منتخب تحریریں

شبِ انتظار کا اہتمام

Share

نیو ائیر شام کی اصطلاح استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے پاکیزہ معاشرے میں کچھ لوگوں کو اس پہ اعتراض ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اشتعال سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ عرض صرف یہ کرنی ہے کہ جو انتظامات سال کے آخر کے لیے ہم جیسے گناہگار لازمی سمجھتے ہیں‘ کسی نہ کسی طریقے سے ہو ہی گئے۔ اور نہایت خوش اسلوبی سے۔ یہ ہو گیا تو اس کے بعد آئے جو عذاب آئے۔ ہماری بلا سے کہ پنجاب میں انتظامی تبدیلیاں کیا ہوئی ہیں اور اِن کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ یا دوسرے سیاسی محاذوں پہ کیا ہو رہا ہے۔ ان موضوعات پہ سر کھپائیں اور لوگ۔ ہمیں اِن سے کوئی سروکار نہیں۔
البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ انتظامات کیلئے لاہور جانا پڑا۔ بھلا ہو وہاں کے اُن مہربانوں کا جنہوں نے مطلوبہ روحانی تقاضے پورے کیے۔ بس کام ہو گیا اور ہم قدرے تسلی سے چکوال واپس لوٹے۔ اَب نہ کوئی فکر نہ فاقہ۔ اُس شام آرام سے آگ کے سامنے بیٹھیں گے۔ گزرے سال کو یاد کریں گے۔ کچھ ارمان دل میں ضرور اُٹھیں گے کہ کون سے مواقع ہاتھ سے جانے دئیے یا نہ چاہتے ہوئے چلے گئے۔ یہ خیال بھی ضرور آئے گا کہ زندگی کا ایک اور سال بیت گیا۔ ایک وقت تھا جب اس شام شور شرابہ اچھا لگتا تھا۔ لیکن اب نہیں۔ بات تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یار دوستوں کی ضرورت اُس شام محسوس نہیں ہوتی۔ مرد حضرات کی محفل اور قربت تقریباً زہر لگتی ہے۔ دن کو ٹھیک ہے، سیاسی گپ شپ چلے یا کچھ اور موضوع چھیڑے جائیں۔ شام کے سائے گہرے ہوتے ہی ایسی گفتگو دل کو بوجھل کر دیتی ہے۔ سال کی آخری شب ہو‘ مطلوبہ انتظامات بھی ہوں اور ساتھ صرف دانشورانِ کرام جیسے لوگ بیٹھے ہوں‘ ایسے تصور سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔
جس قسم کا معاشرہ ہم نے تشکیل دیا ہے اُس میں بڑا اور کلیدی انتظام وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا۔ بڑا انتظام ہو جائے تو چھوٹے لوازمات پورے ہو ہی جاتے ہیں۔ صرف اتنی احتیاط لازم ہے کہ سب کچھ وقت پہ طے کر لیا جائے۔ سال کی آخری شب دلوں میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور ہر طرف تھوڑی سی بے صبری نظر آنے لگتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہر چیز کی کچھ نہ کچھ تیاری وقت سے پہلے کر لی جائے۔ زیادہ افراتفری میں سال کی آخری شب گزارنا کوئی زیادہ عقل مندی نہیں۔
ایک بات البتہ واضح ہے۔ جس قسم کا معاشرہ ہم تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ اُس میں نیک ارادے بھی ہوں تو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے اُلٹے طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ یعنی ٹھیک کام بھی کرنا ہو تو راستہ اُلٹا لینا پڑتا ہے۔ معاشرہ ہی ایسا بن چکا ہے کہ دو نمبری اور اُلٹے راستے اُس کے لازمی جزو بن گئے ہیں۔ سیدھے راستے سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ ایسی دو نمبری کو منافقت کا نام نہیں دینا چاہیے۔ یہ سرا سر ضرورت کا کرشمہ ہے جو دو نمبری پہ مجبور کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اصل نظریہ ضرورت یہی ہے، آئینی پیچیدگیوں سے کہیں بالا تر۔
روزِ ازل سے انسانی فطرت میں کچھ روشیں اور رجحانات نمایاں پائے جاتے ہیں۔ ان روشوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ کوئی بادشاہت، کوئی ریاست، کوئی اعلیٰ اقدار کا حامل نسخہ یا سانچہ انسانی فطرت کے اِن بنیادی احساسات کو ختم نہیں کر سکا۔ اِس لیے وہ نا سمجھی اور بند ذہنوں پہ مبنی معاشرے ہی ہوتے ہیں‘ جو انسانی فطرت کے بنیادی تقاضوں کو مٹانے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں۔ سمجھدار معاشرے اِن احساسات کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کرتے۔ اُس کی بجائے ان کو ریگولیٹ (regulate) کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی ایسا ماحول اور ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں کہ انسانی فطرت کو اظہار کا موقع بھی ملے اور وہ مہذب دائروں میں بھی رہے۔ تہذیب اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انسان جو چاہے کرے لیکن دوسروں کی آزادی اور خواہشات کا احترام بھی کرے۔ یعنی میں اپنے گھر میں موسیقی سُننا چاہوں تو ضرور ایسا کروں لیکن آواز اتنی اُونچی نہ ہو کہ دوسروں کے لئے دردِ سر بن جائے۔ یہ اصول ہر عمل پہ لاگو سمجھنا چاہیے۔ یعنی میری آزادی وہاںختم ہو جہاں دوسروں کیلئے تکلیف کا پہلو سامنے آئے۔ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ یہاں تو اکثر نیکی اور پاکیزگی کا اظہار اِس انداز سے ہوتا … زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں… کہ دوسروں کیلئے وبال جان بن جاتا ہے۔
بہرحال ایسی نصیحتیں بالکل فضول ہیں۔ یہاں کسی نے نہ دلیل کو سُننا ہے نہ منطق کو خاطر میں لانا ہے۔ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ جو معاشرہ بن چکا ہے وہی رہے گا۔ آپ لاکھ تاویلیں دیں کہ کچھ نرمی آنی چاہیے، کچھ آسانیاں پیدا ہوں، اِن کا اثر کسی پہ نہیں پڑنا۔ لہٰذا تکیہ پھر دو نمبری پہ آ جاتا ہے کیونکہ بہت سی چیزوں کی تکمیل کیلئے کوئی قانونی راستہ ہم نے چھوڑا ہی نہیں۔
نتیجتاً یہ ایک دو دھاری معاشرہ نظر آتا ہے۔ چاروں اطراف پاکیزگی کی صدائیں۔ لیکن انسانی فطرت تو ٹلتی نہیں۔ غالب کی ہزاروں خواہشیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔ اس لئے بنیادی خواہشات کی تکمیل کیلئے نقاب پوشی ضرورت بن جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کا پردہ تو اپنی جگہ لیکن دیکھا جائے تو زیادہ گہرے پردوں کی ضرورت مردوں کو پڑتی ہے۔ واضح نقاب نہیں پہنے ہوتے لیکن ہر دم آنکھوں کی جنبش کو چھپانا پڑتا ہے۔ لبادہ کچھ اور اندر سے حقیقت کچھ اور۔
لیکن اتنا رونا بھی کیا۔ یہ ہمارا مقدر تھا کہ ہمارا معاشرہ ایسا ہی بنے۔ تقدیر کے فیصلے جھٹلائے نہیں جا سکتے۔ بنیادیں ہی ایسی تھیں کہ عمارت ایسی ہی کھڑی ہونی تھی۔ لہٰذا زیادہ حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ دو نمبری اور دوسرے راستوں پہ چلنے کی عادت اجتماعی عادات میں ڈھل چکی ہیں۔ لیکن اِسی پہ ہم نے گزارا کرنا ہے۔ اِس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کم از کم ہمارے جیتے ہوئے۔ لہٰذا دعا یہی کرنی چاہیے کہ دو نمبری میں آسانیاں پیدا ہوں۔ ہم اِس کا ارتکاب زیادہ خوبصورتی اور سلیقے سے کریں۔ اور روحانیت کے وہ راستے ڈھونڈیں جو ظاہراً بند نظر آتے ہیں۔
ہمارے مدّبر کیا کہتے ہیں کہ فلاں شعبے میں اصلاحات ہو جائیں۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کا ایک دل پسند قول بھولنا نہیں چاہیے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہ وہ حکمران کہتے تھے جن کے ہاتھ میں مطلق اختیارات تھے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘ لیکن بات ایسی ہے کہ دہرانے کے قابل ہے۔ ضیاء الحق کی پالیسیوں سے اثر انداز معاشرے کی ہم نے اصلاح کیا کرنی تھی، اُن کی وفات سے لے کر اب تک ملکی آبادی میں بارہ کروڑ نفوس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اُن کے مرنے پہ ہماری آبادی بارہ کروڑ تھی۔ ان تیس سالوں میں بارہ کروڑ کا اضافہ۔ کیا یہ چھوٹا کارنامہ ہے؟ لیکن یہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی فکر کس کو ہے۔
بہرحال جب ظاہر اور باطن کا فرق اتنا ہو جائے جتنا کہ ہم نے بنا دیا ہے تو معاشرے میں بیلنس یا اعتدال نہیں رہتا۔ جیسے انسانوں میں نفسیاتی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں‘ معاشروں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہی ہمارا حال ہے لیکن اِس کا کوئی علاج نہیں۔ وِکٹر ہیوگو (Victor Hugo) فرانس کے بہت بڑے لکھاری تھے۔ اُن کا ایک قول ہے کہ اِس سے زیادہ ہلا دینے والی کوئی چیز نہیں کہ کسی معاشرے کی تقدیر اٹل ہو اور بدلی نہ جا سکے۔ کیا ہمارا مقدر ایسا ہی ہے؟ اس سوچ سے خوف طاری ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ایسا سوچنا چھوڑ دیا۔ 31 دسمبر کی شام ہو گی اور ہم ہوں گے۔ قسمت اور ستاروں کی بات ہے۔ ستاروں نے ساتھ دیا تو شاید کچھ رونق بھی ہو جائے۔ نہیں تو آگ کے شعلوں میں گھورتے ہوئے سہگل کے گانے سُنیں گے اور آنے والے سال سے کچھ بیکار اُمیدیں وابستہ کر لیںگے… جیسا کہ ہر سال کرتے آئے ہیں‘ بغیر کسی ثمر یا نتیجے کے۔