دنیابھرسے

بھارتی شہریت قانون کی افغان صدر، بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے بھی مخالفت کردی

Share

نئی دہلی: بنگلہ دیش اور افغانستان نے بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کی مخالفت کردی جس میں دونوں ممالک سمیت پاکستان پر غیر مسلمان اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والے ممالک کا کہا ہے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھارتی اخبار دی ہندو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون جس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور 3 ممالک کے ہندو، سکھ، جین، بدھ مت، مسیحی اور پارسیوں کو شہریت دینے کا کہا ہے، اسے سب کے لیے ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے افغانستان کی اقلیتوں پر ظلم نہیں کیا، ہم حالت جنگ میں ہیں اور طویل عرصے سے ہمیں تنازعات کا سامنا ہے، افغانستان میں تمام مذاہب بشمول ہمارے 3 بڑے مذاہب مسلمان ہندو اور سکھ کے، سب نے مشکلات کا سامنا کیا ہے’۔

انہوں نے یہ بات دہلی کے دوران کے دوران اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں امید ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کے جذبات بھارت میں بھی نظر آئیں گے’۔

واضح رہے کہ حامد کرزئی کا نئی دہلی کے نظریے کے خلاف رائے دینا اہم ہے کیونکہ وہ دیگر کئی افغان رہنماؤں کی طرح بھارت کے قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں اور وہ 1976 کے بعد سے متعدد سال بھارت میں بھی گزار چکے ہیں جبکہ انہوں نے شملہ میں تعلیم بھی حاصل کی تھی۔

بھارتی حکومت کی خطے کی اتحادی بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے دبئی کے گلف نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کے نئے قانون پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ قانون ضروری نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ اس سے متعلقہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے حوالے سے اقدامات بھارت کے اندرونی معاملات ہیں اور اس سے ان کے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم این آر سی کا نفاذ بھارتی ریاست آسام میں کیا گیا تھا اور اسے پورے ملک میں لاگو کرنے کی پیشکش کی گئی ہے جس کے ذریعے مبینہ غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ پیش کیا گیا این آر سی کو مسلمان ‘دیمکوں’ کے خلاتمے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ابو ظہبی میں گلف نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارتی حکومت نے ایسا کیوں کیا، یہ ضروری نہیں تھا’۔

بنگلہ دیشی رہنما کی جانب سے متنازع قانون کے سامنے آنے کے بعد یہ پہلا بیان سامنے آیا۔

شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ ‘ان داخلی معاملہ ہے، بنگلہ دیش نے ہمیشہ مانا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی بھارت کا داخلی مسئلہ ہے، بھارتی حکوم نے بھی ہمیشہ یہی کہا ہے کہ یہ ان کا داخلہ معاملہ ہے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اکتوبر 2019 میں میرے نئی دہلی کے دورے کے دوران مجھے ذاتی حیثیت میں بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘تاہم بھارت کے اندر عوام کو کئی مشکلات کا سامنا ہے’۔

خیال رہے کہ بھارت میں گزشتہ ماہ بننے والے متنازع شہریت قانون کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی اس قانون کے خلاف مضبوط آواز بن کر سامنے آئی ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ ان کی ریاست میں یہ قانون ان کی لاش پر سے گزر کر ہی نافذ ہوگا۔

بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف طلبہ اورمسلمانوں سمیت ہزاروں شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔