منتخب تحریریں

ایک دن کورونا کے ساتھ!

Share

میں نے کورونا کے سیکرٹری کو فون کیا کہ میں ایک ٹی وی چینل کیلئے ان کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے جواب میں مجھے قہقہہ سنائی دیا اور یہ جواب بھی کہ سرکار میں خود کورونا عرض کر رہا ہوں۔ میں نے مودبانہ معذرت کی اور پوچھا کہ کب دولت خانے پر حاضر ہو جائوں۔ اس پر کورونا نے ایک اور قہقہہ لگایا اور کہا کہ جناب دنیا بھر کے فراعین کی طرح میرا کوئی ایک گھر نہیں، دنیا کے ہر ملک میں میری رہائش گاہیں ہیں۔ عرض کی کہ میں اتنا صاحبِ حیثیت نہیں ہوں، آپ لاہور میں کوئی جگہ بتا دیں، حاضر ہو جاتا ہوں۔ اس پر کورونا نے کہا، اوکے تم رائیونڈ آ جائو۔ رائیونڈ کے ایک عظیم الشان محل کے دروازے پر کورونا اپنے لباس شاہی میں میرے استقبال کیلئے کھڑا تھا۔ میں نے سر سے پائوں تک حفاظتی کٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ میری اس ہیبت کذائی پر ہنسا اور بولا، تمہیں اس کی ضرورت نہیں تھی، میں اپنے مہمان کو کیسے نقصان پہنچائوں گا۔ ویسے بھی تم ٹی وی کیلئے میرا انٹرویو کرنے آئے ہو۔ میں بیوقوف ہوں کہ مفت کی پبلسٹی ہاتھ سے جانے دوں؟ یہ کہتے ہوئے وہ میری طرف معانقے کیلئے بڑھا۔ میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا اور کہا کہ سرکارِ عالی! میں نے آپ کا معانقہ وصول کر لیا۔ آپ براہِ کرم چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھیں۔ یہ سن کر اس کا ماتھا شکن آلود ہو گیا مگر پھر کچھ دیر بعد وہ نارمل نظر آنے لگا۔ اسکے عالیشان ڈرائنگ روم میں جب اسکا ملازم میرے لئے چائے کی ٹرالی لیکر آیا تو اس بار کورونا نے خود اسے چائے سرو کرنے سے منع کرتے ہوئے ٹرالی واپس لیجانے کیلئے کہا اور مجھے مخاطب کرکے بولا ’’تم کبھی پاکستان سے باہر بھی گئے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’جی جاتا رہا ہوں‘‘ کہنے لگا ’’تم چند ملکوں میں گئے ہو گے، تم آنکھیں بند کرو، میں تمہیں ساری دنیا کی سیر کراتا ہوں‘‘ میں نے آنکھیں بند کیں اور اس کی ہدایت پر کھولیں تو اس نے پوچھا ’’بتائو یہ کون سا ملک ہے؟‘‘ میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں، ہر طرف عالیشان عمارتیں، نائب کلب، ریسٹورنٹ، بہترین شاپنگ مال، کشادہ سڑکیں، بڑے بینک، جوا خانے، اکا دکا چرچ اور بہت کچھ‘‘ کورونا نے پوچھا ’’شہر دیکھ لیا؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘ پوچھا اب بتائو یہ کون سا شہر ہے؟ میں نے کہا ’’یہ کوئی جادو نگری ہے۔ یہاں نہ کوئی انسان ہے، نہ چرند نہ پرند، مجھے خوف آ رہا ہے۔ مجھے یہاں سے لے چلو‘‘ اس پر اس نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور کہا ’’یہ نیویارک شہر ہے۔ دنیا کی سپر پاور امریکہ کا دارالحکومت ہے۔ چلو میں تمہیں تمہارے سب سے پسندیدہ ملک لے جاتا ہوں‘‘۔ آنکھیں کھولیں تو پھر ایک نئی جادو نگری، سب کچھ اپنی جگہ موجود ہے مگر شہر انسانوں سے خالی۔ اس شہر میں جابجا بہت خوبصورت مسجدیں نظر آ رہی ہیں مگر کوئی نمازی، نہ کہیں سے اذان کی آواز!‘‘ کورونا نے کہا ’’یہ تمہارا ترکی ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’خدا کیلئے مجھے فوراً یہاں سے لے جائو‘‘۔ پھر وہ مجھے ویٹیکن سٹی لے گیا۔ دنیا بھر کے مسیحیوں کا مقدس مقام ، مگر ویٹیکن کی آنکھیں ان کا رستہ دیکھتے دیکھتے پتھرا چکی تھیں۔ وہ مجھے مکہ اور مدینہ بھی لے گیا، یہ دونوں شہر بھی سنسان تھے، اس نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا ’’خانہ کعبہ میں کوئی طواف کرتا نظر آ رہا ہے؟‘‘ میں نے نم آلود آنکھوں سے اسے درخواست کی کہ وہ مجھے واپس پاکستان لے جائے، میری آنکھیں کچھ اور نہیں دیکھنا چاہ رہیں! وہ میرےہر ردِعمل پر ہنستا، اس نے اس بار بھی ہنستے ہوئے مجھے آنکھیں بند کرنے کا کہا اور واپس لاہور اپنے عالیشان محل میں لے گیا۔ میں ابھی صحیح طور بیٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا ’’سنا ہے تمہارے ہاں بہت سے ایسے پیر فقیر موجود ہیں جن کی ایک پھونک سے سارے امراض دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں۔ لوگ ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور خود کو خدا سمجھنے والے کی روحانی قوت سے مریدوں کی زبان ہی نہیں ان کے دل میں بھی جو خواہش موجود ہو وہ بھی ان ’’خدائوں‘‘ کی ایک نظر سے پوری ہو جاتی ہے‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہاں میں نے بھی سنا ہے‘‘ اس پر کورونا پھر شیطانی ہنسی ہنسا اور کہا ’’پھر سائنسدانوں کو کیوں تکلیف دیتے ہو، وہ بیچارے رات دن اپنی لیبارٹریوں میں کورونا کی ویکسین تلاش کرنے میں کھانا پینا بھولے ہوئے ہیں۔ ان پیروں فقیروں سے کہو کہ وہ اپنی ایک پھونک سے میرا خاتمہ کرکے دکھائیں‘‘۔ آخر میں اس نے ایک پیغام دینے سے پہلے اپنی اس ملاقات کا خوفناک ترین قہقہہ لگایا اور کہا ’’میں خود بھی ایک بہت بڑا پیر ہوں، تمہارے پیروں فقیروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے میں نے جہالت کے فروغ کے بہت سے ادارے کھولے ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں تم میرا اور مستقبل کی بلائوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔