فیچرزہفتہ بھر کی مقبول ترین

سہاگ رات:’جنسی تعلق اہم ہے، جلدی یا دیر اہم نہیں‘

Share

’میں اپنے شوہر کے سامنے چیختی رہی کہ وہ رک جائیں مگر انہوں نے زبردستی سیکس جاری رکھا، وہ رات میری زندگی کی سب سے تکلیف دہ رات تھی۔‘

حبیبہ (فرضی نام) کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کا نام ظاہر ہو، لیکن وہ اپنی کہانی اس لیے سنانا چاہتی ہیں کہ اس کے ذریعے کئی نئے جوڑے سمجھ سکیں گے کہ پہلا سیکس ہمیشہ رومان پرور نہیں بلکہ بعض اوقات انتہائی تکلیف دہ مرحلہ بھی ہو سکتا ہے۔

حبیبہ کی شادی تین سال قبل ان کے کزن سے ان کی پسند اور خاندان کی رضامندی سے ہوئی تھی۔

‘منگنی کے بعد ہم ہر موضوع پر بات کرتے تھے یہاں تک کہ سیکس اور اپنے بچوں سے متعلق منصوبہ بندی بھی کرتے۔ ہم نے کئی بار پورن ویڈیوز پر بھی بحث کی اور یہ ویڈیوز شیئر بھی کیں۔ یعنی مجھے ایسا لگتا تھا کہ میری اہنے منگیتر سے دوستی ہے تو ہمارے درمیان سیکس مشکل نہیں ہو گا’۔

حبیبہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر بھی اس وقت یہی سمجھتے تھے کہ پہلی بار سیکس کا سب سے مشکل مرحلہ ‘ہائمن’ یا پردۂ بکارت کا پھٹنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے خاتون درد محسوس کرتی ہے۔

’ہم دونوں سمجھتے تھے کہ شاید یہ درد چند سیکنڈز میں ختم ہو جاتا ہے۔ میرے شوہر کو شادی کے دن ان کے شادی شدہ دوستوں اور کزنز نے بھی یہی بتایا تھا کہ تم درد کے بارے میں نہ سوچنا، وہ تو قدرتی ہے، بس تمہیں ہر صورت سیکس کرنا ہے’۔

حبیبہ کہتی ہیں کہ شادی کے دن انھیں خوشی کے ساتھ اس بات پر غصہ تھا کہ وہ اپنے گھر سے دور جا رہی ہیں اور اس کے ساتھ کسی مرد کے ساتھ سیکس کا خوف بھی،’یہ سب کچھ مل کر مجھے تھکا رہا تھا اور میں چاہتی تھی کہ سب جلدی ختم ہو جائے’۔

انھوں نے بتایا کہ ’شادی کی رات سیکس کے وقت مجھے درد شروع ہوا اور چند ہی لمحوں میں یہ ناقابل برداشت ہو گیا، اب میں اپنے شوہر کو روکتی رہی، یہاں تک کہ میں نے چیخنا شروع کر دیا۔ ہم نے دیکھا کہ میرا بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے، ہم نے انتظار کیا۔ مگر درد ختم ہوا نہ ہی خون بہنا۔ خون اس قدر بہہ رہا تھا کہ مجھے ہسپتال جانا پڑا’۔

شادی

حبیبہ کو ان کے شوہر اور ساس ہسپتال لے کر گئے، جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے ’وجائنا‘ کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے خون بہہ رہا ہے اور ان کا ’وجائینل ٹریک‘ اس قدر تنگ ہے کہ علاج کے بغیر سیکس نہیں ہو سکے گا۔

حبیبہ بتاتی ہیں کہ وہ بہت شرمندہ تھی اور انھیں لگ رہا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہیں۔ ’خاندان میں سبھی کو یہ بات پتا چل گئی تھی، „تاہم میرے شوہر اور ساس نے میری بہت مدد کی اور سمجھایا کہ یہ میرا قصور نہیں ہے’۔

ڈاکٹر نے کچھ سکینز اور اندرونی الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد انھیں بتایا کہ ان کے ’ہائمن ٹشوز‘ موٹے ہیں جس کی وجہ سے سیکس میں مشکل پیش آئی ہے۔ اس کیفیت کو ہائپرٹرافائیڈ کہا جاتا ہے۔

ہائپرٹرافائیڈ کنڈیشن میں ہائمن میں سوراخ تو ہوتا ہے مگر اس بافت یا ٹشو کی موٹائی مختلف تہوں کی وجہ سے اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ بعض معاملات میں معمولی سرجری کے ذریعے ہی اس کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق ایسی صورتحال میں اگر مرد زبردستی سیکس کی کوشش کرے تو وجائنا کے ٹریک کو نقصان پہنچتا ہے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ایسی وجائنا جو کہ سیکس کے لیے تیار نہ ہو یا ایسی خواتین جنھیں ہائپرٹرافائیڈ ہو، انھیں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شادی

حبیبہ کی سرجری کی گئی اور انھیں ‘ڈائلیٹرز’ دیے گئے جنھیں ایک ماہ تک وجائینل ٹریک کھولنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایک ماہ بعد ڈاکٹرز نے انھیں بتایا کہ اب وہ ازدواجی تعلق قائم کر سکتی ہیں۔

‘مگر مجھے شدید خوف تھا، میرا پہلا تجربہ اس قدر برا تھا کہ میں کسی صورت سیکس کے لیے تیار نہیں ہو پاتی تھی۔ یہ خوف دُور ہونے میں کچھ وقت لگا۔’

ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟

لاہور سے تعلق رکھنے والی اینڈرولوجسٹ اور سیکسالوجسٹ ڈاکٹر ثمرہ امین چودھری کہتی ہیں کہ بعض اوقات خواتین کا جینیٹل ٹریک اس قدر تنگ ہوتا ہے کہ جنسی عمل خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ حبیبہ کے ساتھ ہوا۔

’زبردستی سیکس کیا جائے گا تو اسے خاتون کے ویجائینل ٹریک میں چیرپھاڑ ہو گی جو کہ غیرمعمولی بات ہے اور شدید تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ اسے ٹانکے لگانے پڑتے ہیں، زخم رہ جاتے ہیںاور خاتون کی آئندہ ازدواجی زندگی کے لیے کئی مسائل جنم لیتے ہیں’۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی کامیاب شادی یا رشتے کے لیے جسمانی تعلق سے پہلے ذہنی ہم آہنگی ضروری ہے اور یہی رشتے کی مضبوطی کی بنیاد ہے۔

ان کے مطابق مردوں اور عورتوں ددنوں کو ہی مسائل پیش آتے ہیں اور ان سب مسائل کا علاج بھی ممکن ہے۔

شادی

‘ایک لڑکا اور لڑکی جو 25، 30 سال تک اس قسم کے کسی تعلق میں نہیں رہے، ان کی بہت سی فینٹسیز ہیں، انھوں نے فلموں میں، ٹی وی پر دیکھا ہوا ہے تاہم انھیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک غیرحقیقی دنیا ہے اور یہ سب ویسے نہیں ہوتا۔ پہلے جوڑا آپس میں انسیت پیدا کرے، دوستی بڑھائے، ذہنی ہم آہنگی پیدا کرے اور اس کے بعد بتدریج جسمانی ہم آہنگی پیدا کرے’۔

وہ کہتی ہیں ‘سیکس زبردستی نہ کریں اور یہ ولیمہ حلال نہیں ہو گا جیسی دقیانوسی باتوں سے باہر نکلنے کا وقت ہے’۔

مرد کی پرفارمنس اینگزائٹی

ڈاکٹر ثمرہ کہتی ہیں کہ خواتین کے ساتھ ساتھ مرد کی نفسیات کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق مرد کو شدید ‘پرفارمنس اینگزائٹی’ ہوتی ہے۔

‘پہلی بار سیکس کے وقت جس قدر کارکردگی کا دباؤ مرد پر ہوتا ہے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، وہ سوچتا ہے کہ کیا میں یہ سب کر پاؤں گا یا نہیں۔ اس پر خاندان کا دباؤ ہوتا ہے، دوستوں اور بھائیوں کا دباؤ ہوتا ہے یا پھر وہ خود اپنی ہی انا کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ یہ بات لڑکی کو پتا ہونی چاہییے کہ لڑکے پر ایسا دباؤ ہوتا ہے’۔

وہ کہتی ہیں کہ اس معاملے میں مرد کی کاؤنسلنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اسے یہ سمجھنا چاہییے کہ اگر یہ عمل تکلیف دہ ہے تو اسے انتظار کرنا چاہییے۔

‘مرد کو بتانا ہے کہ عورت ایک نازک صنف ہے، یہ اس کا پہلا تجربہ ہے اور یہ یقین جانیں کہ ایک خاتون کے لیے یہ بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ مرد کو واضح طور پر سمجھنا ہو گا کہ یہ ہرگز مردانگی دکھانے کا ذریعہ نہیں ہے’۔

نفسیاتی خوف کا شکار خواتین

ڈاکٹر ثمرہ امین چودھری کے پاس ایسے مرد اور خواتین مریض آتے ہیں جنھیں اپنی ازدواجی زندگی میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

ہسپتال

وہ کہتی ہیں کہ عام طور پر خواتین میں درد اور تکلیف کا خوف بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جس کی ایک وجہ تو انھیں بار بار یہ سننے کو ملتا ہے کہ سیکس ایک تکلیف دہ عمل ہے جبکہ بعض اوقات شادی کے بعد شروع کے دنوں میں وجائنا کے زخمی ہونے جیسا حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔

‘خواتین میں رہ جانے والا خوف بعض اوقات کاؤنسلنگ سے بھی ختم نہیں ہو پاتا۔ میرے پاس ایسے کیسز بھی آئے ہیں جن میں شادی کے بعد آٹھ سال تک جنسی تعلق قائم نہیں ہوا۔ اس کی وجہ صرف ایک تھی کہ خاتون کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا۔ کیوں خاتون ڈری؟ خاص طور پر زخم یا کوئی پیچیدگی کی صورت میں نفسیاتی طور پر اگر ڈر بیٹھ گیا تو خاتون اس تعلق سے کبھی لطف اندوز نہیں ہو سکتی۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ پہلی بار سیکس کے دوران درد ہونا بالکل نارمل ہے۔ اگر یہ قابل برداشت نہ رہے تب ڈاکٹر سے بات کرنی چاہیے۔

‘خواتین کو میں بتاتی ہوں کہ تھوڑا درد تو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ڈائلیٹرز موجود ہیں جن کے استعمال کا سب کو علم ہونا چاہیے۔ ان سے شادی کے بعد بتدریج سیکس کے لیے ٹریک کو کھولا جاتا ہے’۔

ڈائلیشن کیا ہے؟

ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ڈائلیٹرز کے ذریعے وجائنل ٹریک کو بتدریج کھولا جاتا ہے تاکہ سیکس ممکن ہو سکے اور کسی قسم طبی ایمرجنسی نہ ہو۔

ڈاکٹر ثمرہ کے مطابق شادی کے بعد ڈائیلیٹرز استعمال کرنے سے ایک ماہ سے کم وقت میں ہی وجائنا سیکس کے قابل ہو جاتی ہے، جبکہ اس دوران شوہر کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی کا جذباتی طور پر ساتھ دے’۔

ہسپتال

لبریکیشن

ڈاکٹرز کے مطابق پہلی بار انٹرکورس اس لیے بھی تکلیف دہ ہوتا ہے کہ مختلف دباؤ اور درد کے خوف کے باعث وجائنل ٹریک میں لبریکیشن کم ہوتی ہے۔

‘اسی لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی میں پہلی بار یہ تعلق قائم کرنے کے موقع ہر اس قدر ہم آہنگی ہو کہ انھیں کوئی خوف نہ ہو جبکہ مارکیٹ میں مختلف لبریکینٹس دستیاب ہیں جنھیں استعمال کیا جانا چاہیے ‘۔

مشت زنی حقیقی ازدواجی تعلق کی راہ میں رکاوٹ؟

ڈاکٹر ثمرہ امین سمجھتی ہیں کہ ‘بہت زیادہ پورن ویڈیوز دیکھنے اور مشت زنی کرنے والے مرد اور خواتین دونوں ہی کو ازدواجی زندگی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کے خیال میں ‘اب یہ ایک بڑی وجہ بن رہی ہے کہ شادیاں قائم نہیں رہ پاتیں’۔

وہ کہتی ہیں کہ ایسے جوڑے بھی آتے ہیں جو مشت زنی کے باعث کہتے ہیں کہ انھیں اپنے ساتھی میں کشش محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے لیے بھی ادویات اور نفسیاتی علاج کیا جاتا ہے، جبکہ ہم ایسے جوڑوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پورن ویڈیوز دیکھنا چھوڑ دیں اور صحت مند تعلق قائم کریں۔‘

ڈاکٹر ثمرہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض اوقات کچھ دیگر مسائل بھی پہلی بار جنسی تعلق قائم کرنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں والدین کا کردار بھی اہم ہے۔ ’اپنے بیٹے اور بیٹی کو سمجھائیں کہ یہ تعلق پیدا ہو جائے گا۔ جنسی تعلق قائم ہونا اہم ہے لیکن اس کا جلدی یا دیر سے ہونا اہم نہیں۔

’اگر یہ صورتحال ہے کہ کئی ماہ یا ایک سال ہوگیا ہے اور جنسی تعلق قائم نہیں ہو پایا تو پھر ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس مسئلے کا حل موجود ہے اور ڈاکٹر آپ کو بتائیں گے کہ ٹریک کو ڈائیلیٹ کیسے کرنا ہے۔ اسی طرح مرد کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے جیسے سرعت انزال یا ایستادگی تو بھی ڈاکٹر کے پاس آئیں۔ ان کا علاج ایک ماہ میں مکمل ہو جاتا ہے اور یہ ایسی وجوہات ہرگز نہیں کہ شادیاں ہی توڑ دی جائیں’۔