کالم

سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داریاں

Share

ا ردو ایک زندہ زبان ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً پوری دنیا میں سو ملین سے زیادہ لوگ اردو بولتے ہیں۔دنیا میں کم و بیش سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ Ethnologue(Languages of the World) کے مطابق دنیا کی تیس مقبول ترین اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اردو زبان کو انیسواں مقام حاصل ہے۔
برطانیہ میں اردو جنوبی ایشیائی لوگوں میں وسیع پیمانے پر بولی اور پڑھی جاتی ہے۔یہاں زیادہ تر اردو بولنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔اس کے علاوہ ہندوستان، افریقہ اور دیگر ممالک کے لوگ بھی اردو بولتے ہیں۔سال 2000 میں زبان سے متعلق لندن کے اسکولوں میں ایک سروے کروایا گیا تھا۔ جس میں یہ پایا گیا کہ لندن میں اردو دس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں پانچویں نمبر پر ہے۔تاہم برطانیہ میں اردو چوتھی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ 2011 کے مردم شماری کے مطابق 269,000ہزار لوگ برطانیہ میں اردو زبان بولتے ہیں۔آج کل لندن مئیر صادق خان سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے اردو میں پیغام جاری کررہے ہیں۔ جس سے اردو بولنے والوں کو کورونا کے متعلق مسلسل جانکاری ملتی رہتی ہے۔
’کمیونٹی میں ہم آہنگی‘ کے حوالے سے برطانیہ میں دسمبر 2016میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر وینڈی آئیر بینٹ نے برطانوی لوگوں کو’سماجی ہم آہنگی‘ کو مضبوط بنانے کے لئے دیگر زبانوں کو سیکھنے کا مشورہ دیا۔ خاص کر ان زبانوں کو جن کے بولنے والوں کی تعداد اُن علاقوں میں زیادہ ہیں جس سے سماجی ہم آہنگی میں مضبوطی آئے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ِبرطانیہ مقامی کمیونٹی میں سماجی ہم آہنگی کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے۔اس کے علاوہ انگریزوں کو بیرونی زبانیں سیکھنے کے لئے سہولیات فراہم کرانی چاہئے۔جہاں اردو زبان بولنے والوں کی تعداد کافی ہے، وہاں اردو زبان بولنے اور سیکھنے کی آسانیاں فراہم کرانی چاہئے تاکہ اس سے سماجی ہم آہنگی کوتقویت ملے۔
سوشل میڈیا آج دنیا میں سماجی ہم آہنگی اور مراسلات کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ روازانہ لاکھوں لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغام اور بات چیت کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیکھنے اور سکھانے کے مواقع بھی ملنے لگے ہیں جس سے ہر عام و خاص فیضیاب ہو رہا ہے۔تاہم سوشل میڈیا سے جہاں لوگوں کو اپنی بات پیش کرنے میں آسانی ہورہی ہے وہیں اس سے لوگوں میں پریشانیاں بھی بڑھی ہیں۔

میں سوشل میڈیا کے ذریعے اردو زبان کے فروغ اور اس کی بقا کے لیے روزانہ نہیں تو ہر ہفتے کئی پوسٹ شائع کرتا رہتا ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی لوگ جو اردو زبان سے ناواقف تھے، انہیں اردو زبان سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی جو مدد ہوسکی کی اور ان میں سے زیادہ تر لوگ اس قابل ہو گئے کہ وہ اردو شعر و شاعری اور میرے کالم پڑھ کر، اس کے متعلق اردو رسم الخط میں جواب بھی دینے لگے ہیں۔ لیکن وہیں سوشل میڈیا پر وہ لوگ جو اردو رسم الخط سے واقف نہیں ہیں،وہ رومن رسم الخط کے سہارے شاعری اور اپنا پیغام لکھتے ہیں جو کہ ایک پریشان کن بات ہے۔کیوں کہ زبان اور رسم الخط ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔زبان کی اصل شناخت رسم الخط میں پوشیدہ ہے۔اس لیے رسم الخط کی اہمیت زبان کے ساتھ قائم ہے۔
سوشل میڈیا عصر حاضر میں ایک مقبول پلیٹ فارم ہے۔ ہر کس وناکس اس پلیٹ فار م سے اپنی بات منٹ و سیکنڈ میں پوری دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔سوشل میڈیا نے اکیسویں صدی میں ایک انقلاب برپا کررکھا ہے۔ سوشل میڈیا کے جتنے بھی اجزا ہیں، ان میں مثبت او ر منفی دونوں پہلو شامل ہیں۔سماجی نقطہئ نظرسے سوشل میڈیا نے دونوں رخ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ خواہ وہ عرب کے انقلابات ہوں یا روہنگیائی مسلم کی نسل کشی کا معاملہ ہویا کورونا وائرس کی وبا۔ سوشل میڈیا نے ایک معتدبہ تعداد کو حقیقت حال سے واقف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پلیٹ فارم نے جہاں ہندوستانی سماج کی دوریوں کو باٹنے کا کام کیا ہے تو دلوں میں دوریاں پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کی راہیں بھی ہموار کی ہیں۔وہیں اس نے ہندوستان میں سماجی اور رفاہی کاموں کے لیے بھی نمایاں کارنامے انجام د یئے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک اوپن پلیٹ فارم ہے۔ یہ ہم سب کی صواب دید پر منحصر ہے کہ اس پلیٹ فارم سے کتنا مثبت کام لے پارہے ہیں۔
ادبی نقطہئ نظر سے سوشل میڈیا کا دائرہئ کار دھیرے دھیرے پھیلتا جارہا ہے۔سوشل میڈیا پر اردو زبان وادب سے منسلک بے شمار ادیب و شاعر اپنی نگارشات آئے دن پیش کرررہے ہیں۔ موجودہ دور کے مصنفین کی پوری ٹیم اس اہم ٹکنالوجی سے مستتفید ہو رہی ہیں ۔ سوشل میڈیا کے تمام ذرائع ابلاغ پر اردو ادب کے بیش بہا حصے پیش کردیے گیے ہیں۔ بے شمار ادبی گروپ، اردو کے اہم ادبا وشعرا کی تخلیقات کے ساتھ ان سے متعلق اہم معلومات سوشل میڈیا کا اہم حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس اہم جدید وسائل کی مدد سے اپنی باتیں کس قدر اطمینان اورسکون کے ساتھ رکھ پارہے ہیں۔ ہماری باتیں کتنی تحقیق اور حق پر مبنی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر زبان وادب کے حوالے سے ان سب باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے تو یقینا سوشل میڈیا بھی اردو کے ساتھ دیگر زبان وادب کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگا۔ سوشل میڈیا پر موجود ادبی موادکو ہم بہت معیاری اور مستند تو نہیں کہہ سکتے لیکن مثبت فکرو نظر کے لیے ہم سوشل میڈیا کا استعمال بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔
آخر میں اتنا کہتا چلوں کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے انٹر نیٹ لازمی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بشمول یوروپی ممالک میں انٹر نیٹ کی جو سہولیات میسر ہیں وہ ابھی تک ایشیائی ممالک خصوصاً برصغیر میں موجود نہیں ہے کہ بغیر کسی رخنہ کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنا کام کیا جاسکے۔ اس کے لیے انٹر نیٹ کی جو رفتار چاہیے وہ ابھی موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آبادی کا زیادہ تر حصہ اس کے استعمال سے ناواقف یا قاصر ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی جائے تاکہ وہ دنیا سے باخبر رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی زبان و ادب کی خدمت بھی کرسکیں۔