دیا جاتا۔ ان کا استحصال ہوتا اور کسی کو اس پر ملال بھی نہ ہوتا۔ محاورے بنے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس بھی کچلی جاتی ہے۔ گویا عوام تو گھاس کی طرح ہیں۔ ان کا مقدر تو کچلا جانا ہی ہے۔ اس پس منظر میں انسانی جان، مال اور آبرو کی حرمت اور اس کی رائے کے احترام کا خیال پیدا ہوا‘ جس نے عمرانی معاہدے کے تصور کو جنم دیا۔ یوں یہ اصول مان لیا گیا کہ عوام کی رائے سے حکومتیں بنیں گی اور اجتماعی معاملات چلیں گے۔
یہ عصبیت کے اس تصور کی تشکیلِ نو تھی جس نے قبائلی معاشرت میں ایک مستحکم سیاسی نظم کی بنیاد رکھی تھی۔ عمرانی معاہدہ یا آئین دراصل اس اہم اصول کو بیان کرتا ہے کہ یہ قانون اور اقدار ہیں جن کی بنیاد پر سیاسی نظم قائم ہوں گے نہ کہ افراد یا گروہوں کی خواہش پر۔ اب کوئی فرد طاقت ور نہیں ہے، قانون زورآور ہے اور سب اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ ریاست کا استحکام، عوامی اعتماد سے قائم ہوتا ہے۔
اس تصور نے انسانی معاشرے کی کایا پلٹ دی۔ اس نے معاشروں کو امن اور انسانوں کو تحفظ دیا۔ یہ انسانیت کے لیے غیر معمولی تحفہ تھا۔ اسی سے عام آدمی کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حرمت کا تصور پیدا ہوا جو ہمیشہ طاقت وروں کے رحم و کرم پر تھا۔ ایک آئینی اور جمہوری معاشرے میں، اب کوئی بڑے سے بڑا آدمی یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ وہ عام آدمی کی عزت اور جان کی طرف ہاتھ بڑھائے۔
انسانی تاریخ میں یہ معمولی پیش رفت نہیں۔ یہ عالمِ انسانیت کو جنگل کے قانون سے نجات دلانا ہے۔ اس کی اہمیت وہی جان سکتا ہے جس نے ایک جاگیردارانہ معاشرے کا تجربہ کیا ہے یا جس نے بادشاہوں کی تاریخ پڑھی ہے۔ اگر کوئی اس صحافی کے انجام سے با خبر ہے، جسے ترکی میں ایک عرب ملک کے سفارت خانے میں، اختلاف کے جرم میں، ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا گیا تو وہ بھی جان سکتا ہے کہ بادشاہت کیا ہوتی ہے۔ آئین ہی اس نعرے کا منبع ہے کہ قانون کے سامنے کوئی طاقت ور نہیں۔
اُس معاشرے میں یہ نعرہ عملی حقیقت نہیں بن سکتا جو آئین کے بارے میں حساس نہ ہو۔ قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور جڑ نہیں پکڑ سکتا اگر آئین پسندی کو معاشرے میں بطور قدر مستحکم نہیں کیا جاتا۔ جب معاشرے اس بارے میں حساس ہو جاتے ہیں تو آئین شکنی کی سنگینی کو سمجھ جاتے ہیں۔ پھر وہ جانتے ہیں کہ آئین کیوں محترم ہے اور آئین شکنی کے لیے کیوں شدید ترین سزا تجویز کی گئی ہے۔
آئین شکنی کا مطلب بائیس کروڑ عوام کے سر سے تحفظ کی چادر کھینچ لینا ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ایک خاتون کے سر سے چادر اتاری جائے تو یہ کس سطح کا ظلم ہے لیکن ہم اس کو معمولی بات سمجھتے ہیں کہ کروڑوں عوام کے سر سے حفاظت کی چادر اتر جائے۔ اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا آئین، کیوں آئین شکنی کو ‘سنگین غداری‘ قرار دیتا ہے۔ جسے عرفِ عام میں غدار سمجھا جاتا ہے، وہ دشمن سے مل کر قوم پر تنی ہوئی حفاظت کی چادر اتارنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اگر کوئی خود ہی یہ اقدام کر دے تو بدیہی طور پر یہ بھی غداری ہی کہلائے گی۔
اسی طرح اگر کسی ادارے کا کوئی فرد آئین شکنی یا قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو ادارہ اس کے اس فعل کے لیے جواب دہ نہیں۔ اگر ایک بیوروکریٹ ملازمت کے دوران میں کسی قانون شکنی کا ارتکاب کرتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے لیے عدالت میں طلب کیا جاتا ہے تو اس پر بیوروکریٹس کے احتجاج کا کوئی اخلاقی جواز ہو گا‘ نہ قانونی۔
معاشرہ قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے، جتھہ بندی کی بنیاد پر نہیں۔ اگر وکیل، ڈاکٹر اور دوسرے سماجی و ریاستی ادارے اس اصول پر اپنے اپنے جتھے بنا لیں کہ انہیں اپنے رکن کی ہر آئین شکنی کی تا حیات تائید کرنی ہے تو اس کے بعد کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جذبات اور تعصبات کو بھی انصاف کے راستے میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ آج کے فیصلے پر نقد کرنے والے اس وقت کیوں خاموش رہے جب فکشن اور ‘سسلین مافیا‘ جیسے الفاظ عدالتی فیصلوں کا حصہ بنے؟
کسی محترم جج کی رائے سے اگر کسی کو اختلاف ہے تو شائستگی کے ساتھ اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی آڑ میں عدالت کے اصل فیصلے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار آئین شکنی کی سنگینی کو واضح کیا گیا ہے۔ بحث کا اصل موضوع یہی ہے۔ دانش وروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے اور عوام کو آئین کے باب میں حساس بنائیں۔ وہ بحث کو بنیادی دائرے سے نکلنے نہ دیں۔ نئی نسل کی تعلیم کریں جو کرپشن کی سنگینی سے تو واقف ہے‘ لیکن آئین شکنی کو کوئی جرم ہی نہیں سمجھتی۔
جو لوگ دینی اور اخلاقی حوالوں سے قوم کی رہنمائی فرماتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ لاش کی بے حرمتی درست نہیں ہے‘ ان سے درخواست ہے کہ وہ آئین کی بے حرمتی کے بارے میں بھی قوم کو اعتماد میں لیں کہ دین و اخلاق اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
اہلِ دانش قوم کو خلطِ مبحث سے نکالیں۔ وہ عوام کو بتائیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ آئین شکنی کو کیوں غداری کہا جاتا ہے؟ اور یہ بھی بتائیں کہ وہ سب لوگ ‘ جن کا تعلق چاہے کسی بھی شعبۂ حیات سے ہے‘ قانون اور آئین کی بالا دستی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں‘ پوری قوم کے لیے محترم ہیں ۔یہ بھی کہ معاشرے قانون اور آئین کی حکمرانی سے قائم رہتے ہیں۔