کالم

سفر حجاز: ایک ہندو جو مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا

Share

یہ2005 کا زمانہ تھا۔ روزنامہ نوائے وقت میں معروف کالم نگار عرفان صدیقی صاحب کا ایک کالم بعنوان ” گنگا سے زم زم تک ” شائع ہوا۔ کالم میں انہوں نے بھارت کے ایک کٹر ہندو نوجوان کا تذکرہ کیا تھا۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر جس نے اسلام قبول کیا۔ نوجوان پر اسقدر احسان الٰہی ہوا کہ وہ دل وجان سے اسلامی تعلیمات کی جانب راغب ہوگیا۔مدینہ منورہ اور مصر کی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبہ تدریس سے منسلک ہو ا۔ سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی میں پروفیسراور ڈین کے عہدے تک جا پہنچا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تحقیقات اسلامی میں جت گیا۔ عربی اور ہندی میں درجنوں کتابیں لکھ ڈالیں۔ ان کتب کا ترجمہ دنیا کے مختلف ممالک کے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہے۔ اسقدر با سعادت ٹھہرا کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث کا درس دینے لگا۔کفر کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے روشن راستوں پر گامزن ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کے سفر سعادت کے بارے میں لکھا گیا یہ کالم میری یاداشت سے کبھی محو نہیں ہو سکا۔
اس مرتبہ عمرہ پر جاتے وقت میں نے حج و عمرہ کی دعاوں اور اسلامی تاریخ سے متعلق کچھ کتابیں اپنے سامان میں رکھ لی تھیں۔ ایک کتاب جو آخری وقت پر میں نے اپنے ہمراہ لی وہ عرفان صدیقی صاحب کی “مکہ مدینہ ” تھی۔ مدینہ منورہ میں آئے دوسرا دن تھا۔میں ہوٹل کے کمرے میں “مکہ مدینہ “کی ورق گردانی میں مصروف تھی۔ اچانک پندرہ برس قبل لکھاگیاکالم ” گنگا سے زم زم تک” آنکھوں کے سامنے آگیا۔ ایک بار پھر مجھے ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی اور انکی زندگی کا سفر یاد آگیا۔ امی کو میں انکے قبول اسلام کا قصہ بتانے لگی۔ با آواز بلند کالم بھی پڑھ کر سنایا۔ کالم پڑھنے کے بعد انکے متعلق سوچنے لگی۔ انگلیوں پر گن کر حساب لگایا کہ اب انکی عمرکم و بیش 77 برس ہو گی۔ خیال آیا نجانے اب انکی صحت علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کی متحمل ہو گی بھی یا نہیں۔ دل میں خواہش ابھری کہ کاش میں ان سے ملاقات کر سکوں۔ایک علمی و ادبی شخصیت سے رابطہ کیا اور یہ خواہش گوش گزار کی۔ ان کا جواب سن کر مجھے بے حد مایوسی ہوئی۔ کہنے لگے کہ اعظمی صاحب عمومی طور پر میل ملاقاتوں سے انتہائی گریزاں رہتے ہیں۔ خواتین سے تو غالبا بالکل نہیں ملتے جلتے۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں یہ گفتگو اختتام پذیر ہوئی۔ لیکن اگلے دن انہوں نے خوشخبری سنائی کہ اعظمی صاحب سے بات ہو گئی ہے۔ ہدایت دی کہ میں فون پر ان سے رابطہ کر لوں۔
زندگی میں مجھے بہت سی نامور دینی، علمی، ادبی اور دیگر شخصیات سے ملاقا ت اور گفتگو کے مواقع ملے ہیں۔ خصوصی طور پر بھاری بھرکم سیاسی شخصیات۔ پروٹوکول جن کے آگے پیچھے بندھا رہتا ہے۔ لوگ جن کی خوشنودی خاطر میں بچھے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کیلئے میں کسی شخصیت سے مرعوب ہوئی، نا کسی کے عہدے، رتبے اور مرتبے کا رعب و دبدبہ مجھ پر کبھی طاری ہوا۔لیکن ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کو ٹیلی فون کال ملاتے وقت مجھ پر گھبراہٹ طاری تھی۔ دل کی دھڑکنیں منتشر تھیں۔ ان سے بات کرتے میری زبان کچھ لڑکھڑائی اور آوازکپکپا گئی۔عرض کیا کہ برسوں پہلے ایک کالم کے توسط سے آپ سے تعارف ہوا تھا۔ برسوں سے میں آپکے بارے میں سوچا کرتی ہوں۔ برسوں سے خواہش ہے کہ آپ سے شرف ملاقات حاصل ہو سکے۔ نہایت عاجزی سے کہنے لگے۔ میں کوئی ایسی بڑی شخصیت نہیں ہوں۔جب چاہیں گھر چلی آئیں۔ اگلے دن بعد از نماز عشا ء ملاقات کا وقت طے ہوا۔ نہایت فراخدلی سے کہنے لگے آپ کو یقینا راستوں سے آگاہی نہیں ہو گی، کل میرا ڈرائیور آپ کو لینے پہنچ جائے گا۔ شکریہ کیساتھ عرض کیا کہ میں خود وقت مقرر ہ پر حاضر ہو جاوں گی۔ اس کے بعد میں بے تابی سے اگلے دن کا انتظار کرنے لگی۔ اس سے قبل کہ میں اس ملاقات کا احوال لکھوں، قارئین کے لئے پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کے قبول اسلام کی مختصر داستان بیان کر تی ہوں۔
1943 میں اعظم گڑھ (ہندوستان) کے ایک ہندو گھرانے میں ایک بچے نے جنم لیا۔والدین نے اس کا نام بانکے رام رکھا۔ بچے کا والد ایک خوشحال کاروباری شخص تھا۔ اعظم گڑھ سے کلکتہ تک اس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا۔ بچہ آسائشوں سے بھرپوزندگی گزارتے ہوئے جوان ہوا۔وہ شبلی کا لج اعظم گڑھ میں زیر تعلیم تھا۔ کتابوں کے مطالعے سے اسے فطری رغبت تھی۔ایک دن مولانا مودودی کی کتاب ” دین حق” کا ہندی ترجمہ اس کے ہاتھ لگا۔نہایت ذوق و شوق سے اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ بار بار پڑھنے کے بعد اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی اور اضطراب محسوس ہوا۔ اس کے بعد اسے خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمہ قرآن پڑھنے کا موقع ملا۔

نوجوان کا تعلق ایک برہمن ہندو گھرانے سے تھا۔ کٹر ہندو ماحول میں اسکی تربیت ہو ئی تھی۔ ہندومذہب سے اسے خاص لگاو تھا۔ باقی مذاہب کو وہ برسر حق نہیں سمجھتا تھا۔ اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو قرآن کی یہ آیت اس کی نگاہ سے گزری۔ ترجمہ: اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اس نے ایک بار پھر ہندو مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنے کالج کے لیکچرار جو گیتا اور ویدوں کے ایک بڑے عالم تھے، سے رجوع کیا۔ ان کی باتوں سے مگر اس کا دل مطمئن نہیں ہو سکا۔ شبلی کالج کے ایک استاد ہفتہ وار قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ نوجوان کی جستجو کو دیکھتے ہوئے استاد نے اسے حلقہ درس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت دے دی۔
سید مودودی کی کتابوں کے مسلسل مطالعے اور درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے نوجوان کے دل کو قبول اسلام کیلئے قائل اور مائل کر دیا۔ پریشانی مگر یہ تھی کہ مسلمان ہونے کے بعد ہندو خاندان کیساتھ کس طرح گزارہ ہو سکے گا۔ اپنی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بھی وہ فکرمند تھا۔ یہی سوچیں اسلام قبول کرنے کی راہ میں حائل تھیں۔ ایک دن درس قرآن کی کلاس میں استاد نے سورت عنکبوت کی یہ آیت پڑھی۔ ترجمہ: جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے، جو گھر بناتی ہے اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش لوگ (اس حقیقت سے) باخبر ہوتے۔ اس آیت اور اسکی تشریح نے بانکے رام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے تمام سہاروں کو چھوڑ کر صرف اللہ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر اسلام قبول کر لیا۔ اسکے بعد اس کا بیشتر وقت سید مودودی کی کتابیں پڑھنے میں گزرتا۔ نماز کے وقت خاموشی سے گھر سے نکل جاتا اور کسی الگ تھلگ جگہ پر ادائیگی کرتا۔ چند ماہ بعد والد کو خبر ہوئی تو انہوں نے سمجھا کہ لڑکے پر جن بھوت کا سایہ ہو گیا ہے۔ پنڈتوں پروہتوں سے علاج کروانے لگے۔ جو چیز وہ پنڈتوں پروہتوں سے لا کر دیتے یہ بسم اللہ پڑھ کر کھا لیتا۔ علاج معالجے میں ناکامی کے بعد گھر والوں نے اسے ہندو مذہب کی اہمیت سمجھانے اور دین اسلام سے متنفر کرنے کا اہتمام کیا۔ جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو رونے دھونے اور منت سماجت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے بھی بات نہ بن سکی تو گھر والوں نے بھوک ہڑتال کا حربہ آزمایا۔ والدین اور بھائی بہن اس کے سامنے بھوک سے نڈھال پڑے سسکتے رہتے۔ اس کے بعد گھر والوں نے مار پیٹ اور تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ نے مگر ہر موقع پر اسے دین حق پر استقامت بخشی۔
اس نے تمام رکاوٹوں اور مشکلات کو نظر انداز کیا۔ ہندوستان کے مختلف دینی مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ (مدینہ یونیورسٹی) میں داخل ہو گیا۔ جامعتہ الملک عبدالعزیز (جامعہ ام القری۔ مکہ معظمہ) سے ایم۔اے کیا۔ مصر کی جامعہ اازہر قاہرہ سے پی۔ ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اعظم گڑھ کے کٹر ہندو گھرانے میں آنکھ کھولنے والا یہ بچہ دنیائے ا سلام کا نامور مفکر، محقق، مصنف اورمبلغ بن گیا۔ انہیں پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی کتابیں ہندی، عربی، انگریزی، اردو، ملائی، ترک اور دیگر زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔انتہائی سعادت ہے کہ ڈاکٹرصاحب نے صحیح احادیث کو مرتب کرنے کے ایک انتہائی بھاری بھرکم تحقیقی کام کا بیڑہ اٹھایا اور برسوں کی محنت کے بعد اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ایسا کام جو بڑی بڑی جامعات اور تحقیقی ادارے نہیں کر سکے، ایک شخص نے تن تنہا کر ڈالا۔ گزشتہ کئی برس سے وہ مسجد نبوی میں حدیث کا درس دیتے ہیں۔
للہ رب العزت نے اس روئے زمین پر بے شمار نعمتیں نازل فرمائی ہیں۔ ان تمام میں سب سے عظیم اور انمول ” ایمان” کی نعمت ہے۔ سورت حجرات میں فرمان الٰہی ہے کہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی۔ سورت انعام میں فرمان ربانی ہے۔ترجمہ: جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستے پر ڈالنا چاہے، اس کے سینے کو اسلام کیلئے کشادہ کر دیتا ہے۔اس شام میں طے شدہ وقت کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی سے ملاقات کیلئے روانہ ہوئی، تو قرآن کی یہ آیات مجھے یاد آگئیں۔ خیال آیا کہ اللہ کے انعام اور احسان کی انتہاء ہے کہ اس نے ہندو گھرانے میں جنم لینے والے کو صراط مستقیم کیلئے منتخب کیا۔اسے بانکے رام سے پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی بنا ڈالا۔مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث کے معلم اور مبلغ کی مسند پر لا بٹھا یا۔
ڈاکٹر صاحب کا گھر مسجد نبوی سے چند منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ گھر پہنچی تو اعظمی صاحب استقبال کیلئے کھڑے تھے۔ نہایت شفقت سے ملے۔ کہنے لگے آپ پہلے گھر والوں سے مل لیجئے۔ چائے وغیرہ پیجئے۔ اس کے بعد نشست ہوتی ہے۔ مہمان خانہ (drawing room) میں داخل ہوئی تو ان کی بیگم منتظر تھیں۔ محبت اور تپاک سے ملیں۔ چند منٹ بعد انکی دونوں بہوئیں چائے اور دیگر لوازمات تھامے چلی آئیں۔ کچھ دیر بعد ان کی بیٹی بھی آگئی۔ اس کے بعد گھر میں موجود تمام چھوٹے بچے بھی۔ ان کی بیگم نے جامعہ کراچی سے ایم۔اے کر رکھا ہے۔ کہنے لگیں پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ لینے کا ارادہ تھا۔لیکن شادی ہو گئی۔ تجسس سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب ہندوستانی تھے۔ جبکہ آپ پاکستانی۔ شادی کیسے ہو گئی۔ کہنے لگیں کہ میرے ماموں مدینہ یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ اعظمی صاحب سے انکی میل ملاقات رہتی تھی۔ بتانے لگیں کہ اعظمی صاحب اسقدر مصروف رہا کرتے تھے کہ میرے پڑھنے لکھنے کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ البتہ چند سال قبل میں نے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ تینوں بچے اشاعت دین کی طرف نہیں آئے۔ ان کا خیال تھا کہ جتنا کام ان کے والد نے کیا ہے۔ اسقدر وہ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ یہی سوچ کر وہ مختلف شعبوں میں چلے گئے۔ پھر کہنے لگیں کہ آپ کسی بھی شعبہ میں ہوں، اللہ کے بندوں کی خدمت کر کے اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں۔

آدھ پون گھنٹہ بعد اعظمی صاحب کا بلاوا آگیا۔ ان کے لائبریری نما دفتر کا رخ کیا۔ ابتدائی تعارف کے بعد کہنے لگے کہ میڈیا اور دیگر لوگ انٹرویو وغیرہ کیلئے رابطہ کرتے ہیں۔ میں اپنی ذاتی تشہیر سے گھبراتا ہوں۔ درخواست کرتا ہوں کہ میری ذات کے بجائے، میرے تحقیقی کام کی تشہیر کی جائے۔ تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ اس سے آگاہ اور مستفید ہو سکیں۔ پھر اپنی کتابیں دکھانے اور تحقیقی کام کی تفصیلات بتانے لگے۔ ان کی تحقیق اور درجنوں تصانیف کی مکمل تفصیل کئی صفحات کی متقاضی ہے۔ لیکن ایک تصنیف (بلکہ عظیم کارنامہ) کا مختصر تذکرہ ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بیس برس کی محنت اور جانفشانی کے بعد ” الجامع الکامل فی الحدیث ال صحیح ا لشامل ” کی صورت ایک عظیم الشان علمی اور تحقیقی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔اسلا م کی چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی تمام صحیح حدیثوں کو مختلف کتب احادیث سے جمع کیا اور ایک کتاب میں یکجا کر دیا گیا ہے۔الجامع الکامل سولہ ہزار صحیح احادیث پر مشتمل ہے۔ اسکے 6 ہزار ابواب ہیں۔ اس کا پہلا ایڈیشن 12 جبکہ دوسرا ایڈیشن اضافات کیساتھ 19ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔
اعظمی صاحب نے بتایا کہ کم وبیش 25 برس میں بطور پروفیسر دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کرتا رہا۔ اکثر یہ سوال اٹھتا کہ قرآن تو ایک کتابی شکل میں موجود ہے۔ مگر حدیث کی کوئی ایک کتاب بتائیں، جس میں تمام احادیث یکجا ہوں۔ جس سے استفادہ کیا جا سکے۔ صدیوں سے علمائے کرام اور مبلغین سے غیر مسلم اور مشتشرقین یہ سوال کیا کرتے۔ مگر کسی کے پاس اسکا تشفی بخش جواب نہ تھا۔ مجھے بھی یہ سوالات درپیش رہتے۔ لہذا میں نے حدیث کی ایک کتاب مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔انہوں نے بتایا کہ طبع دوم میں 99 فیصد صحیح احادیث آگئی ہیں۔ سو فیصد کہنا اس لئے درست نہیں کہ صد فیصد صحیح صرف اللہ کی کتاب ہے۔
انتہائی حیرت سے استفسار کیا کہ اس قدر دقیق اور پیچیدہ کام آپ نے تن تنہا کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ کہنے لگے میری یہ بات گرہ سے باندھ لیجئے کہ کسی کام کی ” لگن اور جستجو” ہو تو وہ نا ممکن نہیں رہتا۔ سوال کیا کہ اسقدر بھاری بھرکم تحقیق کیلئے آپ دن رات کام میں جتے رہتے ہونگے۔ کہنے لگے۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا کرتا تھا۔ صبح سویرے کام کا آغاز کرتا اور رات دو اڑھائی بجے تک مصروف رہتا۔ بتانے لگے کہ یہ (وسیع و عریض) گھر جو آپ دیکھ رہی ہیں۔ یہ سا را گھر ایک لائبریری کی مانند تھا۔ ہر جانب کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ یوں سمجھیں کہ میں نے ایک لائبریری میں اپنی چارپائی ڈال رکھی تھی۔ جب تحقیقی کام مکمل ہو گیا تو میں نے تمام کتابیں عطیہ (donate) کر دیں۔ خاندان کا تعاون میسر نہ ہوتا تو میں یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ کمپیوٹر کی جانب اشارہ کر کے بتانے لگے کہ میں اسے استعمال نہیں کر سکتا۔ عشروں سے معمول ہے کہ اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کوئی نہ کوئی شاگرد میرے ساتھ منسلک رہتا ہے۔ وہ کمپوزنگ کر تا ہے۔
ڈاکٹر اعظمی صاحب ہندی اور عربی زبان میں بیسیوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان تصانیف کے تراجم درجنوں زبانوں میں چھپتے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک کی جامعات اور دینی مدارس میں انکی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ کہنے لگے کہ نہایت تکلیف دہ بات ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں کم و بیش آٹھ صدیوں تک حکمرانی کی۔ بادشاہوں نے عالیشان عمارات تعمیر کروائیں۔ تاہم غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے ہم وطن غیر مسلمین کو اسلام کی طرف راغب کرنے کیلئے اشاعت دین کا کام نہیں کیا۔ ہندووں کی کتابوں کا فارسی اور سنسکرت میں ترجمہ کروایا۔ مگر قرآن و حدیث کا ہندی ترجمہ نہیں کروایا۔اگر مسلمان حکمران یہ کام کرتے تو یقین جانیں آج سارا بھارت مسلمان ہو چکا ہوتا۔ (ان دنوں بھارت میں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی مہم عروج پر تھی)۔ کہنے لگے کہ اگر برصغیر کے مسلمان حکمرانوں نے اشاعت دین کا فریضہ سرانجام دیا ہوتا، تو آج یہ نوبت نا آتی۔بھارت میں 80 کروڑ ہندو بستے ہیں۔ مشن میرا یہ ہے کہ ہر ہندو گھرانے میں قرآن اور حدیث کی کتب پہنچیں۔ یہی سوچ کر میں ہندی زبان میں لکھتا ہوں۔
اس مقصد کے تحت ڈاکٹر صاحب نے ہندی زبان میں ” قرآن مجید انسائیکلو پیڈیا ” کی تصنیف فرمائی۔عرصہ دس برس میں یہ تحقیقی کام مکمل ہوا۔ یہ کتاب قرآن پاک کے تقریبا چھ سو موضوعات پر مشتمل ہے۔ تایخ ہند میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو اس موضوع پر لکھی گئی۔ یہ کتاب بھارت میں کافی مقبول ہے۔ اب تک اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔کچھ برس قبل اس کا انگریزی اور اردو ترجمہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سوال کیا کہ آپ کی کتابوں سے ہندو اور دیگر غیر مسلم متاثر ہوتے ہیں؟ کہنے لگے جی ہاں اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ میری فلاں فلاں کتاب پڑھنے کے بعد فلاں فلاں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
کم و بیش گزشتہ بیس برس سے انہوں نے کوئی سفر نہیں کیا۔ کہنے لگے کہ لائبریری سے دور کہیں آنے جانے کو جی نہیں چاہتا۔ کتابوں سے دور ہوتا ہوں تو گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ معلوم کیا کہ آج کل کیا مصروفیات ہیں۔ بتانے لگے کہ کچھ تحقیقی کام جا ری ہیں۔ گزشتہ آٹھ دس برس سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث کا درس دیتا ہوں۔ پہلے بخاری شریف اور صحیح مسلم کے دروس دئیے۔ آج کل سنن ابی داود کا درس جاری ہے۔ بتانے لگے کہ میں لیکچر کچھ اس طرح تیار کرتا ہوں کہ شرح تیار ہو جائے۔تاکہ لیکچرز مکمل ہونے کے بعد کتابی شکل میں چھپ سکے۔مختصر یہ کہ انہوں نے دین کی نشر و اشاعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ان کی ہر تعلیمی، علمی اور تحقیقی سرگرمی کے پیچھے یہی جذبہ و جنون کار فرما ہے۔

آخر میں مجھے اپنی کچھ کتابوں کا اردو ترجمہ عنایت کیا۔ان پر میرا نام اور عربی زبان میں دعائیہ کلمات تحریر فرمائے۔ کم و بیش اڑھائی تین گھنٹوں بعد میں نے واپسی کی راہ لی۔ اعظمی صاحب برآمدہ (porch) تک تشریف لائے۔ گاڑی گھر سے باہر نکلنے تک وہیں کھڑے رہے۔ ہوٹل واپس لوٹتے وقت مجھے ان پر نہایت رشک آیا۔ خود پر انتہائی ندامت ہوئی۔ خیال آیا کہ ایک میں ہوں، جسے برسوں سے دنیا جہاں کے بے وقعت کاموں سے فرصت نہیں۔ ایک یہ ہیں جو عشروں سے حقیقی فلاح اور کامیابی سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ دعا کی کہ کاش مجھے بھی اللہ کا پیغام سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور اسکی نشر و اشاعت کی توفیق نصیب ہو جائے۔ آمین۔

One thought on “سفر حجاز: ایک ہندو جو مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا

  • اشرف قریشی

    ماشاءاللہ. سبحان اللہ. کیا ایمان افروز تحریر ہے. الھم زد فزد. شاید پہلے بھی میں نے آپ سے یہ سوال کیا تھا. کیا آپ کا تعلق چراغ حسن حسرت کے خانوادے سے ہے؟ کیا آپ مجھے جواب سے سرفراز فرمائیں گی؟ اللہ آپ کو برکت وعافیت عا فرمائے.
    اشرف قریشی

Comments are closed.