فیچرز

سنہرا اسلامی دور: جب یورپ میں کھالوں پر لکھا جاتا تھا تو عربوں نے وہاں کاغذ متعارف کروایا

Share

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہر بار جب آپ ’رِم‘ سے کاغذ نکال کر کمپیوٹر پرنٹر میں ڈالتے ہیں تو اس ایک عمل کے دوران ایک اعتبار سے آپ خطاطی یا لکھائی کی لگ بھگ دو ہزار سال پر محیط تاریخ کا سفر طے کر لیتے ہیں۔

کاغذ دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں ایجاد ہوا تھا۔ لیکن کاغذ کے لیے مستعمل انگریزی زبان کا لفظ ’پیپر‘ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں کی طرح مصر میں پائے جانے والے ایک آبی پودے یا سرکنڈے کے یونانی اور لاطینی نام ’پپائرس‘ سے نکلا ہے۔

اس آبی پودے کو چیر کر اس طرح جوڑا جاتا تھا کہ اس پر لکھائی ممکن ہو جاتی تھی اور قدیم زمانے کے لوگ اسی پر اپنی تحاریر لکھا کرتے تھے۔

اطالوی تاہم کاغذ کے لیے ’کارٹا‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو یونانی زبان میں لکھائی میں کام آنے والی چیزوں کے لیے مستعمل لفظ ’کارٹس‘ سے نکلا ہے اور اسی یونانی لفظ سے کئی دوسرے الفاظ بھی بنے ہیں مثلاً کارڈ، کارڈ بورڈ، کارٹوگرافی ڈرائیو وغیرہ۔

اس کے علاوہ قدیم لوگ، خاص طور پر عبرانی زبان بولنے والے، لکھنے کے لیے جانوروں کی کھالیں استعمال کرتے تھے۔ قرون وسطیٰ میں لکھائی کے لیے کھالوں سے بنی اس چیز نے، جسے انگریزی زبان میں ’پارچمنٹ‘ کہتے ہیں، کتابیں لکھنے کے لیے ’پپائرس‘ کی جگہ لے لی۔

کاغذ
،تصویر کا کیپشنکاغذ کے لیے مستعمل انگریزی زبان کا لفظ ’پیپر‘ مصر میں پائے جانے والے ایک آبی پودے یا سرکنڈے کے یونانی اور لاطینی نام ’پپائرس‘ سے نکلا ہے (پپائرس کا پودا)

اس کے ساتھ ہی ایک اور تبدیلی بھی آئی جس میں کتابیں اب ایک رول کی شکل میں مرتب ہونے کی بجائے الگ صفحات پر لکھی جاتی تھیں جنھیں جوڑ دیا جاتا تھا جسے ہم ’کوڈیکس‘ کہتے ہیں۔ کوڈیکس لاطینی زبان میں لکڑی کے بلاک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

لفظ ’رِم‘ کا ذکر، جس سے اب مراد 500 صفحات کا پیکٹ ہوتا ہے، ہمیں ایک بالکل مختلف سمت میں لے جاتا ہے کیونکہ یہ عربی زبان کے لفظ ’رزمہ‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے گٹھی۔

یہ ہم پر قرون وسطیٰ کی اسلامی تہذیب کے اس عظیم قرض کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس میں انھوں نے کاغذ اور کاعذ بنانے کی ترکیب چین سے مغرب تک پہنچائی۔

کاغذ سیلیلوز فائبر سے بنتا ہے جو اکثر درختوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ چینی لوگ جنھوں نے کاغذ ایجاد کیا گرم آب و ہوا والے خطے میں رہتے تھے اور مختلف پودوں اور جھاڑیوں کی اندورنی چھال سے کاغذ بناتے تھے۔

اس کی ایجاد کے کچھ ہی عرصے کے بعد بدھ راہبوں اور تاجروں کے ذریعے کاغذ بنانے کا علم پڑوسی علاقوں جیسا کہ جاپان، کوریا اور وسطی ایشیا میں پہنچ گیا، جہاں لوگوں نے مقامی طور پر میسر مواد کو استعمال کرتے ہوئے کاغذ بنانا سیکھ لیا۔

وسطی ایشیا میں، جہاں وہ پودے دستیاب نہیں تھے جو چین میں موجود تھے، لوگوں نے پرانے کپڑوں، رسیوں، کپاس اور سن (فلیکس) جیسے مقامی پودوں سے سیلیلوز فائبر حاصل کرنا شروع کر دیا۔

کاغذ
،تصویر کا کیپشنقدیم مصری پپائرس نامی آبی پودے کو چیر کر لکھنے کے لیے تیار کر رہے ہیں (تصویری خاکہ)

ساتویں اور آٹھویں صدی میں جب مسلمان، جو اس وقت تک صرف ’پپائرس‘ اور ’پارچمنٹ‘ سے واقف تھے، وسطی ایشیا میں پہنچے اور انھوں نے پہلی بار کاغذ دیکھا تو انھیں احساس ہوا کہ اس سے تو بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

دو سو سال کے اندر اندر اسلامی تہذیب کے توسط سے کاغذ بنانے کا علم وسطی ایشیا سے ایران، عراق، شام، مصر، مراکش اور آخر میں سسلی اور ہسپانیہ کو ملا کر پانچ ہزار میل تک پھیل چکا تھا۔

صدیوں تک یورپ میں کاغذ کی ایجاد کے بارے میں بحث ہوتی رہی اور یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ’پپائرس‘ سے بنا ہے اور اسے قدیم مصریوں نے ایجاد کیا تھا۔ لیکن قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کو ہمیشہ سے معلوم تھا کہ کاغذ چین میں بنتا ہے۔

11 ویں صدی کے عرب مؤرخ التعالبی نے مختلف علاقوں کے لوگوں کی خصوصیات پر مبنی اپنی تصنیف ’کتاب لطائف المعارف‘ میں لکھا تھا کہ کاغذ سمرقند کی خاص چیزوں میں سے ایک ہے اور یہ ’پپائرس‘ اور ’پارچمنٹ‘ کے مقابلے میں زیادہ نرم اور بہتر ہے اور اس پر لکھنا زیادہ آسان ہے۔

التعالبی کے مطابق سنہ 751 میں عربوں کے ساتھ جنگ طلاس میں قیدی بننے والے چینیوں کے ذریعے کاغذ بنانے کا طریقہ سمرقند تک پہنچا۔ انھوں نے لکھا کہ پھر کاغذ بڑے پیمانے پر بننے لگا اور اس کا عام استعمال شروع ہو گیا اور وہ سمرقند کے لوگوں کی اہم برآمدات میں شامل ہو گیا۔ اس کی اہمیت کا سب کو اندازہ تھا اور ہر جگہ لوگ اس کو استعمال کرنے لگے۔

حالانکہ ان قیدیوں کی کہانی کو کئی بار بیان کیا جا چکا ہے لیکن التعالبی کے بیان کو من و عن تسلیم کرنے میں احتیاظ ضروری ہے۔ وسطی ایشیا میں مختلف مقامات سے کاغذ کے انتہائی پرانے نمونے ملے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس خطے میں کاغذ مسلمانوں کی آمد یا جنگ طلاس سے بہت پہلے سے بنایا اور استعمال کیا جا رہا تھا۔

کاغذ
،تصویر کا کیپشنالتعالبی کے مطابق سنہ 751 میں عربوں کے ساتھ جنگ طلاس میں قیدی بننے والے چینیوں کے ذریعے کاغذ بنانے کا طریقہ سمرقند تک پہنچا

مثال کے طور سنہ 1900 میں ایک چینی بدھ راہب کو اتفاقاً شاہراہ ریشم پر ایک نخلستان کے غار میں کاغذ کے 30 ہزار سے زیادہ سکرول ملے۔ یہ غار پہلی بار سنہ 366 میں استعمال ہوا اور پھر 10ویں صدی میں بند کر دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے اس میں ملنے والے کاغذات، جو بدھ اور داؤ مذہب کنفیوشس کی تعلیمات، سرکاری دستاویزات، کاروباری معاہدوں، کیلنڈروں اور متفرق دستاویزات پر مشتمل ہیں اور کئی زبانوں میں لکھے گئے ہیں، اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔

سنہ 1907 میں برطانوی مہم جُو سر آرل سٹائن کو اس غار سے مغرب میں ایک واچ ٹاور کے کھنڈرات سے چوتھی اور چھٹی صدی کے درمیان کے پانچ خط اور کچھ دستاویزات ملیں۔

ان میں سے ایک خط کپڑے میں لپٹا تھا اور اس پر سمرقند کا پتہ درج تھا جو وہاں سے دو ہزار میل مغرب میں تھا۔ یہ خط، جو بظاہر کسی گُم ہو جانے والی ڈاک کا حصہ تھے، ثابت کرتے ہیں کہ شاہراہ ریشم کے تاجر وسطی ایشیا کے علاقے میں اسلام کے آنے سے صدیوں قبل کاغذ کا استمال کر رہے تھے۔

سنہ 1933 میں ایک سوویت ماہر آثار قدیمہ کو تاجکستان کے ایک پہاڑی قلعے میں کچھ کاغذات ملے تھے جہاں سے ایک مقامی حکمران نے عرب حملوں سے بچنے کے لیے سنہ 722 میں فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ یہ واقعہ جنگ طلاس سے تین دہائی پہلے کا ہے۔

قرون وسطیٰ کے فلسلفی اور مؤرخ ابنِ خلدون کے مطابق وزیر الفضل بن یحیی نے نویں صدی کے اوائل میں اس وقت کاغذ بنانے کا طریقہ بغداد میں متعارف کروایا تھا جب ’پارچمنٹ‘ کی کمی ہو گئی تھی اور انھوں وسیع عباسی سلطنت کا انتظام چلانے کے لیے لکھائی کے لیے مواد چاہیے تھا۔

کاغذ
،تصویر کا کیپشنکاغذ پر رنگوں اور روشنائی کی مدد سے ’شہد سے ادویات بنانے‘ کا صدیوں قدیم نسخہ

یہ وزیر ذاتی طور پر کاغذ کو متعارف کروانے کے لیے ذمہ دار تھے یا نہیں اہم بات یہ ہے کہ ان کے خادان کا تعلق بلخ سے تھا جو اب شمالی افغانستان میں ہے اور جہاں کاغذ صدیوں سے بنتا اور استعمال ہوتا آ رہا ہو گا۔

ابن خلدون لکھتے ہیں کہ اس طرح حکومتی دستاویزات اور سند کے لیے کاغذ استعمال ہونا شروع ہو گیا، لوگوں نے اسے علمی کام کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اور کاغذ بنانے کی صلاحیت میں بھی قابل قدر حد تک اضافہ ہو گیا۔

ابن خلدون نے افسر شاہی کے لیے کاغذ کی ایک اہم خاصیت کا ذکر نہیں کیا اور وہ تھی اس کی سیاہی جذب کرنے کی صلاحیت، جس کی وجہ سے ’پپائرس‘ اور ’پارچمنٹ‘ کے برعکس، اس پر لکھے کو مٹانا مشکل تھا۔

کاغذ پر لکھی گئی تحریر زیادہ محفوظ تھی اور اس میں جعل سازی کا امکان کم تھا۔

نویں صدی میں کاغذ کی نئی دستیابی کی وجہ سے ادب، نیچرل سائنس سے لے کر مذہب تک حقیقتاً تمام مضامین میں تخلیقی کام کی بہار آ گئی۔ علما نے کاغذ پر پیغمبرِ اسلام کی احادیث کو جمع کیا۔

کاغذ
،تصویر کا کیپشندانشوروں اور لکھاریوں نے ‘پپائرس’ اور ‘پارچمنٹ’ پر لکھی یونانی دستاویز کا کاغذ پر عربی میں ترجمہ شروع کیا اور انھیں پھر کتابوں کی صورت میں جلد کیا گیا (ابتدائی پرنٹنگ پریس)

کھانے پکانے کی تراکیب اور مقبول کہانیاں کاغذ کی زینت بنیں اور قارئین کو فروخت کے لیے پیش کی گئیں۔ نویں صدی کے آغاز میں عباسی خلیفہ المامون نے شاہی کتب خانے کو، جسے بیت الحکمہ کہا جاتا تھا، وسعت دی۔ دانشوروں اور لکھاریوں نے ’پپائرس‘ اور ’پارچمنٹ‘ پر لکھی یونانی دستاویز کا کاغذ پر عربی میں ترجمہ شروع کیا اور انھیں پھر کتابوں کی صورت میں جلد کیا گیا۔

بغداد میں کاغذ بنانا اور سٹیشنری کا کام جلد ہی اہم کاروبار بن گئے۔

نویں صدی کے معلم، مصنف اور کاغذ کے تاجر احمد ابن ابی طاہر کی سٹیشنری بازار میں دکان تھی جہاں کاغذ اور کتب فروشوں کی سو سے زیادہ دکانیں تھیں۔

عباسی دور کے بغداد میں سٹیشنری کی دکان ایک طرح کی پرائیویٹ ریسرچ لائبریری جیسی ہو گی۔ بغداد میں ایک عالم تھے جو کتابیں پڑھنے کے لیے پورے پورے دن کے لیے دکان کرائے پر لے لیتے تھے۔

بغداد میں 10ویں صدی میں ایک اور مشہور سٹیشنر اور لکھاری ابن ابی یعقوب تھے جنھوں نے اپنی پروفیشنل معلومات کی بنیاد پر ’فہرست‘ ترتیب دی جو قرون وسطیٰ کی کتابوں اور تصانیف کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا اور ایک خزانہ ہے۔

کاغذ کی نئی دستیابی سے پرانے موضوعات کو نئے انداز میں سمجھنے کے رواج نے بھی زور پکڑا۔ اسی زمانے میں جب اسلامی دنیا میں کاغذ تیزی سے پھیل رہا تھا ہندسوں کا ہندو نظام (ہندو سٹم آف ریکوننگ ود ڈیسیمل پلیس ویلیو نیومرلز) جنھیں ہم عربی ہندسے کہتے ہیں انڈیا سے مغرب کی طرف پھیل رہا تھا۔

کاغذ

ہندو سسٹم سے پہلے باقی دنیا کی طرح اسلامی دنیا میں بھی لوگ حساب کتاب دماغ میں کیا کرتے تھے اور اس دوران حاصل ہونے والے عارضی نتائج ‘مٹی کے بورڈ’ پر لکھتے جاتے تھے جسے بار بار مٹایا جا سکتا تھا یا انگلیوں کی پوزیشن سے مدد لیتے تھے جسے ’فنگر ریکوننگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

’ہندو ریکوننگ‘ کے بارے میں عربی زبان میں پہلا مینوئل (دستور العمل) سنہ 825 کے آس پاس محمد ابن موسیٰ الخوارزمی نے لکھا تھا جس کے نام سے ہمیں ’ایلگوردھم‘ کی اصطلاح ملی۔

الخوارزمی کے مطابق اس نظام کے تحت حساب کتاب کا عمل بائیں سے شروع ہوتا ہے اور نمبروں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا جاتا ہے اور انھیں مٹایا اور تبدیل بھی کیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب حساب کتاب مٹی کے بورڈ پر ہی ہوتے تھے۔

تاہم اس کے ایک صدی بعد ریاضی دان ابو الحسن احمد ابن ابراہیم اقليدسي سنہ 952 میں دمشق میں اپنے ایک مقالے میں انڈین سکیم میں تبدیلی لے کر آئے۔ ‎یہ تبدیلی کاغذ اور سیاہی کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی۔

اقلیدسی کی سکیم میں کاغذ کی وجہ سے ہندسوں کو مٹانا یا ہٹانا ممکن نہیں تھا لیکن حساب کتاب میں بہت زیادہ آسانیاں اور لچک پیدا کرتی تھی۔

ویٹیکن لائبریری میں موجود مسیحی پادریوں کی تعلیمات پر مبنی یونانی زبان میں ایک دستاویز، عرب کاغذ پر لکھی گئی جو سب سے پرانی دستاویز ہے۔ دمشق میں غالباً سنہ 800 کے آس پاس لکھی گئی یہ دستاویز ثابت کرتی ہے کہ صرف بغداد کے مسلمان بیوروکریٹ ہی کاغذ استعمال نہیں کر رہے تھے بلکہ شام میں مسلم حکومت میں رہنے والے مسیحی بھی اسے استعمال کر رہے تھے۔ شام میں مسیحیوں کی اس کمیونٹی کا اس دور میں ترجمہ کرنے کے اہم منصوبوں میں اہم کردار تھا۔

قاہرہ میں یہودی کتابوں، بلوں، ریکارڈ رکھنے اور کاروبادی دستاویزات کے لیے کاغذ استعمال کر رہے تھے جن میں سے زیادہ تر سنیگاگ کے سٹور روم میں، جسے گنیزا کہا جاتا ہے، صدیوں تک محفوظ رہیں۔

کاغذ
،تصویر کا کیپشنعربی زبان میں نقل کی گئی کاغذ کی سب سے پرانی کتاب جو اب تک محفوظ ہے وہ ابو عبید القاسم ابن سلام کا کام ہے جس میں انھوں نے پیغمبر اسلام کی احادیث میں غیر معمولی اصطلاحات کو جمع کی (فائل فوٹو)

کاغذ کا ایک اور پرانا ٹکڑا ثابت کرتا ہے کہ کاغذ کے آمد نے نئے طرز کے ادب کی نقل اور ترویج کی حوصل افزائی کی۔ مصر سے ملنے کے بعد اب شکاگو کے اوریئنٹل انسٹیٹیوٹ میں موجود اس ٹکڑے پر ’الف لیلی‘ کی اب تک سب سے پرانی کاپی کا عنوان اور اس کی شروعات موجود ہے۔

اس کی کاپی سنہ 879 کے آخر تک تقریباً ضائع ہو چکی تھی جب ایک مصری احمد ابن محفوظ اس کے صفحات کے حاشیوں میں قانونی نکات لکھنے کی مشق کر رہے تھے۔

عربی زبان میں نقل کی گئی کاغذ کی سب سے پرانی کتاب جو اب تک محفوظ ہے وہ ابو عبید القاسم ابن سلام کا کام ہے جس میں انھوں نے پیغمبر اسلام کی احادیث میں غیر معمولی اصطلاحات کو جمع کیا۔

ہالینڈ کی یونیورسٹی لائیڈن کی لائبریری میں محفوظ یہ نسخہ، جس کی تاریخ نومبر یا دسمبر سنہ 866 ہے، ثابت کرتا ہے کہ اسلامی دنیا میں کاغذ نویں صدی میں صرف اسلامی نہیں بلکہ یہودی اور مسیحی مذہبی اور سیکولر تحریروں کے لیے بھی استعمال ہو رہا تھا۔

دسویں صدی کے آخرمیں کاغذ نے نہ مصر میں بھی مکمل طور پر ’پپائرس‘ کی جگہ لے لی تھی جو وہاں پر بلاتعطل چار ہزار سال سے استعمال ہو رہا تھا۔ ہم تک پہنچنے والی دستاویزات اور عربی ذرائع بتاتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مصر ’پپائرس‘ ابھی بنایا جا رہا تھا لیکن نویں صدی کے آغاز سے کاغذ کی اہمیت بڑھتی گئی۔

مؤرخ المسعودی بتاتے ہیں کہ سنہ 956 تک مصر میں ’پپائرس‘ بننا مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کے چالیس برسوں بعد مصر کا سفر کرنے والے ایک جغرافیہ دان نے ’پپائرس‘ کے لکھنے کے لیے استعمال کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ فلسطینی جغرافیہ دان المقدسی کے مطابق سنہ 985 تک کاغذ مصر کی مصنوعات میں شامل ہو چکا تھا۔

ایرانی سیاح ناصر خسرو جنھوں نے سنہ 1030 اور 1040 کی دہائی میں قاہرہ کا سفر کیا بتاتے ہیں کہ پرانے قاہرہ میں سبزی فروش، دکاندار بک جانے والا سامان کاغذ میں لپیٹ کر دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کاغذ اب بہت سستا ہو چکا تھا۔ استعمال شدہ کاغذ کو نیا کاغذ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

یورپیوں نے سنہ 1000 کے آس پاس کاغذ کا پہلی بار استعمال شروع کیا اور مسلمانوں کی طرف سے ہسپانیہ میں کاغذ کی پہلی مل قائم کیے جانے کے بعد یورپیوں نے اٹلی میں اسے بنانا شروع کیا۔

14ویں صدی کے اختتام پر جرمن اولمان شٹومر نے، جو اٹلی کی کاغذ کی ملیں دیکھ چکے تھے، ایلپس کے پہاڑی سلسلے کے شمال میں نیورمبرگ میں کاغذ کی پہلی مل لگائی۔ شٹومر کی مل جیسی ملوں کے بغیر 15ویں صدی میں یوہان گٹنبرگ کے پرنٹنگ پریس سے شروع ہونے والا ثقافتی انقلاب ممکن نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ ان پرنٹنگ پریسوں میں کاغذوں کے رم کے رم استعمال ہوتے تھے، اور شاید بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ وہ رم آ کہاں سے رہے تھے۔

اس کے بعد سے ہماری کاغذ کی طلب کبھی کم نہیں ہوئی اور جیسے جیسے ہم اس کا نیا استعمال اور بنانے کے نئے طریقے سیکھ رہے ہیں ہمیں چین سے مغرب تک کاغذ کے رم پہنچانے میں اسلام کے سنہرے دور کے مرکزی کردار کو نہیں بھولنا چاہیے۔