منتخب تحریریں

جامعات میں قرآن کی تعلیم

Share

یہ فیصلہ انسانی نفسیات اور تعلیمی ضروریات سے بے خبری کی ایک نادر مثال ہے۔ گورنر پنجاب کے بقول، یہ جامعات کے وائس چانسلرز کا متفقہ فیصلہ ہے۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات، مگر میرے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ یہ فیصلہ تعلیمی عمل سے باخبر لوگوں کی کسی مجلس میں کیا گیا ہے۔
پہلے نفسیات۔ صدیوں سے یہ معلوم بات ہے کہ انسانی شخصیت کی تشکیل ابتدائی ماہ و سال میں ہو جاتی ہے۔ اس لیے، وہ تعلیم جس کا تعلق کردار سازی سے ہو، اس کا اہتمام ابتدائی مرحلے میں کیا جاتا ہے۔ آدابِ زندگی، عمر کے اس حصے میں سکھائے جاتے ہیں جب انسان کا دماغ ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ آپ جو چاہیں اس پر لکھ ڈالیں۔ ساری دنیا کا تعلیمی نظام انسانی نفسیات کے اس بنیادی اصول کے ادراک پرکھڑا ہے۔
پنجاب حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود رہے ہیں اور یقیناً اب بھی ہوں گے، جنہیں اس بات کا علم ہے۔ فروری 2017ء میں پنجاب کے وزیر تعلیم رانا مشہود احمد نے ابتدائی جماعتوں کے لیے قرآن مجید کی تعلیم کا ایک منصوبہ پیش کیا۔ 16 مئی2018ء کو حکومتِ پنجاب نے اس پر مبنی سرکاری حکم نامہ جاری کر دیا۔ اس کے مطابق، پہلے مرحلے میں، جماعت پنجم تک، ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا۔ جماعت ششم سے بارہویں جماعت تک قرآن مجید اس طرح ترجمے کے ساتھ پڑھایا جائے گا کہ بارہواں سال مکمل ہونے تک، قرآن مجید کا ترجمہ بھی مکمل ہو جائے گا۔
اس منصوبے میں بھی کچھ مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن فہمی کے عمل کا آغاز عربی زبان کی تدریس سے ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ناظرہ اور پھر ترجمہ۔ اس سے یہ امکان ہے کہ بارہویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے طالب علم میں یہ استعداد پیدا ہو جائے کہ وہ قرآن مجید کے متن کو براہ راست سمجھنے لگے۔ زبانیں سیکھنے کی سب سے اچھی عمر یہی ہوتی ہے۔ مادی زبان کے ساتھ دو زبانیں سیکھنا بچے کے لیے مشکل نہیں اگر تعلیمی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کیا جائے۔
لاہور میں ایک معروف پرائیویٹ سکول سسٹم میں یہ کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اس میں سماجی علوم اردو، ریاضی‘ سائنس‘ انگریزی اور قرآن مجید، عربی زبان کی تدریس کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ یوں بچے تین زبانیں سیکھ جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید بھی۔ اس سکول میں، پہلی جماعت سے آغاز کرنے والی ایک سے زیادہ جماعتیں اے لیولز کر چکیں۔ اس کے ساتھ اس سکول میں اخلاقیات کی عملی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ بچے کے اخلاق کی تربیت، شخصیت سازی کے مرحلے میں ہو جائے۔
سنجیدگی کا تقاضا تھا کہ اس درست آغاز کو بہتر بنایا جاتا اور اسلامی اخلاقیات کی بنیاد پر بچوں کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا۔ قرآن مجید ایک کتاب ہی نہیں، اخلاقیات کی سب سے بڑی درس گاہ بھی ہے۔ اس ادراک کے ساتھ اسے پڑھایا جائے تو اسلامیات کے عنوان سے کسی الگ مضمون کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ رہے عملی مسائل جیسے نماز کا اہتمام تو اس کو عملی تربیت اور تعلیمی ماحول کا حصہ بنا دیا جائے۔
ہمارے ہاں غیر مسلم طلبا کو اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں یہ خیال پنہاں ہے کہ مسلمان طالب علم کے لیے اسلامیات کی تعلیم کے بعد کسی اخلاقی تعلیم کی ضرورت نہیں۔ ہونا ایسا ہی چاہیے مگر کیا عملاً ایسا ہی ہے؟ میرا مشاہدہ اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ یہاں اسلامیات اس طرح پڑھائی جاتی ہے کہ اس کا انسانی اخلاق پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اسے ریاضی یا فزکس کی طرح ایک مضمون سمجھا جاتا ہے۔ اب جتنے اثرات ریاضی اور فزکس کے انسانی زندگی پر ہوتے ہیں، اتنے ہی اسلامیات کے بھی ہوتے ہیں۔
اسلامیات کی تعلیم میں ایک بڑا سقم یہ بھی ہے کہ اس میں بچے کی نفسیات کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر نویں جماعت میں سورہ انفال کا جو حصہ پڑھایا جا رہا ہے، وہ قرآن مجید کے سب سے مشکل مقامات میں سے ہے۔ کوئی اس کا اندازہ کرنا چاہے تو اردو کی کوئی دو اہم تفاسیر اٹھا کر دیکھ لے۔ جس بات کی تفہیم، آج تک خود مفسرین کے لیے، ایک مسئلہ ہے، نویں جماعت کے طالب علموں سے یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کی تفسیر بیان کریں۔
اس تبصرے کے ساتھ، یہ بات غنیمت ہے کہ پنجاب میں قرآن مجید کی تعلیم کا آغاز درست سمت میں کیا گیا تھا۔ یہ ادراک بہت اہم ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم کا صحیح مرحلہ ابتدائی تعلیم ہے۔ یہ پہلی اینٹ ہے۔ اگر یہ درست ہو تو دیوار کو درست کیا جا سکتا ہے۔
اب آئیے، تعلیمی ضروریات کی طرف۔ شخصیت سازی یا نظریاتی تعلیم، دنیا میں کہیں اعلیٰ تعلیم کے مقاصد میں شامل نہیں۔ جامعات اس مقصد کیلئے قائم نہیں ہوتیں۔ جامعات کا بنیادی وظیفہ علم کی تخلیق ہے‘ تحقیق و جستجو ہے۔ جامعات میں طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ کالج اور سکول میں انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے، اس کا اطلاق کریں اور اپنے میدانِ تخصص میں دادِ تحقیق دیں۔ یونیورسٹیاں اسلامسٹ یا کمیونسٹ پیدا کر نے کیلئے نہیں ہوتیں‘ نہ مذہبی لیڈر بنانے کیلئے۔
یونیورسٹی کی سطح پر علومِ قرآن پر تحقیق ہوتی ہے۔ یہ علم کی وسیع و عریض دنیا ہے جس میں صدیوں سے کام ہو رہا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ انہی کیلئے جو سماجی یا اسلامی علوم کے طلبا ہوں۔ فزکس یا کیمسٹری کے طالبعلموں کی دنیا اس سے الگ ہے۔ اس سطح پر قرآن مجید کی تعلیم کو لازمی قرار دینا اور وہ بھی اسلامیات کے مضمون کی موجودگی میں، ایک ایسا فیصلہ ہے جو تعلیمی نفسیات سے بے خبری کی دلیل ہے۔ کیا انسانی نفسیات اور اعلیٰ تعلیم کی ضروریات سے واقف لوگ، یہ فیصلہ کر سکتے ہیں؟ میں تو اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔
پنجاب میں حکومتی سطح پر گزشتہ چند دنوں میں بعض ایسے فیصلے ہوئے ‘ جن کا کوئی تعلق سماج کے حقیقی مسائل سے نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مقصود مذہبی گروہوں کی سیاسی حمایت کا حصول ہے۔ ہماری تاریخ یہ ہے کہ حکومتیں جب اصل مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو عوام کے مذہبی جذبات کو اپنی ڈھال بنا لیتی ہیں۔ کبھی شریعت بل، کوئی اسلامی قانون اور اس طرز کے دوسرے اقدامات۔ اس سے سب سے زیادہ نقصان خود مذہب کو پہنچتا ہے۔جب ہم لوگوں پر غیر ضروری وزن ڈالتے ہیں تو اس سے ایک ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ دعوتِ دین کی حکمت کے خلاف ہے کہ سماجی نفسیات سے صرفِ نظر کرکے دین بتایا جائے۔ بخاری کی ایک ورایت کے مطابق، حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے درخواست کی گئی کہ وہ روزانہ وعظ کیا کریں۔ وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور فرمایا کہ میں اسی طرح ناغہ کرکے تمہیں نصیحت کرتا ہوں جیسے رسول اللہﷺ ناغے کے ساتھ نصیحت فرمایا کرتے تھے تاکہ ہم بیزار نہ ہو جائیں۔
میں مسلمان طالب علم کے لیے قرآن مجید کی تعلیم ضروری سمجھتا ہوں لیکن صحیح محل پر اور اس حکمت کے ساتھ جو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کو سکھائی۔ قرآن مجید کوفزکس، کیمسٹری کی طرح ایک مضمون بنا دینا، طالب علموں کو اس سے بیزار کرنا ہے۔ قرآن مجید ابتدائی تعلیم کا لازماً حصہ ہو لیکن اعلیٰ تعلیم کی ضروریات کچھ اور ہیں۔حکومتوں کی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن جامعات کی وائس چانسلرز بھی اس پر متفق ہوں، یہ بات میرے لیے باعث حیرت ہے۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات، مگر میرا خیال ہے کہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے میری بات پر غور کریں گے تووہ پکار اٹھیں گے:
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی