منتخب تحریریں

تازہ تصویر اور فون ڈپلومیسی

Share

لندن سے تازہ تصویر آئی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف پارک لین/ آکسفورڈ سٹریٹ پر چہل قدمی کررہے ہیں۔ بارش تھم چکی ہے لیکن لندن کے موسم کا کیا اعتبار؛ چنانچہ ان کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز نے چھتری بند نہیں کی۔ بڑی سی چھتری دونوں، باپ بیٹے کو بارش سے محفوظ رکھنے کیلئے کافی ہے۔ کسی ایسے ہی موسم میں ہمارے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے والد صاحب نے کہا تھا؎
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
برسات کا موسم میاں صاحب کی دیرینہ کمزوری ہے۔ برف باری ہو تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ وہ اسلام آباد میں ہوتے، تو ایسے موسم میں مری کا رخ کیا کرتے۔ جدہ سمیت، پورے مکہ ریجن میں گزشتہ برسوں میں بارشیں عام ہوگئی ہیں لیکن ایک وقت تھا‘ برسوں گزر جاتے اور بادل بھولے سے بھی اِدھر کا رخ نہ کرتے؛ چنانچہ جدہ کی نئی بستیوں میں بھی برساتی نالوں کا کوئی تصور نہ تھا۔ ہم اکتوبر 1998 میں ملازمت کیلئے جدہ جارہے تھے، ہمارے سعودی ایڈیٹر انچیف لاہور آئے ہوئے تھے۔ ہم نے احتیاطاً گرم لباس کا پوچھا تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، اس کی کیا ضرورت؟ جدہ میں ایک ہی موسم ہوتا ہے، گرم، بہت گرم اور بہت ہی گرم۔ لیکن ہمیں مدینہ منورہ بھی تو جانا ہوگا؟ ہاں! مدینہ منورہ میں خنکی ہوتی ہے، اس کے لیے کوئی سویٹر، جرسی یا ہلکا ساکوٹ رکھ لیں۔
جدہ میں میاں صاحب برسات اور برفباری کو بہت Miss کیا کرتے۔ جاتی امرا میں دسمبر کی ایک ”شام‘‘ یاد آئی۔ نماز جمعہ (اور ظہرانے) کے بعد ہم نے رخصت چاہی تو میاں صاحب نے کہا، کوئی اہم تر مصروفیت نہ ہوتو مغرب کے بعد چلے آئو۔ ہم عشا سے کچھ پہلے پہنچ گئے۔ دھند اتر رہی تھی۔ میاں صاحب نے باہر لان میں بڑا سا خیمہ لگوایا ہوا تھا۔ عشائیے سے پہلے قہوہ کا دور چل رہا تھا۔ وہ جو ”جنگل میں منگل‘‘ والا محاورہ ہے، میاں صاحب نے جاتی امرا میں ہی ”برفباری‘‘ سے لطف اندوز ہونے کا سماں پیدا کرلیا تھا۔
لندن سے آنے والی میاں صاحب کی ہر تصویر، میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث مباحثے کا موضوع بن جاتی ہے۔ اس تازہ تصویر کے حوالے سے محترمہ عندلیب عباس کا کہنا تھا، نوازشریف کو باہر بھیجنے میں ہم دھوکہ کھا گئے۔
19نومبر 2019 کو میاں صاحب قطر سے آئی ایئر ایمبولینس میں لندن کیلئے روانہ ہوئے تو فواد چودھری کا ٹویٹ تھا، یہ کیسا مریض تھا جو دوڑتے ہوئے طیارے کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا؟ حالانکہ سب دنیا نے یہ منظر دیکھا، نوازشریف دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر طیارے میں نہیں گئے تھے بلکہ ایمبولفٹر کے ذریعے ایئر ایمبولینس میں داخل ہوئے تھے۔
دودن بعد جناب وزیر اعظم ایک تقریب میں فرما رہے تھے، میں نے نوازشریف کو بھاگ کر طیارے کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تو وہ میڈیکل رپورٹس نکلواکر دیکھنے لگا، جن کی بنا پر انہیں علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دی گئی تھی، ان کے مطابق یوں لگتا تھا کہ یہ علاج کیلئے فوری طور پر باہر نہ گئے تو کہیںاگلے جہان نہ چلے جائیں۔ اسی تقریب میں وزیر صحت پنجاب بھی موجود تھیں، جوسروسز ہسپتال لاہور میں زیر علاج میاں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے روزانہ میڈیا کو بریف کیا کرتی تھیں۔ پلیٹ لیٹس کے 2 ہزار تک گر جانے کی بات بھی انہوں نے ہی بتائی تھی۔ امراضِ خون کے عالمی شہرت یافتہ معالج طاہر شمسی کو بطور خاص کراچی سے بلایا گیا تھا۔ جناب وزیر اعظم نے شوکت خانم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر فیصل سلطان (آج کل وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت) سے بھی میاں صاحب کی بیماری کا کنفرم کیا اور ان سب کی متفقہ رائے پر مریض کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔
تقریب کے اختتام پر وزیر اعظم صاحب کے ریمارکس کے حوالے سے اخبار نویسوں کے استفسار پر وزیر صحت پنجاب کا جواب تھا: ان رپورٹس میں یہ کہاں لکھا تھاکہ مریض اپنے قدموں پر چل پھر نہیں سکتا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، اپنی اور اپنے رفقا کی پروفیشنل اوپینئن پر قائم تھیں۔ ایک مرحلے پر انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ وہ سیاستدان بعد میں، اور ڈاکٹر پہلے ہیں۔ کہا جاتا ہے، ڈاکٹروں کے حلف میں یہ عہد شامل ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم کے تعصب، عناد یا مفاد سے بالاتر ہوکر مریض کا علاج کریں گے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اپنے حلف پر، اپنے عہد پر قائم تھیں۔ کچھ عرصہ قبل، شہباز گل نے فرمایا تھا، میاں صاحب کا معائنہ کرنے والا میڈیکل بورڈ تو سرکاری لیکن میڈیکل رپورٹس تیار کرنے والی لیبارٹریاں پرائیویٹ تھیں۔ اس پر محترمہ یاسمین راشد پھر بروئے کار آئیں اورکہا، لیبارٹریاں بھی سرکاری تھیں اور ان میں کام کرنے والا عملہ بھی سرکاری تھا۔
یہاں ایک اور ڈاکٹر صاحبہ یاد آئیں، یادش بخیر فردوس عاشق اعوان صاحبہ بھی ڈاکٹر تھیں ۔ان دنوں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات تھیں۔ ایک بریفنگ میں بتایا، وزیر اعظم نے کابینہ کے ارکان سے رائے لی، باقاعدہ ”ووٹنگ‘‘ ہوئی اور اکثریت کی رائے کے مطابق نوازشریف کو باہر بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چند روز بعد وزیر اعظم نے فرمایا، کابینہ کی اکثریت مخالف تھی لیکن میں نے انسانی ہمدردی کی بنا پر اسے باہر بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ اخبار نویسوں نے معاونِ خصوصی سے اس ”کھلے تضاد‘‘ پر استفسار کیا تو ہنستے ہوئے کہا: Boss is always right۔ وزیراعظم‘ بعض وفاقی وزرا اور پارٹی ترجمانوں سے مختلف موقف پر اصرار کے باوجود ڈاکٹر یاسمین راشد آج بھی وزارت کے منصب پر فائز ہیں۔ اور Boss is always right والی ڈاکٹر صاحبہ کہاں ہیں؟
میاں صاحب لندن جانے کے بعد مختلف طبی ماہرین کے زیر معائنہ رہے۔ ہسپتال میں گاڑی سے اترتے ہوئے تصاویر بھی آتی رہیں۔ چہل قدمی اور ہوا خوری بھی علاج کا حصہ ہے۔ اس بار دل کی سرجری کچھ مشکل ہوگی کہ وہ دوبار پہلے بھی اس عمل سے گزر چکے اور چھ سات سٹنٹ بھی مختلف شریانوں میں موجود ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ تیسری سرجری کے موقع پر مریم بھی موجودہوں۔ پھر کورونا آ گیا۔ خاندانی ذرائع کاکہنا ہے کہ انہوں نے اب سرجری کا فیصلہ کرلیا ہے‘ اس کیلئے ڈاکٹروں کو امریکہ سے آنے والی رپورٹس کا انتظار ہے۔ سیاسی مخالفین کیلئے ایک اور بری خبر میاں صاحب کی ”فون ڈپلومیسی‘‘ ہے۔ 11اگست کو، مریم کی نیب میں پیشی کے موقع پر بھی وہ رابطے میں تھے۔ مریم کی پریس کانفرنس کو بھی ان کی تائید حاصل تھی۔ (مریم کی تمامتر سیاسی سرگرمی میں شہباز صاحب بھی آن بورڈ تھے)
ادھر حزب اختلاف کی تینوں جماعتوں میں اشتراکِ عمل کے لیے بھی نوازشریف سرگرم ہوگئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو شکایت مسلم لیگ کی پاکستان میں موجود قیادت سے تھی، جسے رفع کرنے اور آئندہ ”نیک چلنی‘‘ کی یقین دہانی کیلئے شہباز شریف اور احسن اقبال بھی مولانا سے ملاقات کرچکے۔ اب میاں صاحب نے بھی لندن سے مولانا کے ساتھ فون پررابطہ کیا ہے۔ میاں صاحب نے گزشتہ روز بلاول سے بھی رابطہ کیا اور آل پارٹیز کانفرنس کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے مسلم لیگ کی طرف سے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔ پیپلزپارٹی کے حوالے سے مولانا کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ اپنے تحفظات کے اظہار میں خود مولانا بھی بہت محتاط ہیں۔ 11اگست کی سہ پہر مریم نوازشریف کی گاڑی پر حملے اور مسلم لیگی کارکنوں پر تشدد کی ویڈیو ملتے ہی مولانا میڈیا سے گفتگو کررہے تھے کہ ایک اخبار نویس نے کہا ”مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے آپ کو جس طرح دھوکہ دیا‘‘ دھوکہ کے لفظ پر مولانا برہم ہوگئے اورکہا، ہم ایسے گئے گزرے بھی نہیں کہ اس لفظ کے پس پردہ مقصد کو نہ سمجھ سکیں۔ آپ کو الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کرنی چاہیے۔