نقطہ نظر

سینٹرل جیل ساہیوال کے انتظامات اور مسائل

Share
“عابد حسین مغل”

برصغیر میں 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزنے مغل حکومت کا تختہ الٹ کرپورے برصغیر پر قبضہ کرلیا، انگر یزکو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا پنجاب میں کرنا پڑا۔ گوگیرہ اس وقت صدرمقام تھا جہاں ڈپٹی کمشنر سمیت تمام ضلعی افسران بیٹھتے تھے رائے احمد خاں کھرل اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں گوگیرہ کے ڈپٹی کمشنر لارڈبرکلے کی ہلاکت اورمجاہدین کی باربار مزاحمت نے انگریزسرکار کو گوگیرہ چھوڑنے پر مجبور کردیا انگریز سرکارنے گوگیرہ چھوڑ کر منٹگمری (ساہیوال) کو اپنا ضلع مقام بنانے کا فیصلہ کیا۔ علاقہ میں انگریز سرکار کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو قید کرنے کے لیے 1873کومنٹگمری سینٹرل جیل بنائی گئی۔ 11ستمبر 1967کو منٹگمری کا نام تبدیل کرکے ساہیوال رکھ دیا گیاجس کا افتتاح اس وقت کے کمانڈرانچیف پاکستان آرمی جنرل موسیٰ خاں نے کیا تو جیل کا نام بھی منٹگمری سے ساہیوال سینٹرل جیل میں تبدیل ہوگیا۔ 147سالہ تاریخ رکھنے والی سینٹرل جیل ساہیوال میں ملک کے بڑے بڑے نامور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ حبیب جالب اور فیض احمد فیض جیسی ادبی شخصیات جیل میں اپنی زندگی کے دن گزار چکے ہیں۔ تبدیلی سرکار نے وزارت جیل خانہ جات کا قلم دان دنیا پور سے رکن صوبائی اسمبلی چوہدری زوار حسین وڑائچ کو دے دیا۔ چوہدری زوار حسین وڑائچ کے خاندان کا اصل تعلق تو ضلع گجرات سے ہے، اللہ کی ذات نے ان کوبھر پور قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، وزیر جیل خانہ جات کاچارج ملتے ہی انہوں نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب مرزا شاہد سلیم بیگ کے ہمراہ جیلوں کے ہنگامی دورے کیے تاکہ قیدیوں کے مسائل کا علم ہو سکے انہوں نے نہ صرف قیدیوں کے مسائل کی نشان دہی کی بلکہ جیل ملازمین کے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دی ہے اور اس سلسلہ میں جیل مینوئل میں ضروری تبدیلیوں کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ روز صوبائی وزیر جیل خانہ جات چوہدری زوار حسین وڑائچ، انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب مرزا شاہد سلیم بیگ، ڈی آئی جی ساہیوال ریجن کامران انجم، چیئرمین جیل کمیٹی راؤ عمردراز خاں کے ہمراہ سینٹرل جیل ساہیوال کا وزٹ کرنے کا موقع ملا،سینئرسپرنٹنڈنٹ جیل منصور اکبر نے استقبال کیا جیل اہلکاروں کی طرف سے سلامی دی گی، سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل ساہیوال منصور اکبراور ان کی ٹیم نے ایک ایک کرکے تمام شعبہ جات کا وزٹ کروایا، انتظامیہ نے147سالہ جیل کے مختلف شعبہ جات کو ایسے تیار کیا ہو ا تھا جیسے وہ چند سال ہی پرانے ہوں، زیادہ تر جیل کی بیرکیں پرانی ہوا دار تھیں،صفائی کے بہترین انتظامات نظر آئے،جیل میں قرشی دوا خانہ کا کام بھی اپنی مثال آپ ہے آئی جی مرزا شاہد سلیم بیگ نے بتایا کہ قرشی دوا خانہ والوں نے پنجاب کی تمام جیلوں میں اپنی ڈسپنسریز قائم کررکھی ہیں جس میں ان کے 2ملازمین بھی موجود ہوتے ہیں اور قیدیوں کو مفت ادویات فراہم کرتے ہیں،جیل میں خواتین قیدیوں کے بچوں کے لیے بنایا گیا سکول اور اس کے انتظامات بھی مثالی تھے،ہسپتال میں داخل قیدیوں سے ملاقات کی گئی، وزیر جیل خانہ جات کی قیدیوں کے ساتھ ملاقات کے موقع پر کچھ قیدیوں نے اپنے مسائل کا ذکر کیا جس میں زیادہ ترمسائل قیدیوں کو ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کرنے سے متعلقہ تھے۔ قیدیوں کے کھانے کے انتظامات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ جیل میں مختلف جگہ پر شدید دھوپ میں کھڑے جیل وارڈن کی سخت ترین ڈیوٹی بھی قابل تحسین تھی۔دورے کے اختتام پر خواتین جیل وراڈنز نے منسٹر صاحب اور آئی جی سے اپنے مسائل پر بات کرنے کی اجازت مانگی۔ایک خاتون وراڈن نے اپنی ساتھی وراڈنز کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ 14سال سے نوکری کررہی ہوں لیکن ابھی تک پروموشن نہیں مل سکی،کئی بار فائل مکمل کرکے محکمہ کو دی ہے لیکن ترقی نہیں ہوسکی اس کے ساتھ دیگر محکمانہ مسائل کا بھی ذکر کیا جن کو سننے کے بعد منسٹر صاحب نے خواتین وارڈنز کے مسائل کو فوری حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔سپرنٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں چوپدری زوار حسین وڑائچ، مرزا شاہد سلیم بیگ اور ڈی آئی جی ساہیوال ریجن کامران انجم سے جیلوں کے مسائل پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جیل ملازمین کی تنخواہوں، سکیل اپ گریڈیشن اور رہائشوں کے مسائل پر خصوصی روشنی ڈالی، جیل میں قیدیوں کیاا ہلکاروں سے شکایات اپنی جگہ ہیں لیکن ماضی میں جیل میں قید یوں کے مسائل پر تو ہر حکومت نے توجہ دی لیکن کبھی کسی نے جیل ملازمین کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ چوہدری زوار حسین وڑائچ واحد وزیر ہیں جو جیلوں میں مسائل کی اصل وجہ ملازمین کے بے شمار درینہ مسا ئل کو حل کے لیے کوشاں ہیں تاکہ مستقل طور پر مسائل کا خاتمہ ہوسکے مناسب تنخواہ اور سہولیات کے بغیر سینٹرل جیل ساہیوال میں بہترین انتظامات پر سپر نٹنڈنٹ جیل منصور اکبر اور ان کی ٹیم کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے مسائل اس وقت ہی حل ہوں گے جب جیل خانہ جات کے ملازمین کے بنیادی مسائل کو حل کیا جائے گا۔