صحت

سردیوں میں پیشاب زیادہ آنے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟

Share

دن میں کتنی مرتبہ پیشاب کرنا نارمل ہے، یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کا بہت زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ آپ پانی اور دوسرے مشروبات کس مقدار میں پیتے ہیں، کون سے مشروبات پیتے ہیں اور یہ کہ آپ کو پسینہ کتنا آتا ہے۔

تاہم، اگر آپ اوسطاً دن میں چھ، سات مرتبہ اور رات کو ایک دفعہ پیشاب کرنے جاتے ہیں تو اسے معمول کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات سپین میں مقیم پیشاب کے امراض یا یورالوجی کی ماہر ڈاکٹر بلانکا مڈُرگا نے بی بی سی کو بتائی۔

کیا پیشاب روکے رکھنا صحت کے لیے برا ہوتا ہے؟

قطع نظر اس بات کہ آپ اوسطاً کتنی مرتبہ ٹوائلٹ جاتے ہیں، آپ نے یہ ضرور نوٹ کیا ہوگا کہ گرمیوں کی نسبت سردیوں میں پیشاب زیادہ آتا ہے۔

نہ صرف یہ چیز نارمل ہے بلکہ ہر انسان کو سردیوں میں پیشاب زیادہ آتا ہے۔

ڈاکٹر بلانکا مڈُرگا کہتی ہیں کہ اس کی عمومی وجہ یہ ہے کہ ’جب سردی ہوتی ہے تو ہمارا جسم گرمیوں کی نسبت زیادہ سکڑ جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ سردیوں میں اگر آپ اپنے ہاتھ پاؤں کو دیکھیں تو ان پر قدرے سوجن آ جاتی ہے، جس کی وجہ آپ کے جسم میں پانی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔‘

یوں سردیوں میں جب ہمارا جسم زیادہ سکڑا ہوا ہوتا ہے تو اس میں مائع کو اندر جمع رکھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے ہمیں سردیوں میں پیشاب کی حاجت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں ہمارے جسم سے کچھ مائع پسینے کی شکل میں بھی باہر نکل جاتا ہے۔

’سردی میں جب باہر کا درجۂ حرارت کم ہوتا ہے تو ہماری خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں اور ہمارے جسمانی نظام کی کوشش ہوتی ہے کہ جسم کے مرکزی اعضاء، یعنی دل اور پھیپھڑوں وغیرہ، کو خون کی کمی نہ ہو۔ یوں جلد کے قریب والا خون سکڑ کر جسم کے اندرونی حصوں کو چلا جاتا ہے۔‘

بار بار ٹوائلٹ جانے کی ضرورت
اگر آپ سردیوں میں باہر ورزش کے لیے جا رہے ہیں تو ٹوائلٹ بھاگنے کے لیے بھی تیار رہیں

یہی وجہ ہے کہ ہم ہاتھوں، پاؤں، ناک اور جسم کے دیگر بیرونی حصوں پر سردی زیادہ محسوس کرتے ہیں۔

ڈاکٹر بلانکا مڈُرگا کے بقول چونکہ ہمارے جسم میں خون کی کُل مقدار وہی رہتی ہے لیکن جب خون کی نالیاں سکڑتی ہیں تو خون کے پاس جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری رگوں میں خون کا دباؤ یا بلڈ پریشر زیادہ ہو جاتا ہے۔

یہ وہ موقع ہوتا ہے جب ڈائروسِس کا عمل شروع ہو جاتا ہے، یعنی پیشاب میں تیزی آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر سے ہمارے گردوں کے خلیوں کے اندر بھی دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے گردوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ جسم سے غیر ضروری مائع مواد کو نکال دیں تاکہ بلڈ پریشر واپس نارمل ہو جائے۔

یوں جب گردوں کو غیر ضروری مائع سے نجات کا پیغام ملتا ہے تو ہمیں ٹوائلٹ کے لیے بھاگنا پڑ جاتا ہے۔

بار بار ٹوائلٹ جانے کی ضرورت
برطانیہ کا ادارۂ صحت کہتا ہے کہ اس چکر میں ٹوائلٹ نہ جائیں کہ ’شاید کچھ ہو جائے‘

ڈاکٹر بلانکا مڈُرگا بتاتی ہے کہ ’اگر ہمارے جسم کا وہ عضو جہاں پیشاب جمع ہوتا ہے، یعنی ہمارا بلیڈر صحت مند ہو تو ہمیں پیشاب سے فارغ ہونے کے تھوڑی دیر بعد دوبارہ ٹوائلٹ نہیں جانا پڑتا، لیکن کچھ لوگوں کے بلیڈر معمول سے زیادہ کام کرتے ہیں یا زیادہ ایکٹِو ہوتے ہیں۔ اس قسم کے افراد ہر تھوڑی دیر بعد ٹوائلٹ جانا چاہتے ہیں اور ان کو تسلی نہیں ہوتی۔

’اس کی وجہ بلیڈر کے ارد گرد کے اعضاء کا خود بخود سکڑنا ہو سکتی ہے کیونکہ جب ہم کوئی چیز پیتے ہیں یا ٹھنڈ ہوتی ہے تو یہ اعضاء غیر ارادی طور پر سکڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘

کچھ اچھی عادات

ڈاکٹر بلانکا مڈُرگا بتاتی ہیں کہ اگرچہ سردیوں میں ہمیں پیشاب زیادہ آتا ہے، اس کے لیے جسم میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے زیادہ پانی پینا ضروری نہیں ہے۔

اس لیے ماہرین ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ سردیوں میں بھی ’ہمیں دن میں دو سے ڈھائی لیٹر پانی ہی پینا چاہیے۔‘

جسم میں پانی کی مناسب مقدار برقرار رکھنے کے علاوہ، ہمیں چاہیے کہ اپنے بلیڈر کا بھی خیال رکھیں۔

اس حوالے سے بنیادی چیز یہ ہے کہ صرف یہ سوچ کر ٹوائلٹ نہ جائیں کہ ’شاید مجھے پیشاب آ جائے‘ کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارے بلیڈر کی پیشاب کنٹرول کرنے کی صلاحیت کم پڑ سکتی ہے۔

اس لیے کوشش کریں کہ آپ ٹوائلٹ تب ہی جائیں جب بلیڈر بھر جائے اور آپ کو واقعی اس کی حاجت محسوس ہو تاہم ڈاکٹر بلانکا مڈُرگا نے وضاحت کی کہ ’رات سونے سے پہلے بلیڈر کو خالی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘

بار بار پیشاب کی حاجت سے نجات کے لیے ایک اور تجویز یہ ہے کہ پیشاب کرتے وقت جلدی نہ کریں اور بلیڈر کو موقع دیں کہ وہ پوری طرح خالی ہو جائے، کیونکہ اگر آپ جلدی کرتے ہیں تو بلیڈر پوری طرح خالی نہیں ہوتا اور اس سے پیشاب کے نظام میں انفیکشن بھی ہو سکتی ہے۔