پاکستان

سپریم کورٹ بار کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعادہ

Share

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیے گئے معاملے کی سماعت جہاں ایک اہم موڑ پر آگئی ہے وہیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ یہ ریفرنس غیر قانونی ہے۔

 رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر ایک قرارداد 6 جون کو اسلام آباد میں ایس سی بی اے کی ایگزیکٹو کمیٹی کے 22 ویں اجلاس کے دوران منظور کی گئی جس کی صدارت ایس سی بی اے کے صدر سید قلب حسن نے کی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے معاملے میں وفاقی حکومت کی جانب سے پیش ہورہے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت اور عدالت عظمیٰ میں درخواستوں پر سماعت میں حکومت کی بدنیتی واضح طور پر ظاہر ہوگئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے اجلاس نے یہ بھی طے کیا کہ ایس سی بی اے عدلیہ کی سالمیت اور آزادی کا تحفظ کرے گی اور اس معاملے کے منطقی انجام تک جسٹس عیسیٰ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہے گی۔

علاوہ ازیں ایک متعلقہ پیشرفت میں ایک اور درخواست سپریم کورٹ کے سامنے دائر کی گئی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو برخاست کرنے کی استدعا کی گئی۔

سپریم کورٹ کے وکیل ارشاد علی چوہدری نے اپنی درخواست میں 2010 کے افتخار محمد چوہدری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی سپریم کورٹ کے جج کے خلاف مواد جمع کرنے سے پہلے معلومات یا شکایت کو وزیر اعظم اور صدر کے سامنے لازمی رکھا جائے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ جج کی مبینہ بدانتظامی کے سلسلے میں اپنی رائے قائم نہ کرتے ہوئے صدر نے مبینہ طور پر آئین کے آرٹیکل 209 (5) کی خلاف ورزی کی۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اسی طرح وزیر اعظم نے 2010 کے افتخار محمد چودھری کیس کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی کی کیونکہ انہوں نے صدر مملکت کی جانب سے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے سے قبل اپنی رائے قائم نہیں کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔