منتخب تحریریں

اللّٰہ وارث!

Share

(گزشتہ سے پیوستہ)

چنانچہ میں نے ای ایم سوسائٹی تک پہنچنے کے لیے نہر والی سڑک کا انتخاب کیا کہ وہ پُرسکون اور رواں سڑک ہے چنانچہ اس کے لیے ریڈیو اسٹیشن سے بائیں جانب ٹرن لے کر میں ڈیوس روڈپر آیا لیکن سرخ پھولوں والے چنار کے دور رویہ درختوں میں سے گزرتے ہوئے سامنے سے ایک کار جھومتی جھومتی آتی دکھائی دی میں نے غیر ارادی طور پر ہارن اور بریکوں پر پائوں رکھ دیا، بریکیں تو کام آگئیں مگر ہارن نے اس موقع پر بھی خاموش اختیار کئے رکھی وہ تو خدا کا شکر ہے کہ سامنے سے آنے والی کار کے ڈرائیور کو عین موقع پر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، مگریہ احساس قدرے لیٹ تھا جس کا خمیازہ ہم دونوں کو بہرحال بھگتنا پڑا۔ دوست نے ایک ہاتھ سے اپنا گھٹنا سہلاتے ہوئے اور اپنی ٹیڑھی گردن سیدھی کرتے ہوئے خشمگیں نظروں سے میری طرف دیکھا، میں نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس دفعہ میری بجائے اس نے کہا ’’ابھی پتا چل جائے گا؟‘‘

’’کیا پتا چل جائے گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’مطلب یہ کہ خطرے سے آگاہ ہونے کے بعد خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے ہارن بجانا بہت ضروری ہے‘‘۔

میں نے جواب دیا ’’تم ٹھیک کہتے ہو لیکن ہمارے ہاں کسی کو اس کی غلطی کا احساس دلانے کے لیے ہارن بجائیں تو وہ آگے سے دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ معاشی بزرجمہروں نے معاشی نظام میں وہ ہارن ہی فٹ نہیں ہونے دیا جو بدترین معاشی ناہمواری کے نتیجے میں جنم لینے والے ہولناک تصادم سے بچا سکے۔ حساس علاقوں میں ہارن بجانا ویسے ہی مداخلت فی الدین کے مترادف ہے۔ معاشرتی سیاستدانوں نے کانوں پر مفلر لپیٹے ہوئے ہیں اور ہارن کی تار بھی ڈِس کنیکٹ کی ہوئی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ہم جن المیوں سے گزر چکے ہیں وہ ہمارے لیے کافی بڑے المیے ہیں۔ یہ نظام اگر زیادہ دیر بغیر ہارن کے چلتے رہے تو ان کی تباہ کاریاں ایسی ہیں کہ جن کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ لوگوں کی زندگیوں اور اُن کے عقیدوں سے کھیلنا بہت بڑا جرم ہے، ایک نسل تو ہمارے اس جرم کا عذاب بھگت چکی ہے کم از کم آئندہ نسلوں کو اس عذاب سے بچا لو!‘‘

میں نے اس دوران کار ایک الیکٹریشن کی دکان پر روکی اور کہا ’’اس کا ہارن خراب ہے، ٹھیک کردو‘‘ اور اس کے بعد میں کچھ اس طرح مطمئن ہوگیا جسے میں نے اپنی کار کا ہارن نہیں، موجودہ نظام کا ہارن ٹھیک کروانے کی ہدایت کردی ہے۔