منتخب تحریریں

خوش گمانی پر مبنی سازشی کہانیاں نہ پھیلائیں

Share

نئی سازشی کہانی مارکیٹ میں آگئی ہے۔پھیلایا اسے بھی بہت مہارت سے جارہا ہے۔ اسے بیان کرنے سے قبل اگرچہ یہ اصرار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری سوچی سمجھی رائے میں ’’ایہہ کمپنی‘‘ یعنی نئی سازشی کہانی ہرگز چل نہیں پائے گی۔بہرحال اسلام آباد کے طاقت ور ڈرائنگ روموں میں سرگوشیوں کے ذریعے کہانی اب یہ پھیلائی جارہی ہے کہ ’’مقتدر حلقوں‘‘ کو محض نواز شریف سے نجات حاصل کرنا ہی مقصود نہیں تھا۔ ’’مائنس ون‘‘ کی گیم نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو لانے کے لئے نہیں لگائی گئی تھی۔ شہباز شریف سمیت شریف خاندان کا کوئی ایک رکن بھی سیاسی اکھاڑے میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ شہباز شریف اسی باعث لندن سے وطن واپس نہیں لوٹ رہے۔ مریم نواز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔حمزہ شہباز شریف کی ضمانت نہیں ہوپارہی۔شریف خاندان کو پہلے یہ گماں تھا کہ وہ نواز شریف اور ان کی دُختر کو خاموش کرواکر شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے لئے اقتدار کے کھیل سے جڑے رہنے کی راہ نکال لیں گے۔ یہ مگر ہو نہیں پایا۔شریف خاندان کے پاس اپنے کاروبار کو بچانے کی واحدصورت یہ رہ گئی ہے کہ وہ ’’حقائق‘‘ کے سامنے سرنگوں کریں۔معافی تلافی کی راہ نکالیں اور بیرون ملک جاکر گمنامی میں ’’دہی کھائیں‘‘ دعویٰ یہ بھی ہورہاہے کہ شریف خاندان اس کے لئے آمادہ ہوچکا ہے۔فقط اعلان ہونا باقی ہے۔گزشتہ جمعہ یہ نئی کہانی حسنِ اتفاق سے اسلام آ باد کے ایک نہایت ہی ’’باخبر‘‘ تصور ہوتے ان صاحب نے سنائی جنہوں نے گزشتہ برس اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں مجھے 2019 ء کے ’’نومبر-دسمبر‘‘ میں ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کی نوید سنائی تھی۔میں رپورٹروں والے جھکی پن کے ساتھ ان سے کیوں اور کیسے والے سوالات کرتا رہا۔حیرانگی مگر اس وقت ہوئی جب ان صاحب سے گفتگو کے چند دن بعد نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے کئی سرکردہ رہ نمائوں نے بھی مجھے پارلیمان کی راہداریوں میں ہوئی ملاقاتوں میں ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کی ’’خبر‘‘ دینا شروع کردی۔مسلم لیگ (نون) کی خوش گمانی میں کسی حد تک سمجھ سکتا تھا۔مزید حیرانی اس وقت ہوئی جب پیپلز پارٹی کے بہت کائیاں تصور ہوتے ہوئے اراکینِ پارلیمان بھی ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کی کہانیاں سنانا شروع ہوگئے۔ شہباز شریف کی اس کی بدولت وزیر اعظم بننے کے امکانات سے پریشان ہوئے ایک صاحب کو بالآخر یہ اطلاع دیتے ہوئے میں تسلی دینے کو مجبور ہوگیا کہ آصف علی زرداری شہباز شریف کو کسی صورت ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کے ذریعے وزیر اعظم ہوتا نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ میری اس ضمن میں آصف علی زرداری سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔موصوف سے میری ون آن ون ملاقاتیں شاذہی ہوتی ہیں۔آصف علی زرداری کی سوچ کو لیکن میں جبلی طورپر جان لیتا ہوں۔فقط اپنے ذاتی تجزیہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہ نما کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔ بارہا اس کالم میں یاددلاتا رہا ہوں کہ محض 84اراکین قومی اسمبلی کی حمایت کے ساتھ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ 342اراکین پر مشتمل ایوان میں ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ لاسکے۔ میں ٹھوس اعدادوشمار کے ساتھ یہ سوال جب پاکستان مسلم لیگ نون کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘رہ نمائوں کے سامنے اٹھاتا تو وہ ’’ہماری سیاسی تاریخ‘‘ کے کئی واقعات یاد دلانا شروع کردیتے۔ ان واقعات کی بدولت جو دیکھنے کو ملا وہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وطنِ عزیز میں وہی ہوتا ہے جو منظورِ’’مقتدر حلقے‘‘ ہوتا ہے۔میری عاجزانہ رائے میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔1980ء کی دہائی میں مثال کے طورپر کئی بارکوشش ہوئی کہ مرحوم غلام مصطفیٰ جتوئی کو پیپلز پارٹی سے توڑ کر اقتدار میں Co-optکیا جائے۔ وہ 1988ء کا انتخاب اپنے آبائی حلقے سے ہار گئے تھے۔کوٹ ادو کی ایک نشست سے ضمنی انتخاب کے ذریعے انہیں قومی اسمبلی میں لایا گیا۔ حلف اٹھانے کے چند ہی دن بعد وہ قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے سربراہ بن گئے۔ان کی کاوشوں سے غلام اسحاق خان کو بطور صدر آئین کی آٹھویں ترمیم کے استعمال کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو گھر بھیجنے کی ہمت ہوئی۔ اس کے بعد 1990کے انتخابات ہوئے۔ ان کے ذریعے نمودار ہوئی قومی اسمبلی سے جتوئی مرحوم کو صدر غلام اسحاق خان اور اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ یکسوہوکر وزیر اعظم منتخب کروانا چاہ رہے تھے۔بازی مگر نواز شریف نے جیت لی۔مثالیں بے شمار ہیں۔ اختصار کی طلب ان سب کے تفصیلی ذکر کا موقعہ نہیں دے رہی۔حالیہ تاریخ سے فقط اتنا یاد دلاتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا کہ 12اکتوبر1999کی رات اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل مشرف نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔اسے Suspendیعنی معطل کیا گیا تھا۔معطلی کے اس فیصلے نے ان دنوں نواز شریف کے کئی پرانے ساتھیوں کو یہ امید دلائی کہ اگر وہ فارغ کئے وزیر اعظم سے لاتعلقی کا اعلان کرنا شروع کردیں تو شاید قومی اسمبلی ’’بحال‘‘ کردی جائے گی۔ (ق)کے لاحقے والی مسلم لیگ اسی سوچ کے تحت اُبھری تھی۔لاہور کے میاں اظہر اس کے قائد ہوئے۔گماں یہ تھا کہ وہ ’’چل پڑے‘‘ تو قومی اسمبلی بحال کردی جائے گی۔ان کی صورت میں ’’لاہورہی سے ‘‘ ایک اور وزیر اعظم منتخب ہوجائے گا۔یہ گیم بھی لیکن بالآخر لگ نہیں پائی تھی۔مسلم لیگ (ق) کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے 2002کے انتخاب کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ میاں اظہر اس ا نتخاب میں اپنے شہر لاہور کی قومی اسمبلی کی ایک نشست سے ہار گئے تھے۔ ’’ق‘‘ کو گجرات کے چودھریوں کے سپرد کرنا پڑا۔انہوں نے وفاق ظفر اللہ جمالی کے حوالے کرکے چودھری پرویز الٰہی کے لئے پنجاب حاصل کرلیا اور پانچ برس تک پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب بڑے صوبے پر راج کیا۔نئی سازشی کہانی کی طرف لوٹتے ہیں۔اسے بیان کرتے ہوئے بتایا یہ جارہا ہے کہ 2018کے بعد نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ میں توقع کے مطابق ’’فارورڈ بلاک‘‘ نہیں بنے۔اس کا ووٹ بینک پوری توانائی کے ساتھ کم از کم وسطی پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں Intactرہا۔اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے سیاسی Gamesلگانے والوں نے ضروری سمجھا کہ شہباز شریف کو Engage رکھا جائے۔ شہباز صاحب نے بھی Engageرکھنے والوں کو مایوس نہیں کیا۔اپنی جماعت کو ’’انقلابی‘‘ نہ ہونے دیا۔بالآخر نیک چال چلن دکھاتے ہوئے اپنے بڑے بھائی کو خرابی صحت کی بنیاد پر جیل سے رہا کروانے کا بندوبست کیا اور انہیں ہمراہ لے کر لندن روانہ ہوگئے۔امید تھی کہ نواز شریف صاحب کی دیکھ بھال کے لئے مریم نوازلندن پہنچ گئیں تو شہباز شریف وطن واپس لوٹ آئیں گے۔میں نے اس کہانی پر بھی کبھی اعتبار نہیں کیا۔اصرار کیا کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی سے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ’’برادرِ یوسف‘‘ بننے کو کبھی تیار نہیں ہوں گے۔وہ ’’برادرِ یوسف‘‘ نہ بنے تو ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ والی گیم بھی لگ نہیں پائے گی۔آخری خبریں آنے تک شہبازشریف ’’برادرِ یوسف‘‘ ہونے کو تیار نہیں ہوئے ہیں۔اسی باعث تازہ سازشی کہانی یہ آئی ہے کہ مسلم لیگ نون کو ’’قابو‘‘ میں رکھنے کے لئے اب شہباز شریف کی ’’ضرورت‘‘ نہیں رہی۔شاہد خاقان عباسی اور راناثناء اللہ اس جماعت کے ’’جی دار‘‘ رہ نمائوں کی صورت نمودار ہورہے ہیں۔ ان دونوں نے بہت استقامت سے جیل کی ان بیرکوں میں کئی ماہ گزارے جو پھانسی کی سزا پانے والے قیدیوں کے لئے مختص ہوتی ہیں۔ مسلم لیگ کا ’’ووٹ بینک‘‘ بہت فخر سے اب ان دونوں کی جانب دیکھ رہا ہے۔مستقبل کے ’’معاملات‘‘ اب اِن دونوں ہی سے طے ہوں گے۔نئی سازشی کہانی پہلی بار سنیں تو انتہائی قابل اعتبار نظر آتی ہے۔مصیبت مگر یہ ہے کہ اسے گھڑنے اور پھیلانے والے شاہد خاقان عباسی کو ہرگز نہیں جانتے۔ موصوف کے خلاف جس انداز میں کیس بنایا گیا اس کے بارے میں وہ بہت Bitterمحسوس کرتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ سوچنے کو مگر مجبور ہوں کہ عالم ان کا بھی شاہد خاقان عباسی جیسا ہی ہوگا۔ یہ دونوں ’’معاملہ فہمی‘‘ کے نام پر اتنی لچک بھی دکھانے کو تیار نہیں ہوں گے جو تمام ترتلخیوں کے باوجود نواز شریف ابھی تک دکھانے کو آمادہ ہیں۔نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کو لہذا ان دونوں کے ’’حوالے‘‘ کرنا میری دانست میں ایک Riskyسودا ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ یا نئے انتخابات کی فضا نہیں بن رہی۔ IMFسے ایک ڈیل ہوچکی ہے۔اس کا اطلاق ستمبر2022میں تکمیل تک پہنچے گا۔اس کے علاوہ افغانستان میں امریکہ کا طالبان سے ہوا سمجھوتہ بھی ہے۔امریکی افواج اس ملک سے آئندہ14مہینوں میں باہر نکلنے کو تیار ہیں۔اس سمجھوتے کی تکمیل تک پاکستان میں ’’سیاسی عدم استحکام‘‘ عالمی طاقتوں کو گوارہ نہیں۔خوش گمانی پر مبنی سازشی کہانیاں گھڑنے اور پھیلانے سے لہٰذا گریز کریں۔