جمالیات

برطانیہ میں ریکارڈ ہونے والا پہلا پشتو نغمہ اور مردانہ کپڑوں والی گلوکارہ

Share

پشتو زبان کا پہلا گانا ایک افغان خاتون گوہر جان نے سنہ 1902 میں برطانیہ میں ریکارڈ کرایا تھا اور اِس ریکارڈنگ کے لیے میوزک کمپنی گلوکارہ اور سازندوں کو برطانیہ لے کر گئی تھی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا مگر ابتدائی طور پر ریکارڈ کیے گئے پشتو گانوں کی ریکارڈنگز آج باآسانی دستیاب نہیں ہیں۔

پشتو موسیقی کے دلدادہ افراد اب بھی اِن ابتدائی نغموں کی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ بڑی تعداد میں نغمے ایسے ہیں جو اب تک منظر عام پر نہیں آ سکے ہیں۔

پشتو موسیقی کو میوزک ماہرین دو بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے حصے میں وہ نغمے شامل ہیں جنھیں سنہ 1960 سے پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا اور ان گانوں کی ریکارڈنگز نایاب ہیں اور شاید ہی کسی کے پاس محفوظ ہیں۔ دوسرے دور میں سنہ 1960 کے بعد ریکارڈ کیے گئے گانے ہیں جو نہ صرف کیسیٹس میں محفوظ ہیں بلکہ انھیں ڈیجیٹل طریقوں سے بھی محفوظ کر لیا گیا ہے۔

گوہر جان کے پہلے گانے کی سنہ 1902 میں ریکارڈنگ کے بعد سے سنہ 1960 تک کتنے گانے باقاعدہ ریکارڈ کیے گئے، اس کے کوئی سرکاری یا مصدقہ اعدوشمار تو موجود نہیں ہیں۔ مگر پشتو موسیقی پر کام کرنے والوں کا دعویٰ ہیں کہ ان کی تعداد لگ بھگ 12 ہزار رہی ہو گی۔

پشتو موسیقی کے چاہنے والے اب بھی اس دور میں ریکارڈ کیے گئے گانوں کی کھوج میں لگے ہیں اور انھیں محفوظ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

پشاور میں براڈ کاسٹر حاجی اسلم خان نے ان گانوں کی تلاش اور ان کی تحقیق کا کام تقریباً 16 برس پہلے شروع کیا تھا اور اُن کے مطابق وہ اس طرح کے بھولے بسرے ساڑھے چار ہزار گانوں کی ریکارڈنگز اب تک تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

انھوں نے ان پرانے پشتو گانوں پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’تیر ہیر آوازونہ‘ یعنی بھولی بسری آوازیں۔

پشاور سے کوئی 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں پبی میں اسلم خان نے اپنے مکان کا ایک کمرہ اپنے اس شوق کے لیے مختص کر رکھا ہے جہاں آلاتِ موسیقی اور بڑی تعداد میں ریکارڈ چینجر ڈسکس، کیسیٹس اور موسیقی سے متعلقہ دوسرا سامان رکھا ہوا ہے۔

پہلا پشتو گانا گرامو فون کمپنی نے ریکارڈ کیا تھا
،تصویر کا کیپشنپشتو زبان کا پہلا گانا ’ہز ماسٹرز وائس (ایچ ایم وی)، دی گرامو فون کمپنی‘ نے برطانیہ میں ریکارڈ کیا تھا

شوق کا کوئی مول نہیں

اسلم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے چچا کے پاس گرامو فون اور موسیقی کے دیگر آلات تھے اور اپنے چچا کو دیکھ کر انھیں بھی موسیقی کے کام میں دلچسپی ہوئی اور پھر وہ وہ ریڈیو پاکستان میں بطور اناونسر بھرتی ہو گئے۔

انھوں نے بتایا کہ سنہ 2000 میں انھوں نے ریڈیو پاکستان میں پشتو موسیقی کا پروگرام ’تیر ہیر آوازونہ‘ یعنی بھولی بسری آوازیں شروع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جس وقت یہ پروگرام شروع کیا گیا تو ریڈیو پاکستان پشاور کے آرکائیوز میں صرف 15 پرانے نغمے موجود تھے۔

اس کے بعد انھوں نے ریڈیو سے اعلان کیا کہ اگر کسی کے پاس پرانے نغمے موجود ہیں تو وہ انھیں ریڈیو پاکستان کو فراہم کریں اور یہ گانے بصدشکریہ ریڈیو پاکستان پشاور سے براڈ کاسٹ کیے جائیں گے۔

اسلم خان کہتے ہیں کہ اس کے بعد لوگ ان کے پاس پرانے نغموں کی ریکارڈنگز لانا شروع ہو گئے۔

انھوں نے ایک واقعہ بھی سنایا کہ چارسدہ سے ایک شخص ایک پرانا صندوق اُن کے پاس لایا اور بتایا کہ یہ صندوق اُن کی دادی کا ہے جو اب فوت ہو چکی ہے۔ ’اُس صندوق میں انتہائی خوبصورت پرانے گانوں کی ڈسکس بھری ہوئی تھیں جنھیں شاید کسی نے چھوا تک نہیں تھا، وہ گانے بالکل محفوظ پڑے تھے۔‘

اسلم خان کہتے ہیں کہ لوگوں کے تعاون اور اپنی محنت سے اب تک وہ ساڑھے چار ہزار پرانے گانے جمع کرنے میں کامیاب ہوئے جو کہ اب ریڈیو پاکستان کی لائبریری اور ان کی ذاتی کلیکشن میں محفوظ ہیں۔

گوہر جان

گوہر جان اور پشتو موسیقی کا پہلا ریکارڈڈ گانا

اسلم خان نے بتایا کہ اس کے بعد انھیں یہ تجسس ہوا کہ پشتو زبان کا پہلا نغمہ کب اور کس نے ریکارڈ کرایا تھا، تو انھوں نے اس بارے میں تحقیق کی اور معلوم ہوا کہ پہلا گانا ایک افغان خاتون گوہر جان نے لندن جا کر ریکارڈ کرایا تھا۔

اسلم خان کی تحقیق کے مطابق گوہر جان بنیادی طور پر رقاصہ تھیں۔ ’یہ گانا جب لندن میں ریکارڈ ہو کر افغانستان اور ہندوستان میں پہنچا تو ایک تہلکہ مچ گیا تھا اور لوگوں نے اسے بڑا پسند کیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ انگریز کمپنی نے اس وقت تک گرامو فون بھی چند ایک علاقوں میں پہنچا دیے تھے مگر یہ گرامو فون امیر کبیر لوگوں کے حجروں تک محدود تھے جہاں لوگ آتے تھے اور گانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

سنہ 1902 میں برصغیر کے بیشتر علاقوں میں بجلی نہیں تھی اس لیے یہ گرامو فون چابی سے چلتے تھے، ایک لیور گھمایا جاتا تھا جس سے گانا بجایا جاتا تھا اور اس گرامو فون کی پن یا سوئی بھی مہنگی ہوتی تھی جو چند گانوں کے بعد ختم ہو جاتی تھی، اس لیے لوگ یہ پن یا سوئی بڑی تعداد میں اپنے پاس رکھتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور متعدد پشتو گانے ریکارڈ ہوئے جس کے لیے گلوکاروں سازندوں اور موسیقاروں کو برطانیہ لے جایا جاتا تھا۔

اس کے بعد کولکتہ اور دہلی میں کمپنیاں قائم ہوئیں اور گلوکار پھر وہاں جا کر گانے ریکارڈ کراتے تھے اور ان کو لے جانے کے لیے ریکارڈنگ کمپنیوں کے ایجنٹ پشاور میں موجود ہوتے تھے۔

دلبر جان
،تصویر کا کیپشندلبر جان بلیلئی مردانہ لباس پہن پر محفلوں میں پشتو گانے گاتی تھیں

دلبر جان بلیلئی کون تھیں؟

اسلم خان نے بتایا کہ مردان میں ایک خاتون تھیں جس کا اصل نام تو دلبر جان تھا مگر وہ ’بلیلئی‘ کی عرفیت سے مشہور تھیں۔

’دلبر کی بڑی بہن خانم جان رقاصہ تھیں اور بہت خوبصورت تھیں۔ مردان کے ایک خان کا اُن پر دل آ گیا اور انھوں نے خانم جان سے شادی کر لی۔ یہ شادی زیادہ عرصہ نہیں چلی اور لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے علیحدگی ہو گئی تھی۔‘

’خانم جان اور دلبر جان پانچ بہنیں تھیں۔ دلبرجان عرف بلیلئی نے گانا گانا شروع کیا کیونکہ ان کی آواز بہت اچھی تھی۔ روایت کے مطابق انھوں نے مردانہ لباس پہن کر محفلوں میں گانا شروع کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔‘

اسلم خان کے مطابق کولمبیا نامی ایک میوزک کمپنی نے دلبرجان کے بہت سے گانے ریکارڈ کیے جنھیں عوام میں قبولِ عام ملا۔ ’کولمبیا کمپنی پھر دلبر جان کے گانوں سے جانی جاتی تھی اور کمپنی کے سٹوڈیو میں دلبر جان کی بڑی تصویریں آویزاں کی گئی تھیں۔‘

اسلم خان
،تصویر کا کیپشنمحمد اسلم خان اب تک چار ہزار پرانے پشتو گانوں کی ریکارڈنگز اکھٹی کر چکے ہیں

اسلم خان نے بتایا کہ انھوں نے ان گلوکاروں اور فنکاروں پر تحقیق کی کہ یہ لوگ کون تھے اور اس کے لیے انھوں نے دور دراز کے سفر کیے اور جہاں جہاں سے ان کے بارے میں معلومات ملتی تھیں وہ وہاں جا کر وہ معلومات حاصل کرتے تھے اور اس کے لیے وہ ان کے خاندان والوں سے ملے اور ان کی تصاویر اور آوازیں اکٹھی کی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ جو گلوکار یا موسیقار زندہ تھے وہ ان سے بذات خود جا کر ملے اور جن جن کا انتقال ہو چکا تھا وہ اُن کے بیٹوں، بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں سے ملے اور ابتدائی پشتو موسیقی کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ویسے تو گلوکاروں کی ایک بڑی تعداد تھی لیکن جو زیادہ مقبول ہوئے ان پر انھوں نے تحقیق کی اور ان کی کتاب میں ایسے 120 گلوکاروں کا تذکرہ ہے جن میں میر احمد استاد چارسدہ، صوبت، سبز علی خان، مظفر خان، چشتی چمن جان، مہرالنسا، صبرالنسا، عبداللہ جان، ارباب دلبر ، ولی اور دیگر انتہائی معروف گلوکار شامل ہیں۔