کالم

ستارے دیکھتے رہنا

Share

شاعری کی روایت کم وبیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی انسان کے الفاظ کوذریعہ اظہاربنانے کی تاریخ ہے،تین،چارہزارسال پہلے کی بہت ساری شاعری توابھی تک کتابوں میں محفوظ ہے۔شاعرزمین کے ہرخطے،نسل،رنگ وقوم اورمذہب کے لوگوں میں پیداہوئے ہیں اورہوتے رہیں گے۔اس بابت میرانظریہ یہ ہے بڑاشعرکوئی صوفی منش اوردرویش صفت شاعر ہی کہہ سکتاہے۔اس کویوں بھی کہناچاہوں گاکہ ہمیشہ زندہ رہنے والے اشعاراورسدابہارشاعری درویشانہ مزاج کے حامل سخن وروں کوہی ودیعت ہوتی ہے۔ایسی ہی شاعری کی ایک کتاب میرے ایک سخن فہم دوست نے مجھے دی۔شیکسپئرنے توکہاتھاکہ نام میں کیارکھاہے مگرمیں اس بات کاقائل نہیں ہوں۔نام عنوان سے بہت سی باتیں اوربھیدکھل جاتے ہیں۔کتاب کانام ہے ”ستارے دیکھتے رہنا“اورشاعرہیں انجینئرظفرمحی الدین۔ اس شعری مجموعے میں مجھے صوفیانہ رنگ چھلکتاہوانظرآتا ہے۔اس کی ایک وجہ شائدان کی خاندانی تربیت اوربچپن کاماحول بھی ہوسکتی ہے،جس فضامیں ان کی پرورش ہوئی،وہ ایک طرف تو شعروسخن کے لئے سازگارتھی دوسرا تصوف سے ان کے گھرانے کاگہرالگاؤہے۔اب تک ان کے شائع ہونے والے پانچوں شعری مجموعوں میں عشق مجازی کی بات کرتے ہوئے بھی عشق حقیقی کی جھلک جگہ جگہ ملتی ہے۔ان کے ابتدائی شعری مجموعے”کن داجوگی“اور”بھانبھڑوچ سریر“پنجابی زبان میں شائع ہوئے،بعدمیں تین اردوشعری مجموعوں کی اشاعت ہوئی ”درویش“دیوان ظفرمحی الدین“اور”عشق“شائع ہوئے،زبان کے تنوع کے باوجودان کی شاعری کابنیادی جوہروہی رہا،جیساکہ ان شعری مجموعوں کے نام سے ظاہرہوتاہے۔”ستارے دیکھتے رہنا“انجینئرظفرمحی الدین کاچھٹاشعری مجموعہ ہے اوراس مجموعے میں شامل شاعری اپنے عنوان کی طرح نرم ونازک جذبات سے مزین ہے۔عشق میں ڈوبی نظرآتی ہے۔ایسی شاعری جسے پڑھ کرسچل سرمست کا یہ شعریادآتاہے۔
؎ عشق جنہاں دے اندروڑیا
نظرتنہاں نوں آیا ہے
حمدونعت سے آغازاورپھرمولاعلی کرم اللہ وجہہ کی خوبصورت منقبت کے بعد مرشدکے حضورہدیہ تبریک ہماری شعری روایت سے شاعرکی آگہی اور اس سے جڑت کا پتہ دیتی ہے،عشق کی واردات سے انسان کی رنگت،رنگ،قبیلہ بدل جاتاہے،نہ کسی سے دشمنی نہ کسی سے بیر۔بس پیارہی پیاراورخلوص رواں دواں رہتا ہے۔یہی فلسفہئ عشق انجینئرظفر محی الدین کاشعری نظریہ ہے جو ان کے تازہ شعری مجموعے میں آپ کو نظرآئے گا۔ان کے نزدیک بے جان لفظوں کے اندر اپنے جذبات کی روح پھونکنے کا عمل شاعری ہے،جوکہ خواب دیکھنے جیساعمل ہے۔خوبصورت،دلفریب اورحیرت انگیز۔ان دیکھی دنیاؤں کاسفر،نئے جہانوں کی تلاش اور اپنے اندرکی کھوج۔من میں بسی مسلسل جستجوکاشعری بیان اس وقت ”ستارے دیکھتے رہنا“کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ہمارے ادبی حلقوں میں اکثریہ تبصرہ سماعتوں سے ٹکراتا ہے کہ غزل کے دامن میں اب زیادہ گنجائش نہیں بچی ہے۔اس نقطہئ نظرکے حامی اس کی وجہ یہ گردانتے ہیں کہ دو،تین صدیوں سے اردوشاعری کوذریعہ اظہاربنانے والے شعراء کرام نے عمومی طور پرغزل کی صنف سخن کااستعمال کیاہے،کثرت استعمال سے شایداس میں اب نئے موضوعات کاامکان کم ہے اورپھرعروض کامعاملہ درپیش رہتا ہے،قافیہ،ردیف سے بھی ہمارے بہت سے نوواردان نالان ہیں،انہیں وزن کی پابندیاں اظہار میں رکاوٹ اورمحدودیت کاموجب نظرآاتی ہیں۔ایسے دوستوں کومیں ظفرمحی الدین کی شاعری پڑھنے کی دعوت دیتا ہوں۔باالخصوص وہ ”ستارے دیکھتے رہنا“کامطالعہ کریں توانہیں احساس ہوگاکہ اردوغزل میں امکانات کاآفاق کتناوسیع ہے اورموضوعات کاتنوع کیسے شعری قوس قزح میں ڈھالاجاتاہے۔ذراملاحظہ فرمائیے
صبح پردہ کھینچا اس نے کمرے کا
روشنی سے روشنی ملنے لگی
جدیدیت،سہل ممتنع اورمعنویت سے بھرپورمختصربحرمیں کیسانیاخیال پیش کیاہے
اب کوئی اور نہیں تیرے سوا میرا
اب تجھے چھوڑکے جانے میں بڑی مشکل ہے
روح کی تاروں کوچھیڑتی غزلوں کے خوبصورت مجموعے کی اشاعت پر میں انجینئرظفرمحی الدین کودلی مبارک بادپیش کرتاہوں۔امیدہے ”ستارے دیکھتے رہنا“ کی شعری رم جھم کے بعدبھی ان کا تخلیقی سفریونہی محبتیں بکھیرتاہواجاری رہے گا۔آفسٹ کاغذپرنہایت اعلیٰ طباعت ہے۔سرورق پرکیلی گرافی نعیم یادنے بہت ہی خوبصورت اندازمیں کی ہے اورعمران شناورکی محنت وصلاحیت کی دادنہ دینابھی زیادتی ہوگی۔صفحات کی تعداد272ہے اورقیمت 2100روپے ہے۔اس خوبصورت شعری مجموعے کونستعلیق پبلشرزنے اردوبازارلاہورسے شائع کیاہے۔قادری نوشاہی سچیاری سلسلے کے صوفی بزرگ کے ہاں 1961میں فیصل آبادجوکہ تب لائل پورتھامیں پیداہونے والے ظفرمحی الدین کی توانااورچونکادینے والی شاعری کایہ مجموعہ تاریخ میں زندہ رہنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔