پاکستان

سی سی پی او لاہور کے بیان پر تنقید: ’کیا خاوند کی اجازت کے بغیر سفر کرنے والی خاتون سے ریاست بری الذمہ ہے؟‘

Share

لاہور سیالکوٹ موٹروے ریپ واقعے کے بعد سے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تعینات پولیس کے سربراہ عمر شیخ مسلسل خبروں میں ہیں، جس کی بڑی وجہ ان کے اس کیس کے حوالے سے میڈیا کو دیے گئے بیانات ہیں۔

اس حوالے سے ان کا ایک حالیہ بیان پھر سرخیوں میں ہے، یہ بیان کیا ہے اس پر بعد میں بات کی جائے گی پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے منگل (آج) کے روز دیے گئے اس فیصلے کا ذکر ضروری ہے جس میں عدالت نے عمر شیخ سمیت متعدد اعلیٰ سرکاری افسران کی اگلے گریڈ میں پروموشن کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔

نامہ نگار بی بی سی شہزاد ملک کے مطابق عمر شیخ سمیت متعدد بیووکریٹس نے سنٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کرتے ہوئے اگلے گریڈ میں ترقی دینے کی استدعا کی تھی۔ درخواست گزار افسران میں ایف بی آر، کسٹمز، پولیس اور سنٹرل بورڈ آف ریونیو کے افسران شامل ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سنٹرل سلیکشن بورڈ کی طرف سے متعدد بیورو کریٹس کو اگلے گریڈ میں ترقی نہ دینے کے خلاف دائر درخواستوں پر منگل کو مختصر فیصلہ سنایا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سول سرونٹ پروموشن رولز 2019 درست انداز میں فریم کیے گئے ہیں۔

پاکستان

عدالت نے سول سرونٹ پروموشن رولز 2019 کے خلاف درخواستیں بھی مسترد کر دیں۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کی پروموشن سے متعلق سفارشات غیر جانبدارانہ اور غیر متعصب ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم سلیکشن بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں گریڈ 20 کے افسران کو اگلے گریڈ میں ترقی دینے کی منظوری دیتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے سلیکشن بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں ہی سی سی پی او لاہور عمر شیخ سمیت متعدد بیوروکریٹس کی اگلے گریڈ میں ترقی روک دی تھی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ اس وقت گریڈ 20 کے افسر ہیں اور ان کی اگلے گریڈ میں ترقی کے بارے میں خفیہ اداروں کی طرف سے جو رپورٹس دی گئی تھیں وہ تسلی بخش نہیں تھیں۔

سی سی پی او کی اگلے گریڈ میں ترقی کے بارے میں متعدد اعلیٰ پولیس افسران سے بھی رائے طلب کی گئی تھی جو مثبت نہیں تھی۔

ان پولیس افسران میں سابق آئی جی پنجاب پولیس شعیب دستگیر بھی شامل ہیں اور پولیس ذرائع کے مطابق سابق آئی جی پنجاب خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں مذکورہ پولیس افسر کی بطور سی سی پی او لاہور تعیناتی پر خوش نہیں تھے۔

پنجاب

عمر شیخ کا حالیہ بیان

یاد رہے موٹر وے ریپ واقعے کے بعد میڈیا کو دے گئے بیان میں عمر شیخ کا کہنا تھا کہ ’تین بچوں کی ماں اکیلی رات گئے اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں نکلے تو اسے سیدھا راستہ لینا چاہیے ناں؟ اور یہ بھی چیک کرنا چاہیے کہ گاڑی میں پیٹرول پورا ہے بھی یا نہیں۔۔۔‘

اس بیان کے بعد بھی ان پر خاصی تنقید کی گئی تھی جس کے نتیجے میں انھیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قوائد و ضوابط اور استحقاق کے ارکان سے معافی بھی مانگنا پڑی تھی۔

گذشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں موٹر وے زیادتی کیس پر سی سی پی او لاہورعمر شیخ نے بریفنگ دی۔

بریفنگ کے دوران عمر شیخ کا کہنا تھا کہ ’خاتون خاوند کی اجازت کے بغیر لاہور گئی‘ جس پر سینیٹر کیشوبائی نے اُن پوچھا کہ ’کیا یہ متاثرہ خاتون نے انھیں بتایا ہے؟‘

عمر شیخ نے جواب دیا کہ ’نہیں، یہ میرا اندازہ ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ردِعمل

اب سوشل میڈیا پر سی سی پی او لاہور کا یہ حالیہ اندازے پر مبنی بیان زیرِبحث ہے اور وہ ایک پھر تنقید کی زد میں ہیں۔

ٹویٹ

کئی صارفین کا کہنا تھا کہ سی سی پی او کو چاہیے کہ اس کیس کے مرکزی ملزم کی گرفتاری تک میڈیا کو بیان دینے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دیں۔

سحر شہنواز نامی صارف پوچھتی ہیں ’کیا خاوند کی اجازت کے بغیر سفر کرنے والی عورت سے ریاست بری الذمہ ہے۔‘

اسی بارے میں محمد ارسلان اسد لکھتے ہیں ’یہ ان کا آپس کا معاملہ ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ خاتون خاوند کی مرضی کے بنا کہیں جائے تو آپ نے سکیورٹی نہیں دینی؟‘

ظلہ ہما پوچھتی ہیں ’آپ نے مجرم پکڑنا ہے یا خاتون کے گھر سے نکلنے کی وجہ؟‘

عمر شیخ

شفیق اختر لکھتے ہیں ’گویا سی سی پی او لاہور ابھی تک ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہو سکے کہ موٹروے زیادتی کیس کی مظلوم عورت پر ظلم کرنے والے ڈاکوؤں کو ظالم اور اپنے محکمے کی نااہلی اور غفلت کو تسلیم کر سکیں۔‘

سی سی پی او کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے ایک صارف یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ ’کیا سی سی پی او ہمیں بخش نہیں سکتے؟‘

شاہ اویس نورانی لکتھے ہیں ’ہماری پولیس کی کارکردگی یہ ہے کہ سی سی پی او روزانہ متاثرہ خاتون پر الزام جڑ دیتے ہیں۔‘

یاسر مرزا سی سی پی او کے بیان پر طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں ’سی سی پی او لاہور کے مطابق اگر کوئی بیوی اپنے خاوند کی رضامندی کے بغیر کہیں جانے کے لیے گھر سے باہر نکلے اور اس خاتون کا باہر کوئی ریپ کر دے تو عورت کا خاوند کو بتائے بغیر گھر سے نکلنے کا جرم ریپ سے بڑا ہے۔ پہلے عورت کو سزا ملے گی اس کے بعد اگر ریپسٹ ملا تو اس کو۔ صحیح ہو گیا۔‘

ایک اور صارف پوچھتی نظر آئیں کہ ’سی سی پی او کا اگلا بیان کیا ہو گا کہ خاتون خاوند کی اجازت کے بغیر سانس لیتی تھی؟‘