بلاگ

سر پہ دوپٹہ کروانے سے گھر میں گھس کر مارنے تک

Share

میں ایک گروسری سٹور پر سودا خریدنے کیلئے انتظار میں کھڑی تھی، سخت دوپہر تھی اور روزہ بھی۔ ایک گونگے فقیر نے پہلے ہاتھ جوڑ کر بھیک مانگی، میں اکثر نوجوان اور بچوں کو بھیک نہیں دیتی تا کہ یہ عادت ختم ہو، لیکن اس کی ھالت دیکھتے ہی میں نے کچھ پیسے تھما دیے۔ اس کے بعد اس نے پھر میری توجہ چاہی۔ میں ھیرت سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس نے تین بار مختلف اشاروں سے مجھے سمجھایا کہ میں سر پہ دوپٹہ کروں، اور اس کے چہرے پر اب باقاعدہ غصہ اور وحشت تھی۔ آخر میں نے ہاتھ جوڑے کہ بھائی جائو اپنی راہ لو۔ گھر پہنچ کر بھی اس کا چہرہ نظروں میں تھا اور یہ سوچ پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی کہ ہم نے کیا بھرا ہے اس قوم کے دماغوں میں کہ ایک مرد جو بول نہیں سکتا، اپنے لیے کچھ کر نہیں پا رہا، بھیک پر گزارہ ہے اس کے خیال میں ایک عورت جس نے ابھی ابھی اسکی مالی امداد کی ہے، وہ اسے نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اور اسے اپنی مرضی پر آمادہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ذاتی معاملہ میں سر راہ مداخلت کرتا ہے اور کوئی اس بات پر اسے منع بھی نہیں کرے گا۔
میں اسلامآباد شہر میں اکیلی رہتی ہوں۔ کرونا کے لاک ڈائون میں سوشل میڈیا نے لوگوں سے روابط قائم رکھے۔ اسی دہشت کے عالم میں میں نے ایک سٹیٹس اپ لوڈ کیا کہ کچھ دوستوں سے بات چیت ہو گی تو دل سے بوجھ اترے گا۔ کچھ افراد نےتو اس سوال پر غور کیا جو میں نے اٹھایا تھا “کیا بھرا ہے اس قوم کے دماغوں میں” اور بہت عمدگی سے جواب بھی دیا، اور کچھ کے جواب سے وہ سوچ سامنے آ گئی جو ایسے رویے پروان چڑھاتی ہے۔ میرے احباب میں کچھ مرد و خواتین نے اس بات پر مجھے آمادہ کرنا چاہا کہ اس شخص نے میری عزت و احترام میں مجھے سر پہ دوپٹہ اوڑھنے کو کہا۔ میری رائے میں راہ چلتے کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی پر اپنی مرضی مسلط کرے۔ اگر ایک سکارف پہنی عورت کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سر نہ ڈھانپنا کرو تو یہ کیسے ثابت ہوا کہ سر ڈھانپنے کی نصیحت کا آپ کو حق ہے۔ جو افراد اسے نیکی گردان رہے ہیں وہ خود کو اس صورت حال میں رکھیں اس شخص کے چہرے کا غصہ اور وحشت بھرا اسرار دماغ میں لائیں تو جناب یہ نیکی نہیں ہراسمنٹ ہے۔ جن کے دماغ میں آ رہا ہے کہ خواتین کو اکیلے باہر جانا ہی نہیں چاہئے تو ان کے لیے عرض ہے کہ میں ایک اکیلے رہنے والی باہمت عورت ایک بزرگ خاتون کا سودا سلف لینے کڑی دوپہر میں وہاں کھڑی تھی۔ جو مجھے یہ نصیحت کیے جا رہے ہیں کہ جانے دو چھوٹی سی بات ہے تو ایک تو یہ چھوٹی بات نہیں میرے لیے اور دوسرا وہ جان لیں کہ میرے جیسی خواتین آنکھیں اور زبان اس لیے کھلی رکھتی ہیں کہ اس معاشرے کے مسائل کو سامنے بھی لائیں اور ان کے حل کے لیے کوشاں بھی رہیں-
اس تمام واقعہ کے بعد میں نے ایک چھوٹی سی پوسٹ لکھی کہ میری نانی اور والدہ کہتی تھی پردہ یہ نہیں کہ بس خود کو چھپا رکھا پردہ یہ ہے کہ غریب کے سامنے دولت کی نمائش نہ کمزور کے سامنے طاقت کی بھوکے کے سامنے کھانے کی غیر شادی شدہ کے سامنے شادی کی مسافر کے سامنے گھر کی یا یتیم کے سامنے والدین کی ۔۔۔ اور پردہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کا بھرم رکھو ان کی کمزوری کسی پر عیاں نہ ہونے دو۔ پردہ اس لیے بھی ہے کہ تم کسی کی ذاتی زندگی پر نظر نہ ڈالو۔ ایک بار والدہ نے کہا جائو کھڑکی کا پردہ گرا دو، جب میں نے گرا دیا تو کہنے لگی پتہ ہے کیوں کہا ہے؟ میں نے بڑی سمجھداری سے بولا کیونکہ اب ہم لائٹ ان کریں گے تو کوئی اندر نہ دیکھے، وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں نہیں آجکل ہمارے گھر میں کوئی محلے کی ایک لڑکی کے شام کو گھر لوٹنے کے اوقات پر نظر رکھتا ہے اس لیے سر شام پردہ گرا دیا کرو۔

ابھی دو ہی ہفتے گزرے تھے اس واقعہ کو کہ ٰآمنہ بنت ملک ریاض اور عظمی کی وڈیو لیک ہو گئی۔ جس میں آمنہ بمع مسلحہ افراد کے ایک گھر میں داخل ہوتی ہیں چیزیں توڑتی ہیں عظمی اور ان کی بہن کو دھمکاتی ہیں گالیاں دیتی ہیں اور اس وقوعہ میں ایک لڑکی کو زخم بھی آتا ہے، ان کے چہروں پر کچھ پھینکتی بھی ہیں جو کہ آج تک طے نہیں پایا کہ کیا تھا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر بحثشروع ہو گئی جس میں ذیادہ تر لوگ عظمی کو لعن تعن کرتے دکھئی دیتے اور آمنہ کےلیے ہمدردی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ جس میں ایک بات بار بار کی جاتی ہے کہ یہ اسلامی معاشرہ ہے۔ اس تمام بحث نے مجھے ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس پدر شاہی معاشرے نے اور طاقت کے نشے میں چور افراد کی اجارہ داری نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ اگرآمنہ کا یہ بیان درست ہے کہ اس کے شوہر کا عظمی سے غیر شرعی تعلق تھا تو بی بی قانون نافذ کرنے والے ادارے تو آپ کے والد کی جیب میں ہیں، بجائے عظمی کے گھر میں گھس کر ہنگامہ کرنے کے اور بزریعہایجینسی عظمی کو اٹھوانے کی دھمکیاں دینے کے آپ قانونی چارہ جوئی کرتی، جاتی اور اپنے شوہر کو ناکوں چنے چبواتی۔ لیکن نہیں آسان بات تو یہ ہے کہ دوسری جانب ایک اور عورت جو ان سے “کمتر” تصور کی جائے گی، اس پر دھاوا بولا جائے اور وڈیو بنا کر وائرل کر دی جائے۔ لوگوں کہ رائے میں کوئی بھی عورت ایسا ہی کرتی۔ جی بالکل کیونکہ میں نے جھونپڑیوں میں بھی خواتین کوایکدوسرے سے ہی لڑتے دیکھا، محلوں میں بھی اور اشرافیہ میں بھی وجہ چاہے مرد ہو یا پیسہ۔ مرد آرام سے کسی اور کے ہاں بیٹھا یہ سب دیکھ کر انجوائے کرتا ہو گا، یا اپنے والدین کی گود میں بھی پایا جا سکتا ہے جو کہیں گے کہ چاتر عورتوں نے ہمارے بچے کو خوار کیا۔ دوسری جانب شکر ہے کہ عظمی کا کوئی بھائی نہیں ورنہ غیرت کے نام پر اب تک وہ جانے کیا کر چکتا۔ اس بحث میں تو نہ ہی پڑیں کہ ہمارے ہاں مشہور مردوں نے کس کس کی بیوی سے کب کب چکر چلا یا اسے “آزاد” کروایا اور اپنی غلامی میں لیا۔
مبارک ہو اس معاشرے کو کہ سر راہ عورت کے سر پر دوپٹہ کروانے سے لے کر اس کے گھر میں گھس کر مارنے تک ہر طرح کی آزادی ہے۔ لیکن آزادئنسواں کے نام سے کانپ جاتے ہیں کیونکہ ہم جیسی آزاد عورت کسی بھی مرد کی بدلی نیت دیکھ کر نہ صرف اسے سر راہ چھوڑ دیتی ہے بلکہ پہلے سے ذیادہ ہمت اور جرات کے ساتھ آگے بڑھ جاتی ہے۔