کالم

حاجی شرف دین سے ملاقات۔۔ بعد از وفات

Share

شام کی سیر کے لیے محلے کے پارک میں گیا تو پارک کے ایک کونے میں پڑے بینچ پر بیٹھے حاجی شرف دین صاحب کو بیٹھا دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ یہ کیا ! حاجی شرف دین صاحب کا تو باقاعدہ انتقال ہو چکا تھا۔۔کوئی چھ ماہ قبل یہ میرے سامنے اچھے بھلے فوت ہوئے تھے اور آج یہ ادھرپارک میں موجود ہیں مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ مجھے ہکّا بکّا دیکھ کر حاجی صاحب نے کمال شفقت سے مجھے اپنے پاس بلایا،بالکل وہی شفقت جس کا مظاہرہ وہ اپنی زندگی میں بھی کیا کرتے تھے۔ میں ڈرتا کانپتا ان کی طرف بڑھا انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور میرے چہرے پہ لکھے سوال کو پڑھ کر کہا،”سب بتاتا ہوں،بیٹھ جاؤ“۔میرے جسم پر کپکپی طاری تھی۔ ”لیکن حاجی صاحب !آپ تو میرے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔۔اسی پارک میں ہم نے آپ کا جنازہ پڑھا تھا !!“ حاجی صاحب کے چہرے پر اُن کی وہی مخصوص مسکراہٹ نمودار ہوئی۔تجسّس،حیرت اور خوف سے میرا دم نکلا جارہا تھا۔کہنے لگے، ”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے اب یہ تو معلوم نہیں کہ میں واپس کیسے آیا ہوں البتہ میں اگر اتفاق سے واپس آیا ہوں اور آپ سے ملاقات بھی ہوگئی ہے تو پھر میں یہاں چند ایسے”مہربان“ احباب کا تذکرہ ضرور کروں گا جن کے ساتھ میرے انتقال کے سلسلے میں میرا پالا پڑا۔
اس ضمن میں سب سے پہلے میں ہمارے محلے کے ڈاکٹرنور دین صاحب کا ذکر کروں گا جنہوں نے میری موت کی تصدیق کی تھی ۔انہوں نے آپ لوگوں کو جب یہ خبر سنائی کہ میری موت واقع ہوچکی ہے میں اس وقت بالکل زندہ تھا۔میں اس وقت بے ہوش ضرور تھا لیکن ابھی مرا نہیں تھا بلکہ بعد میں بھی کوئی 20/25 منٹ تک زندہ رہا۔چنانچہ میری موت میرے خیال میں ہارٹ اٹیک سے نہیں بلکہ اس خوف سے واقع ہوئی تھی کہ میں اگر اب اپنی موت کے ڈیکلیئر ہونے کے بعد بھی نہیں مرتا تو پھر مجھے تدفین کے بعد قبر میں جا کر مرنا پڑے گا ۔ اس طرح زندہ درگور ہونے کے ہیبت ناک انجام کو سامنے دیکھ کر میرا سانس رکنا شروع ہوگیا۔ سچی بات ہے کہ مجھے قبر میں جا نے کے بعدموت واقع ہونے کے تصور سے بے پناہ خوف لاحق ہو گیا تھا۔ اور یہی خوف میری موت کی اصل وجہ بنا۔مجھے آج اپنے اس محلے کے کئی رفتگانِ خاک کی یاد آ رہی ہے جن کی موت کی تصدیق بھی انہی ڈاکٹر موصوف نے کی تھی ان میں میرے کچھ قریبی عزیز بھی شامل ہیں۔۔
ڈاکٹر نور دین کے بعد دوسرا بڑا ظلم میرے اوپر اُن صاحب نے کیا جنہوں نے مجھے غُسل دیا۔سچی بات ہے انہوں نے تو میرے ساتھ کوئی پرانا رنج مارا تھا۔ دسمبر کی ایک انتہائی سرد صبح مجھے غُسل دیا گیا اور اُن صاحب نے اس کام کے لیے ٹھنڈا یخ بستہ پانی استعمال کیا۔ میرے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ میں اپنا گیزر گرمیوں میں بھی کبھی بند نہیں کرتا تھا۔ جون جولائی میں گیزر قدرے Slow ضرور ہوجاتا تھا لیکن بند کبھی نہیں ہوا تھا۔ تواس روز گہری دھند میں لپٹی اس برفانی صبح میں جب میری میّت پر یخ ٹھنڈے پانی کا ڈونگا ڈالا گیا تو مجھے لگا کہ میری توجان نکل ہی جائے گی لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو پہلے ہی مر چکا ہوں۔دورانِ غُسل صرف میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے اپنی بتیسی کو بجنے سے کیسے روکا ۔سردی سے ٹھٹھرنا، کانپنا اور بتیسی بجانا وغیرہ موت کے ”پروٹوکول“ کے خلاف ہے اور” عام طور پر“ موت کے بعد انسان ایسی حرکا ت نہیں کرتا سو میں نے بھی یہی سوچ کراپنے آپ پر کنٹرول کیا ہوا تھا۔
دوسرے اس روز مجھے ایک اور بات نے بھی شدید حیران اور پریشان کیا ہوا تھا اور وہ یہ کہ اُس روز میری موت پر کچھ ایسے لوگ بھی رو رہے تھے جو دراصل میری زندگی پر بھی رویا کرتے تھے۔ زندگی بھر ان کا میرے ساتھ تاریخی حسد اور منافقت جاری رہا۔میری ہر کامیابی اور بہتری پر ان کے بلا جواز رونے دھونے اور طعن و تشنیع کی اطلاعات مجھے برابر ملتی رہتیں تھیں۔اور آج میری موت کا سُن کر یہ لوگ نا صرف تشریف لائے تھے بلکہ یہاں آنسو بھی بہا رہے تھے۔
جنازہ اُٹھا تو کئی لوگوں کی آنکھیں نم اور دل مغموم تھے۔باقی احباب کا تو علم نہیں لیکن میں یہاں ان دو احباب کا ذکر کرنا چاہوں گا جن کی دھاڈیں سچی اور بالکل بے ریا تھیں۔ یہ میرے دور پار کے وہ عزیز تھے جو گاؤں سے آئے تھے اور میرے جنازے کو کندھا دے بیٹھے تھے۔ قبرستان گھر سے کوئی ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا ایک دو لوگوں نے رائے دی تھی کہ جنازے کو کسی گاڑی میں رکھ لیتے ہیں۔یہ بڑا مناسب مشورہ تھا لیکن وہاں موجود کچھ جذباتی لوگوں نے آواز لگائی ”حاجی صاحب کو اپنے کندھوں پر قبرستان چھوڑ کے آئیں گے یہ ساتھ ہی تو ہے“۔ وہ مشورہ دینے والے تو دس بیس قدم ہی چلے ہوں گے۔۔۔اور پھر یہ میرے دیہاتی عزیز قابو آگئے۔ شروع میں کچھ اور لوگوں نے بھی ساتھ دیا لیکن جیسے ہی جنازہ بڑی سڑک پر آیا تو سب پیچھے ہٹ گئے۔ تو اُس روز اصل آنسوجن کے نکل رہے تھے وہ یہی دو مخلص، سادہ اور بیوقوف لوگ تھے جو اپنے تئیں حق قرابت داری نبھانے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال بیٹھے تھے۔ اور اب میری میّت ان کے لیے وہ کمبل بن گیا تھا جس کو یہ تو چھوڑنا چاہتے تھے لیکن کمبل انہیں نہیں چھوڑ رہا تھا۔ ان کی جو حالت ہو رہی تھی مجھے لگ رہا تھا کہ واپسی پر ایک دو میّتیں اور تیار ہو جائیں گی۔“۔۔یہ کہہ کر حاجی صاحب ایک زور دار اور گونجدار قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھے اور پارک سے نکل کر اس روڈ پر چل پڑے جو قبرستان کو جاتی ہے۔
شدید خوف مجھے گھیرے ہوئے تھا بلکہ اب اور بھی بڑھ گیا تھا۔مجھے لگا میری طبیعت سخت خراب ہو رہی ہے۔ اسی عالم میں تیز تیز چلتے ہوئے میں گھر کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں ایک جگہ لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ ایک محلے دار دوست نے سنبھالا دے کر گھر پہنچایا۔ بچوں نے دروازہ کھولا اور مجھے بستر پر لٹا دیا۔محلے دار دوست نے میری یہ حالت دیکھی تو تیزی سے باہر بھاگتے ہوئے بولا ”آپ تھوڑا آرام کریں میں ابھی ڈاکٹر نور دین کو لے کر آتا ہوں“۔ ڈاکٹر نور دین کا نام سننا تھا کہ میری زور دار چیخ نکلی اور میں نے سخت گھبراہٹ میں چلاتے ہوئے کہا،”کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے میں بالکل ٹھیک ہوں“۔ یہ کہتے ہوئے میں تیزی سے اُٹھا اور بھاگتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا۔حاجی شرف دین کا قہقہہ ایک بار پھر مجھے سنائی دے رہا تھا۔