فیچرزہفتہ بھر کی مقبول ترین

سوڈانی خواتین میں شادی سے قبل اعضائے مخصوصہ کٹوانے کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

Share

افریقی صحافیوں سے ہمیں موصول ہونے والے خطوط کے سلسلے میں صحافی زینب محمد صالح نے سوڈان کی عورتوں میں ’دوبارہ ختنہ‘ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر توجہ مبذول کروائی ہے۔

سوڈان میں کچھ خواتین خود کو کنواری ظاہر کرنے کے لیے اپنی شادی سے ایک یا دو ماہ قبل اپنے جنسی اعضا کٹوا دیتی ہیں۔ اس عمل کو ’فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن‘ یا ایف جی ایم کہا جاتا ہے۔

اس میں سے بہت سے خواتین وہ ہیں جو چار برس سے دس برس کی عمر کے دوران پہلے ہی ختنے کے عمل سے گزر چکی ہوتی ہیں۔

بنیادی طور پر اس عمل کے ذریعے کلیٹوریس (خواتین کی شرمگاہ کا اُوپری حصہ) اور لیبیا (فرج کا بیرونی حصہ) کو جسم سے علیحدہ کرنا شامل ہے جبکہ اندام نہانی کو تنگ کرنے کے لیے اکثر کچھ ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔

اور جب کوئی عورت جنسی عمل یا سیکس کرتی ہے تو یہ ٹانکے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔

اگر کوئی خاتون جس کی شادی ہونے جا رہی ہے اور اس سے قبل وہ جنسی اعضا کے کاٹنے یعنی ایف جی ایم کا انتخاب کرے تو ایسا آپریشن عام طور پر دائیوں کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔

’کئی دنوں تک چل پھر نہیں سکتے‘

سوڈان

ایک سوڈانی خاتون مہا (فرضی نام) نے بتایا کہ ’یہ بہت انتہائی تکلیف دہ عمل تھا اور جب تک میں صحت یاب نہیں ہوئی اس وقت تک مجھے اپنی ایک دوست کے ساتھ اس کے گھر ہی رہنا پڑا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری والدہ کو اس بارے میں علم ہو۔‘

’پیشاب کرنا ایک مسئلہ تھا اور میں آپریشن کے بعد ابتدائی چند دنوں میں ٹھیک سے چل نہیں سکتی تھی۔‘ مہا نے یہ آپریشن اپنی عمر سے کچھ بڑی عمر کے آدمی سے شادی کرانے سے دو ماہ قبل کروایا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر اسے یہ پتا چل جائے کہ میں نے شادی سے پہلے ہی جنسی تعلق قائم کر لیا تھا تو وہ مجھ پر کبھی بھروسہ نہیں کرے گا۔‘

’وہ مجھ پر باہر جانے یا فون استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دے گا۔‘

یونیورسٹی سے فارغ التحصیل 20 سالہ مہا کا تعلق شمالی سوڈان کی ایک ایسی ریاست سے ہے جہاں ایف جی ایم پر پابندی عائد ہے۔

لیکن یہ عمل ابھی بھی سوڈان میں وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 14 سے 49 سال کی عمر کی87 فیصد سوڈانی خواتین نے کسی نہ کسی صورت میں ایف جی ایم کے عمل سے گزری ہیں۔

حالانکہ مہا دارالحکومت خرطوم میں کام کرتی ہے جہاں خواتین کے ختنہ کرانے کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جاتا لیکن انھوں نے خفیہ طور پر ایک دائی کے گھر پر آپریشن کروانے کا انتخاب کیا۔

وہ ایک ایسی دائی کو جانتی ہیں جو عام طور پر اس آپریشن کے لیے وصول کی جانے والی پانچ ہزار سوڈانی پاؤنڈ فیس سے کچھ کم میں یہ آپریشن کرنے پر راضی ہو گئی تھی۔

’میں پیسوں کے لیے یہ کام کرتی ہوں‘

صومالیہ

بہت سے معاشروں میں جہاں شادی سے پہلے عورت کا کنوارہ پن اہمیت رکھتا ہے وہاں خواتین اپنے پردہ بکارت کی تشکیل نو کے لیے سرجری کا انتخاب کرتی ہیں۔

پردہ بکارت اندام نہانی میں موجود ٹشو (بافت) کی ایک پتلی سی پرت ہوتی ہے جو اندام نہانی کے منھ کو جزوی طور پر ڈھانپ کر رکھتی ہے۔ اس سرجری کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر عورت نے پہلے سیکس کیا ہو تو اس کا علم نہ ہو سکے۔ کیونکہ پہلی مرتبہ سیکس کرنے پر پردہ بکارت پھٹ جاتا ہے۔

اس آپریشن کو ’ہائیمونو پلاسٹی‘ کہا جاتا ہے اور اسے ایک مستند سرجن کے ذریعے ہی انجام دیے جانا چاہیے مگر سوڈان میں ایسے سرجن زیادہ تعداد میں دستیاب نہیں ہوتے۔

اور مجھے بتایا گیا ہے کہ صرف ایک کلینک ہے جو صرف شادی شدہ خواتین کے لیے کام کرتا ہے۔

ایسے میں اندام نہانی کو تنگ کرنے کے لیے ٹانکے لگانا ہی بہترین طریقہ ہے۔ کچھ دائیاں بھی آپریشن کے دوران ’صاف ستھرا‘ بنانے کے لیے اندام نہانی کے بیرونی حصوں یا اندرونی پرتوں کا زیادہ حصہ کاٹنا پسند کرتی ہیں۔

سوڈان میں ایف جی ایم کے خاتمے کی مہم چلانے والی ماہر امراض نسواں (گائنا کولوجسٹ) ڈاکٹر سوسن صید کہتی ہیں کہ ’خواتین کے جنسی اعضا میں ہونے والی کسی بھی تبدیلی کو ایف جی ایم سمجھا جاتا ہے، چاہے یہ سلائی ہو یا چھیدنا۔‘

سوڈان

تاہم ان میں سے کسی بھی طریقہ کار کو ہسپتالوں میں نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ خرطوم میں بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سوڈانی میڈیکل کونسل ان کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

اگر ایسا کرتے ہوئی کوئی مڈ وائف یا دائی پکڑی جائے تو اسے نوکری سے برطرف کر دیا جاتا ہے اور اس کا سامان ضبط کر لیا جاتا ہے۔ پھر بھی میں نے جن تین ہسپتالوں میں دورہ کیا وہاں موجود دائیوں نے مجھے مختلف طریقہ کار کے تحت یہ کام کرنے کی رضا مندی ظاہر کی۔

یہاں تک کہ ایک نے دیگر نرسوں کے سامنے بھی اس کے بارے میں کھل کر بات کی اور مجھے وہ کمرے دکھائے جہاں یہ عمل سرانجام دیا جا سکتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں کلائی ٹورس (شرمگاہ کا اوپری حصہ) کا کچھ حصہ کاٹ دوں؟ اگر آپ نہیں چاہتی تو میں اس کو نہیں چھوؤں گی۔ لیکن میں اس (اندام نہانی) کا بیرونی حصہ تھوڑا سا کاٹ کر اور ان کو ایک ساتھ ٹانکے لگا کر بہترین تیار کر دوں گی۔‘

ایک اور دائی نے کہا کہ وہ اس کام سے نفرت کرتی تھیں لیکن بعض اوقات انھوں نے ایسا کیا کیونکہ انھیں پیسوں کی ضرورت تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’چند دن پہلے میں نے ایک 18 سالہ لڑکی کا آپریشن کیا ہے جسے اس کے کزن نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کی والدہ یہاں آئیں اور روئیں تو میں ان کی مدد کرنا چاہتی تھی۔‘

سوڈان

’میں نے ’سلیمہ سکیم‘ کے تحت حلف لیا تھا کہ میں کبھی بھی دوبارہ خواتین یا لڑکیوں کے جسمانی اعضا نہیں کاٹوں گی لیکن میں وقتاً فوقتاً یہ کام اس لیے کرتی ہوں کیونکہ میں اپنے نواسے نواسیوں کی پرورش کر رہی ہوں جن کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے اور مجھے ان کی سکول فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔‘

سلیمہ سکیم اقوام متحدہ کا ایک حمایت یافتہ منصوبہ ہے جو سوڈان میں ایف جی ایم کے عمل کو روکنے کے لیے سنہ 2008 میں شروع کیا گیا تھا۔

نیا دور

لیکن ابھی اس قدامت پسند معاشرے میں رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔ خرطوم میں ایک غیر شادی شدہ مرد نے مجھ سے کہا کہ ’میری خواہش ہے کہ میری ہونے والی بیوی کنواری ہو۔‘

اس نے مجھے بتایا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو میں اپنی ہونے والی بیوی پر دھوکہ دینے کا شک کروں گا۔ یہ سوڈان میں ایک بہت عام رویہ ہے جہاں مرد یہ توقع کرتے ہیں کہ شادی سے قبل خواتین ’کنواری‘ ہونی چاہیں۔

پھر بھی ایف جی ایم کے خلاف مہم چلانے والے پرامید ہیں کہ معاملات بدل جائیں گے۔

کیونکہ گذشتہ ماہ حکومت نے ایک سخت قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں خواتین کے عوامی مقامات پر برتاؤ اور لباس جس میں پتلون پہننا بھی شامل تھا پر پابندی تھی۔

اس قانون کو سابق حکمران عمرالبشر نے اپنے 30 سالہ اقتدار کے دوران متعارف کرایا گیا تھا۔ جنھیں رواں سال کے آغاز میں عوامی انقلاب کے بعد ایک بغاوت میں صدر کے عہدے سے معزول کر دیا گیا تھا۔

اس قانون کے تحت حکام کے پاس یہ اختیارات تھے کہ وہ یہ کنٹرول کر سکیں کہ خواتین کس طرح کا لباس پہنتی ہیں، وہ کس سے بات کرتیں اور ملتی ہیں اور ان کے پاس کس طرح کی ملازمت ہے۔

اور اگر کوئی خاتون اس قانون کی خلاف ورزی کرتی تو اسے کوڑے مارنے یا غیر معمولی حالات میں سنگسار اور یہاں تک کہ پھانسی کی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوڈان سے ایف جی ایم کے خاتمے کے لیے ایک مہم گروپ ’این لین‘ کی بانی ناہید توبیہ کا کہنا ہے کہ نوجوان خواتین آج اپنے والدین کی نسل کے مقابلے میں ’زیادہ ترقی یافتہ‘ ہیں۔

’وہ ہیجانی کیفیت میں ہیں، وہ محسوس کرتیں ہیں کہ انھیں جنسی تعلق رکھنے کا حق ہے لیکن انھیں خود کو دوبارہ ٹانکے لگوا کر یا حجاب پہن کر بھی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔‘