دنیابھرسے

انڈیا، چین سرحدی تنازع: مودی حکومت کے لیے ایران اچانک اتنا اہم کیوں ہو گیا؟

Share

ایران کا مطلب ہے آریائی سرزمین اور وہ خطہ جو اب انڈیا کہلاتا ہے، زمانہِ قدیم میں آریاورتا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

اسلامی ملک بننے سے پہلے ایران میں زرتشت مذہب کا بول بالا تھا لیکن اب یہاں پر چند ہی پارسی رہ گئے ہیں۔ اسلام کے عروج کے بعد وہاں کے کچھ پارسی نقل مکانی کر کے انڈیا چلے گئے جہاں اکثریت نے گجرات میں رہائش اختیار کی اور دیگر پارسیوں نے مغربی ممالک کا رخ کیا۔

ایران میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ایران کے بعد انڈیا میں شیعہ مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ اگر برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی تو ایران کے ساتھ پاکستان کی نہیں، انڈیا کی سرحد ہوتی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ آٹھ ستمبر کو انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایران کے دورے پر تھے، جہاں انھوں نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے ٹویٹ کی کہ انڈین وزیر خارجہ کے ساتھ مختلف معاملات پر مثبت بات چیت ہوئی ہے۔

اس سے قبل چھ ستمبر کو انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی ایران میں تھے اور انھوں نے ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی سے ملاقات کی۔

ان یکے بعد دیگرے دو ملاقاتوں پر لازمی طور پر سوال اٹھتا ہے کہ مودی حکومت کے دو اہم کابینہ کے وزیروں کا چار دن میں ایران کا دورہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟

ایک ہفتے میں دو وزرا کا دورہ

بہت سے ممالک میں انڈیا میں سفیر کی حیثیت سے کام کرنے والے راکیش سوڈ کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کے دو وزرا کی ایران میں چار دن کے اندر آمد کو دو طریقوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔

راکیش سود کہتے ہیں کہ راجناتھ سنگھ ماسکو سے واپسی پر تہران کے راستے آئے تھے اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر ماسکو روانگی سے قبل ایران گئے تھے اور دونوں انڈین فضائیہ کے طیاروں سے گئے۔ لہذا ماسکو سے نئی دہلی یا نئی دہلی سے براہ راست ماسکو جانا مقصود نہیں تھا۔

‘بیچ میں کہیں نہ کہیں رکنا ضروری ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے تہران کا انتخاب کیا۔ وہ دونوں تہران کے بجائے دبئی بھی جاسکتے تھے لیکن تہران کا انتخاب اس لیے معنی خیز ہے کیونکہ آج کل ایران انڈیا کے لیے بہت اہم ہے۔’

راکیش سوڈ کا کہنا ہے کہ ایران، چین، روس، پاکستان اور ترکی مشرق وسطی میں اکٹھے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور چین ایران اور پاکستان میں بہت سے بڑے منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔

ان کے مطابق روس بھی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے خلاف ایک اہم طاقت ہے اور وہاں پر روس کے ساتھ ساتھ چین، پاکستان ، ترکی اور ایران بھی تقریباً ایک ہی صفحے پر ہیں۔

دوسری طرف ایران کو انڈیا کی طرف سے زیادہ اچھی خبریں نہیں مل رہی ہیں۔ انڈیا ابھی تک ایران میں چابہار پروجیکٹ پر اترنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا مشرق وسطی کے اُن ممالک کے قریب جو امریکہ کے اتحادی ہیں جیسے مثال کے طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔

گذشتہ ماہ 26 اگست کو لندن میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے زیر اہتمام عاصمہ جہانگیر میموریل لیکچر میں پاکستان کی معروف دفاعی ماہر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ دنیا کا رخ موڑ رہا ہے اور پرانے نظام کے ساتھ ساتھ پرانے اتحاد بھی توڑے جارہے ہیں۔

عائشہ صدیقہ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کافی تغیر آیا ہے اور اس کا براہ راست اثر انڈیا پر پڑا ہے۔

عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ ‘یہاں تک کہ پاکستان نے امریکہ اور افغان طالبان مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا لیکن پاکستان کی طرف سے امریکہ کو ہونے والی تمام مالی امداد رک گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکی اتحاد میں شامل ہوگیا تاہم لوگوں نے کہا کہ پاکستان مالی مدد کی خاطر مجبوری میں شامل ہوا ہے۔’

لیکن آج اگر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ اب چین ہی پاکستان کے لیے ایسا آپشن ہے جس کی طرف وہ کسی بحران کی صورت رخ کرے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی حال میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل چین پر ہے۔

پاکستان

امریکہ، سعودی عرب اور انڈیا نے عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے نئے مساوات میں ایک ساتھ شمولیت اختیار کی ہے اور ایسی صورتحال میں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اب چین ، روس اور ایران کی صفوں میں شامل ہو گیا ہے۔

مشرق وسطی میں نئی ابھرتی ہوئی صورتحال

عائشہ صدیقہ نے اس یادگاری لیکچر میں کہا تھا کہ ایران اور پاکستان دونوں ہی چین کے بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ ہیں اور امید کر رہے ہیں وہ اس سے پورا فائدہ اٹھا سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ چین اور ایران کے مابین بھی کئی بڑے معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

لیکن کیا ایسا ہو سکے گا، اس کے جواب کے لیے ہم صرف انتظار ہی کر سکتے ہیں۔

عائشہ صدیقہ نے اپنے خطاب میں نکتہ اٹھایا کہ پاکستان میں دونوں فرقوں کے درمیان اختلافات جاری ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب بھی ایران اور پاکستان کی دوستی کو پسند نہیں کرے گا۔ اس صورت میں پاکستان ایران اور سعودی عرب کے مابین کیسے توازن برقرار رکھے گا؟

دوسری طرف انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا تہران کا دورہ پاکستان ، ایران ، روس ، چین اور ترکی کے ذریعہ بنائے گئے اتحادوں کے آئینے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

چین، ترکی اور پاکستان کے ساتھ انڈیا کے کبھی خاص مراسم نہیں رہے لیکن روس انڈیا کا دوست رہا ہے اور ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔

ایسی صورتحال میں انڈیا کی کوشش یہ ہے کہ ایران اور روس کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہونے دیں۔

اس وقت انڈیا کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ شمال میں لداخ کی سرحد پر انڈیا اور چین کی فوج آمنے سامنے ہے۔

لداخ

پھر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے بھی ایک بڑے تنازع نے جنم لیا جس کے بعد چین، پاکستان، ترکی اور حتیٰ کہ ایران نے بھی انڈیا کے اس قدم کی کھلے عام مخالفت کی۔

گو کہ روس نے انڈیا کی مخالفت نہیں کی لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر چین روس کے ساتھ مل کر پاکستان کو ساتھ اتحاد میں لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ انڈیا کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔

ایک طرف ایران اور چین کی قربت بڑھتی جارہی ہے ، دوسری طرف انڈیا اور ایران کا مشترکہ چابہار پروجیکٹ لٹکا ہوا ہے۔

مشرق وسطی کے ممالک میں صرف ایران اور ترکی ہی مسئلہ کشمیر پر نکلے تھے لیکن چین کے ساتھ جاری تناؤ میں انڈیا کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ دیگر ممالک کو اپنے ساتھ لائے۔

مشرق وسطی میں چین کا مقابلہ کرنا انڈیا کے لیے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

امریکن انٹرپرائز انسٹٹیوٹ کے چین گلوبل انویسٹمنٹ ٹریکر کے مطابق 2005 سے 2019 کے درمیان چین نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں 55 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسری طرف چین اپنے آس پاس کے بہت سارے ممالک میں بھی سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ

اگر ایران کی بات کریں، تو مشرق وسطی میں وہ ایک اہم کھلاڑی ہے اور وہاں انڈیا کا اثر و رسوخ مستقل کم ہورہا ہے اور معاملات چین کے حق میں مضبوطی سے ترقی کر رہے ہیں۔

چین ایران

چین اور ایران کے مابین جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے کچھ دن بعد ایران نے خود اکیلے ہی چابہار منصوبے کے لیے ریلوے لنک منتقل کرنے کا کام شروع کردیا جس میں پہلے انڈیا بھی شامل تھا۔

اس ریلوے لائن کو ایران کی چابہار بندرگاہ سے افغانستان کے صوبہ زرنج تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ایران چین کے ساتھ جس منصوبے کے بارے میں بات کر رہا ہے اس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔

گذشتہ سال نومبر میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے انڈیا کی خواتین صحافیوں کے ایک گروپ سے کہا تھا کہ فوری عالمی وجوہات یا سیاسی معاشی اتحاد سے انڈیا اور ایران کے مابین تعلقات نہیں توڑے جاسکتے ہیں۔

انڈیا نے ایران کے خلاف پابندیوں کے بارے میں آزادانہ مؤقف اپنایا ہے لیکن ہم اپنے دوستوں سے توقع نہیں کرتے ہیں کہ وہ بڑھ کر ساتھ دیں۔

انڈیا بھی ایران سے دوستی کے بارے میں طویل عرصے سے تذبذب کا شکار ہے۔ 1991 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا، دنیا نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

جب انڈیا نے امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے تو اس نے انڈیا کو ہمیشہ ایران کے قریب آنے سے روکا۔

عراق کے ساتھ جنگ کے بعد ایران اپنی فوج کو مضبوط بنانے میں مصروف تھا۔ تب سے ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے اور ایٹمی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہے۔

مگر امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ ایران جوہری طاقت بن جائے اور مشرق وسطی میں اپنا تسلط بڑھائے۔