منتخب تحریریں

بطور نگران سی ایم نام کیسے آیا

Share

لاہور کے جمخانہ کلب میں میرے بال ذیشان سنوارتا ہے۔ سنوارتا ہے یا بگاڑتا یہ فیصلہ میں نہیں کر سکا لیکن میرے بالوں پہ قینچی اُسی کی چلتی ہے۔ یہ پچھلے الیکشن سے پہلے کی بات ہے، ذیشان کے ہاتھ چڑھا ہوا تھاکہ ایک فون آیا۔ منظر ملاحظہ ہو، میں کرسی پہ بیٹھا ہوں، ذیشان کی قینچی چل رہی ہے اور فون کرنے والا مجھ سے کہہ رہا ہے کہ تمہارا نام بطور نگران چیف منسٹر پنجاب دیاجا رہاہے اور کسی نے پوچھا تو انکار نہ کرنا۔ میرا نام تحریک انصاف کی طرف سے دیا جارہا تھا حالانکہ اُس وقت تک تحریک انصاف کے فرشتوں کو بھی اس بات کا پتا نہیں تھا۔ فون کس کا تھا اس بات کو رہنے دیجیے۔ کچھ باتیں پردہ داری کی ہوتی ہیں اور پردے میں ہی رہیں تو اچھی رہتی ہیں۔
داڑھی سے فارغ ہوا تو فون کال کے بارے میں سوچا اور اس نتیجے پہ پہنچا کہ نام تو آگیا ہے لیکن ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ اپنے رازوں کے بارے میں انسان خودہی بہتر جانتاہے۔ بہت سی چیزوں میں احتیاط برتتا ہوں مثلاً کھانے پینے میں‘ لیکن ایک بے احتیاطی جس سے کبھی نہیں رہاگیا وہ ٹیلی فون کی ہے۔ جو روزمرّہ کا فون ہے اُسی سے اِدھر اُدھر کالیں ہوجاتی ہیں۔ چند دوستوں نے بارہا سمجھایا کہ اِدھر اُدھر کی کالوں کیلئے علیحدہ فون رکھ لو لیکن ایسی احتیاط جس کی افادیت سے بخوبی آگاہ ہوں کبھی کر نہ سکا۔ شاید جولانیِ طبیعت اس کی وجہ ہے۔ ایک ہی فون سے کالم ڈکٹیٹ کراتا ہوں اور اسی فون سے اِدھر اُدھر کی کالیں ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے جو ایسے کاموں پہ مامور ہیں اُن کے پاس ایسی اِدھر اُدھر کی کالوں کا ریکارڈ رہتاہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ چیف منسٹری والا کام آگے چلنے کا نہیں۔ جہاں اور رکاوٹیں آسکتی تھیں اِدھر اُدھر کی کالوں نے بھی ضرور رکاوٹ بننا تھا۔
خیالات کے گھوڑوں کو البتہ روکا نہیں جا سکتا اور یہ خیال ذہن میں ضرور آیا کہ لاٹری تو نکلنی نہیں لیکن اگر کچھ لمحوں کیلئے چیف منسٹر بنتے تو کرتے کیا۔ حلف لیتے ہی صوبہ پنجاب میں پلاسٹک شاپروں پہ پابند ی لگ جاتی اور صوبے کی تمام ضلعی انتظامیہ کو تاکید ہوتی کہ شہروں میں سے گندگی کے ڈھیروں کو اُٹھایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی جن ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا گندا پانی لاہور کی نہر میں پھینکا جاتا ہے اُس بارے حکم ہوتا کہ جلو موڑ سے لے کر ٹھوکر نیاز بیگ تک کوئی گندا پانی نہر میں نہیں جائے گا۔ نہر کی صفائی کا بھی صحیح اہتمام ہوتا اور حکامِ لاہور کو حکم ہوتا کہ لاہور نہر میں پانی اتنا صاف ہو کہ تیرنے کے علاوہ اگر کوئی پیاس بھی بجھانا چاہے تو اُس سے بیمار نہ ہو۔
اُسی شام فیض پور انٹرچینج سے لے کر راوی روڈ تک سڑک کی مرمت پہ کام شروع ہونے کے آرڈر دے دئیے جاتے۔ سیکرٹری محکمہ ہائی ویز اور کمشنر لاہور کو تاکید ہوتی کہ روزانہ کھڑے ہو کے سڑک کی تعمیر کرائیں۔ سیکرٹری ہائی وے کو مزید کہا جاتا کہ نئی سڑک کی تعمیر تک روزانہ اُن کا دفتر فیض پور انٹرچینج پہ لگنا چاہیے۔ جو ناٹک لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے شہبازشریف مینار پاکستان کے سائے میں کیا کرتے تھے وہ ناٹک نہیں بلکہ حقیقت میں فیض پور انٹرچینج پہ لگایا جاتا۔
نگران مدت کیلئے بطور پنجاب انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر خان درانی کو لگایا جاتا۔ اس کیلئے ضابطے میں ترمیم بھی کرنا پڑتی تو کی جاتی۔ آئی جی پولیس سے کہا جاتا کہ ایک شام میں تمام فضول کی سکیورٹی سیاستدانوں اور دیگر زعماء سے واپس لی جائے۔ اِس حکم کا اطلاق جاتی امرا اور متفرق بیگمات پہ فوری طور پہ ہوتا۔ پہلی میٹنگ میں نگران آئی جی سے کہا جاتا کہ نگران دورانیہ میں پولیس کے تفریحی چھاپے فوری طور پہ بند ہونے چاہئیں۔ اُن سے کہا جاتا کہ وہ آرڈر آف دی ڈے ایشو کریں جو صوبے کے تمام تھانوں میں باآواز بلند پڑھا جائے کہ پولیس کا کام منہ سونگھنا اور نکاح ناموں کا مطالبہ کرنا نہیں ہے۔ یہ بھی تاکید ہوتی کہ منشیات کے دس بیس گرام والے جھوٹے پرچوں کی روایت فوری طور پہ بند ہونی چاہیے۔
محکمہ ایکسائز کے حوالے سے پنجاب میں وہ پالیسی اپنائی جاتی جو جام صادق علی نے صوبہ سندھ میں لاگو کی تھی اور جس کی وجہ سے عوام کیلئے بے حد آسانیاں پیدا ہوئیں۔ وہ آسانیاں جو آج بھی سند ھ میں موجود ہیں اور جن سے پنجاب محروم ہے۔ خصوصی آسانیوں کے زمرے میں جو درخواستیں بحوالہ اجرا محکمہ ایکسا ئز کے پاس پڑی ہیں انہیں فوری طورپہ منظور کیا جاتا۔ بڑے شہروں کے تمام بڑے ہوٹلوں کو تلقین کی جاتی کہ غیر ملکی مہمانوں اور سیاحوں کیلئے ضروری سہولتیں جو تمام مہذب ملکوں میں نارمل سمجھی جاتی ہیں مہیا کی جائیں‘ اور پھر سے تاکید ہوتی کہ پولیس فورس فضول کے تفریحی چھاپوں سے پرہیز برتے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی جاتی کہ فوری طور پہ تمام اضلاع کے سیشن ججوں کو جیلوں کے معائنوں کا حکم صادر کیا جائے۔ ڈی سی اوز ان کے ہمراہ ہوتے اور فوری طورپہ، on the spot، اُن قیدیوں کی رہائی کا اہتمام کیا جاتا جو وسائل نہ ہونے کی بناء پہ اپنی ضمانتیں کرانے سے قاصر ہوتے۔ چیف جسٹس صاحب سے یہ استدعا بھی کی جاتی کہ عدالتیں شام کو بھی لگیں تاکہ پرانے مقدمات نمٹائے جا سکیں۔ یہ فیصلہ کیا جاتا کہ تمام پولیس شہداء کے بچوں کی سرکاری خرچے پہ تعلیم کا انتظام صوبے کے بہترین سکولوں اور کالجوں میں کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے ایچی سن کالج ، لارنس کالج، برن ہال اور تمام نجی سکولوں میں ایک مقررہ فیصد کی سیٹیں پولیس شہداء کیلئے مختص کی جاتیں۔ یعنی کسی ضلع میں کوئی پولیس جوان یا افسر دوران ڈیوٹی مارا جاتا تو اُس کے بچوں کی تعلیم سرکار کے ذمے ہوتی۔
کمیونسٹ دور میں ماسکو میں جب کوئی روسی لیڈر سفر کرتا تو موٹر کیڈ صرف دوکاروں پہ مشتمل ہوتی۔ ایک وہ جس میں لیڈر خود بیٹھا ہوتا اور پیچھے اُس کی سکیورٹی کاعملہ۔ ماسکو کی سکیورٹی اتنی اعلیٰ تھی کہ نہ صرف لیڈر بلکہ عوام بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے۔ ایک بجے رات تک زیر زمین میٹرو چلتی اور اگر اکیلی لڑکی بھی ہوتی اپنی منزل تک بلا خوف و خطر پیدل جا سکتی تھی۔ ایسی صورتحال تو یہاں کبھی ہونی نہیں لیکن جو تماشے لیڈروں کی سکیورٹی کے نام پہ منعقد ہوتے ہیں انہیں تو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں کسی نے چیف منسٹر کیا بنانا تھا لیکن انہونی ہو جاتی تو موٹر کیڈ دو کاروں پہ ہی مشتمل ہوتی۔
اور یہ ضرور ہوتا کہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے پروفیسر ادیب الحسن رضوی سے درخواست کی جاتی کہ نگران دورانیے کیلئے پنجاب کی نظامت صحت کی ذمہ داری قبول کرتے۔ اور کچھ نہیں تو لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں کچھ بہتری آجاتی۔
ہفتے میں دو دن لاہور اوردوسرے بڑے شہر بند نہ ہوتے لیکن بڑی شاہراہوں پہ دو دِن موٹرکاروں کی انٹری بند ہوتی‘ یعنی لاہور کی فیروز پور روڈ، جیل روڈ، مال روڈ اور سرکلر روڈ کے ملحقہ علاقے موٹرکاروں سے خالی ہوتے۔ لاہور کے مال پہ جلسے جلوسوں پہ مکمل پابندی ہوتی۔ اور اگر اس حکم کی خلاف ورزی ہوتی تو ایس ایچ او سے لے کر ڈی آئی جی تک اپنے آپ کو فارغ سمجھتے۔ محکمہ جنگلات کو اس بات کا پابند کیا جاتا کہ صوبے میں کہیں بھی یوکلپٹس اور کونوکارپس کے درخت نہ لگائے جائیں۔ یہ بھی آرڈر ہوتا کہ جن شہروں میں ضلعی انتظامیہ نے کونوکارپس کے درخت لگائے ہیں انہیں فوری طور پہ اکھاڑ دیا جائے۔
لاہور میں چار جگہوں کے نام تبدیل کئے جاتے۔ لبرٹی چوک کو نور جہاں چوک کا نام دیا جاتا۔ شادمان چوک کا نام سردار بھگت سنگھ شہید رکھا جاتا۔ ریڈیو پاکستان سے سامنے گزرنے والی سڑک شاہراہ کندن لعل سہگل ہوتی اور جو سڑک چیئرنگ کراس سے مزنگ تک جاتی ہے اس کا نام سرگنگا رام روڈ ہوتا۔