منتخب تحریریں

زندگی کی ایک ادنیٰ قسم!

Share

کبھی کبھی اس طرح زندگی گزارنے کو بہت ہی جی چاہتا ہے کہ گھر میں مین گیٹ پر جب میری گاڑی پہنچے تو تین چار نوکر ہانپتے کانپتے آئیں اور گیٹ کھولنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں، دبیز قالینوں پر پائوں دھرتا ہوا جب ڈرائنگ روم میں پہنچوں تو بٹلر نے میز پر کھانا سجایا ہوا اور شیف سفید لمبوتری ٹوپی پہنے کھانے کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے ارد گرد موجود ہوں۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے امپورٹ کیے گئے سامان آسائش سے مزین بیڈ روم کے آخری سرے پر بچھے واٹر بیڈ پر لیٹوں تو مجھے یوں لگے جیسے کوئی سوئمنگ پول کے فلوٹنگ رافٹ میں آنکھیں بند کیے لیٹا ہچکولے لے رہا ہو۔ صبح ناشتے کی میز پر اخبارات کی سمری میرے سامنے دھری ہو جس میں مختصر طور پر قومی و بین الاقوامی صورتحال سے متعلق خبریں درج ہوں۔ نیز یہ بتایا گیا ہو کہ اہم اخبارات نے کس موضوع پر اداریہ لکھا ہے، کس اہم کالم نگار کے کالم کا نچوڑ کیا ہے، اسٹاک ایکسچینج کی کیا صورتحال ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو۔ ملاقات کیلئے طے شدہ ٹائم پورا ہونے پر سیکرٹری کمرے میں داخل ہو اور جھک کر کہے ’’سر آپ کا اگلا پروگرام یہ ہے‘‘ جس پر وہ ملاقاتی اشارہ سمجھ کر رخصت ہو اور دوسرا ملاقاتی حالتِ رکوع میں اندر داخل ہو۔ ہفتے میں ایک آدھ دن میں پارٹی کا اہتمام ہو جس میں دوست (اور دشمن) ملکوں کے سفیر، اعلیٰ فوجی افسران اور سیاستدان شریک ہوں، اس پارٹی کے لئے صرف ممیاہت کے انداز میں حکم دینا پڑے کہ فلاں دن اس کا اہتمام کیا جائے۔ سیکرٹری آ کر اطلاع دے کہ سر آپ فلاں تاریخ کو ہولی ڈے پر تین مہینے کے لئے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ ٹکٹ اور ہوٹلوں کی بکنگ ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں کوئی خصوصی ہدایات جاری فرمانا چاہیں تو حکم دیں اور اسی طرح کی زندگی گزارنے کے باقی لوازمات مجھے میسر ہوں تاکہ جو زندگی میں اب گزار رہا ہوں اس سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ ان دنوں صبح سویرے جب نہانے کیلئے باتھ روم میں داخل ہوتا ہوں اور خاصے خوشگوار موڈ میں خاصی خوشگوار آواز میں کوئی گانا گنگناتے ہوئے چہرے پر صابن ملتا ہوں تو نلکے میں پانی آنا بند ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر بعد آنکھوں میں صابن جانا شروع ہو جاتا ہے۔ بجلی، گیس اور پانی کا بل جمع کرانے کیلئے لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گرد و غبار سے اٹی فضائوں میں سے گزر کر چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے دفتروں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ معمولی معمولی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے دو دو سال کی کمیٹی ڈالنا پڑتی ہے، بیمار پڑنے پر بھاری فیسوں کا خیال بیماری کی شدت میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے مسائل اس متوسط طبقے کے ہیں جس سے میں تعلق رکھتا ہوں جبکہ عوام ’’کا لانعام‘‘ کیلئے تو سانس لینا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ میں جس طبقے سے پھسل کر جس طبقے کی طرف جانا چاہتا ہوں اس کے بارے میں ایک بات میں نے سوچی ہی نہیں تھی اور وہ یہ کہ ان تمام آسائشوں اور پروٹوکول میں جو میں نے کالم کے شروع میں بیان کیں، وہ سب کچھ موجود ہے جس کی میں نے خواہش کی ہے لیکن اس میں میری فیملی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس طبقے میں داخل ہونے کے بعد ایک بیٹا امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے، دوسرا آسٹریلیا میں ہوتا ہے، بیٹی لندن میں ہوتی ہے اور بیوی فوٹوگرافروں میں گھری سماجی خدمات میں مشغول دکھائی دیتی ہے۔ اس طبقے میں دوست نہیں ہوتے، مصاحب ہوتے ہیں یا باس۔ رات کو واٹر بیڈ پر ہچکولے کھانے کے باوجود وہ نیند میسر نہیں ہوتی جو دن بھر کی مشقت کے بعد سر کے نیچے بازو کو سرہانا بنا کر میسر ہوتی ہے۔ شیف اور بٹلر، ڈائننگ روم کی زیبائش اور کراکری کا سامان بھی معدے کو اس قابل نہیں بناتا کہ دنیا جہاں کی نعمتیں اس کے لئے قابلِ قبول ہو سکیں۔ مرنے پر جنازے میں لوگ شامل ہوتے ہیں مگر رونے والا کوئی نہیں ہوتا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ میں مقیم بچے فون پر ممی سے تعزیت کرتے ہیں اور پھر چند دنوں بعد وطن واپس آ کر جائیداد کے مسئلے حل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

یہ سب باتیں بھی اپنی جگہ درست ہیں لیکن کوئی بات تو ہے کہ روبوٹ جیسی زندگی گزارنے کے لئے لوگ بھرپور انسانی زندگیاں قربان کردیتے ہیں۔ انسانوں پر ظلم کرتے ہیں، ملک اور قوم کے مفادات سے غداری کرتے ہیں اور اس کے عوض وہ ایک وسیع و عریض کیپسول میں زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ خواہشوں کے کیپسول میں بند اور روبوٹ کی طرح زندگی بسر کرنے والا کوئی بڑا آدمی میری یہ الجھن حل کرے کہ انسانی جذبوں سے عاری ہونے کے بعد اسے انسان کیسے لگنے لگتے ہیں اور وہ دھرتی کیسی لگتی ہے جہاں انہوں نے غیرانسانی جزیرے قائم کر رکھے ہیں۔ (قندِ مکرر)