منتخب تحریریں

شہباز شریف کا Dilemma اور 2018ء کے انتخابات؟

Share

تیسرا ہفتہ شروع ہو چکا‘ لیکن وہ کالم بحث کے لیے آج بھی تروتازہ ہے۔جو چیز زیر بحث ہے‘ وہ ریاستی امور میں طاقتور حلقوں کے کردار کے حوالے سے شہباز صاحب کا نقطہ نظر ہے‘ اور جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نئی حکومت سازی کے حوالے سے مقتدر حلقوں اور شہباز صاحب میں باہم سلسلہ جنبانی (برادرم خورشید ندیم نے جسے ” لرزہ خیز انکشاف ‘‘ کا عنوان دیا ہے) ۔
ادھر صحافتی حلقوں میں ان دو نامور صحافیوں کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں جاری ہیں جو شہباز شریف کے بقول انہیں اگلا وزیراعظم بنائے جانے کا پیغام لے کر آئے تھے اور طاقتور حلقوں سے ملا قاتوں میں کا بینہ کے نام تک فائنل ہو رہے تھے۔ لیکن ”بیانیے‘‘ کی وجہ سے نون لیگ کو اقتدار نہ مل سکا۔ اگرچہ شہباز شریف اس خیال کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کئی ایسی میٹنگز عمران خان کے ساتھ بھی ہوتی ہوں گی۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان دو صحافیوں میں ایک وہ ہیں جو ایک انگریزی اخبار کے مالک/ ایڈیٹر ہونے کے علاوہ ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شومیں مستقل مبصر ہیں۔ ان کے قریب ترین احباب اس کی تردید نہیں کرتے‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے ذریعے جو پیغام پہنچایا گیا وہ محض یہ تھا کہ ہم آپ کے مداح ہیں اور آپ کی زیر قیادت مسلم لیگ(ن) کے ساتھ کمفرٹیبل محسوس کریں گے۔ اس پیغام میں انتخابی نتائج کے حوالے سے کوئی یقین دہانی نہیں تھی۔
شہباز شریف سے منسوب ان باتوں کے حوالے سے مختلف ٹاک شوز میں‘ مسلم لیگ(ن) کے وابستگان اور ترجمان اپنی اپنی وضاحتیں پیش کرتے رہے‘ خود شہباز شریف نے دو ہفتے گزر جانے کے بعد اتوار کی شب ایک ٹی وی چینل سے مفصل انٹرویو میں اس حوالے سے اپنا مؤقف بیان کیا۔ خود سے منسوب ان باتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی باقاعدہ انٹرویو نہیں تھا‘ خود سہیل وڑائچ صاحب نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ ایک غیر رسمی گپ شپ تھی۔ شہباز صاحب کالم میں خود سے منسوب با توں کی تردید یا تصدیق کے چکرمیں نہیں پڑے‘ تاہم اس ٹی وی انٹرویو میں بھی انہیں اپنے اس مؤقف کے اظہار میں کوئی عار نہ تھی کہ دنیا میں خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں اپنا مقام بنانے کے لیے پاکستان میں تمام اداروں کو مل کرآگے بڑھنا ہو گا۔ یہاں میزبان کی طرف سے مقتدرہ کے لیے ان کی محبت کی بات پر انہوں نے وضاحت کی کہ میں نے محبت کا نہیں اچھے تعلقات کا لفظ استعمال کیا ہے… اچھے تعلقاتFor a cause۔ اور یہ پاکستان کی عظمت کا کاز ہے۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم ” شہباز‘ نیب آنکھ مچولی اور بیانیے کا مسئلہ‘‘میں ماضی میں مختلف مواقع پر شہباز صاحب کو مقتدر حلقوں کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کی پیشکشوں کا سرسری تذکرہ کیا تھا۔ شہباز شریف نے اس ٹی وی انٹرویو میں ان کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ صدر غلام اسحاق خان کے میاں محمد شریف (مرحوم) کے ساتھ واپڈا کی چیئر مینی کے دنوں سے دوستانہ تعلقات تھے۔ 1993ء میں ایوانِ صدر اور پرائم منسٹر ہاوس میں اختلافات کے دنوں میں صدر نے شہباز کو ایوانِ صدر بلایا اور کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ان کا چلنا مشکل ہو رہا‘ان کی جگہ آپ وزیراعظم بن جائیں جس پر انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر معذرت کرلی۔ پرویز مشرف کی طرف سے پیشکش کی گئی کہانی زیادہ دلچسپ ہے۔ شہباز صاحب کا کہنا تھا کہ وہ یہ راز کبھی افشا نہ کرتے‘ لیکن خود پرویز مشرف نے ایک ٹی وی انٹرویومیں یہ بات بتادی تھی‘ وزیراعظم نوازشریف اور پرویز مشرف میں تعلقات کشیدگی کی انتہا کو پہنچے تو مشرف نے شہباز شریف سے ملاقات میں کہا کہ نواز شریف کی جگہ آپ آجائیں ہم آپ کو مکمل سپورٹ دیں گے۔ شہباز شریف کے بقول ان کے لیے یہ بات حیران کن تھی‘ انہوں نے مشرف سے کہا کہ ہماری اپنی خاندانی اقدار ہیں‘ میں اپنے بھائی سے بے وفائی نہیں کر سکتا‘ البتہ میں یہ کر سکتا ہوں کہ آپ دونوں کو کھانے پر بلالوں اور یوں آپ باہم شکوے شکایات کا ازالہ کر لیں۔ پرویز مشرف نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ کولمبو سے واپس آجائیں‘ اس دوران وہ نوٹس بھی تیار کرلیں گے ‘لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی۔
شہباز شریف کے بقول‘ وزارت عظمیٰ کی تیسری پیشکش انہیں خود میاں نواز شریف نے‘سپریم کورٹ سے اپنی ناہلی کے بعد کی۔ میاں صاحب 28 جولائی 2017ء کوسپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے‘قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کے دس ماہ باقی تھے‘ تب شہباز صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ وہ لاہور میں میاں صاحب کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچ جاتے اور آٹھ‘ دس ہفتے کی اس درمیانی مدت کے لیے وزارتِ عظمی کا عبوری انتظام کر لیا جاتا‘ آخر ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز کے درمیان‘ چوہدری شجاعت حسین بھی تو 50 روز کے لیے وزیراعظم بن گئے تھے۔ یوں2013 ء والی اس اسمبلی میں شہبازشریف کو وزارتِ عظمیٰ کے آ ٹھ ماہ تو مل جاتے‘ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ انہیں پنجاب میں رہ کر زیر تکمیل منصوبوں کو مکمل کرنا چاہیے اور یوں قرعۂ فال شاہد خاقان عباسی کے نام نکل آیا۔جنہوں نے نواز شریف سے وفاداری کے ساتھ‘ وزارتِ عظمیٰ کے دس ماہ بڑے باوقارطریقے سے گزارے۔ دس ماہ کی وزارتِ عظمیٰ اور پھر چھ ماہ کی احتساب ادارے کی قید نے شاہدخاقان عباسی کا سیاسی قد کہاں سے کہاں پہنچا دیا‘ آج وہ مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کے بعد سب سے قد آور نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی کے سینئر نائب صدر بھی ہیں۔ لاہور میں نواز شریف کی خالی نشست پر ضمنی انتخابات میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ منتخب ہوئیں‘ لیکن لندن میں علالت کے باعث وہ حلف نہ اٹھا سکیں ۔ٹی وی انٹر ویو میں شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ وہ کسی سے کوئی ڈیل کر کے گئے تھے‘ نہ کوئی ڈیل کرکے لندن سے واپس آئے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میں بھائی کونہیں اس کے علاج کو چھوڑ کر آیاہوں۔ کورونا کی سنگین صورتحال کے باعث میں نے وطن واپس آنا ضروری سمجھا اور اس کے لیے نواز شریف سے باقاعدہ مشاورت اور اجازت حاصل کی۔
شہباز شریف کا Dilemmaکیا ہے؟ وہ اداروں میں میل جول کے حوالے سے اپنا خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں اور تازہ انٹرویو میں بھی اس کا اظہار کیا‘ لیکن وہ اپنے بھائی سے وفادار بھی ہیں۔ـکسے نہیں ہے‘تمنائے سروری لیکن… وزارتِ عظمیٰ سیاسی خاندانوں کے سپوتوں کا خواب ہوتا ہے۔ شہباز شریف بھی اگر یہ خواب دیکھتے ہیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات؟ لیکن بھائی سے بے وفائی کی قیمت پر اس خواب کی تعبیران کے لیے قابل قبول نہیں۔بات جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے حوالے سے شہباز شریف اور مقتدرہ میں معاملات سے شروع ہوئی تھی۔ اس حوالے سے سلمان غنی صاحب نے دنیا نیوز کے تھنک ٹینک میںایک اور بات بتائی‘ ان کے بقول انتخابات سے ڈیڑھ ماہ قبل وہ مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ شہباز شریف سے ملے‘ چوہدری نثار علی خاں بھی موجود تھے۔ شہبازصاحب نے کسی لاگ لپٹ کے بغیر کہنا تھا کہ آئندہ کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کا فیصلہ تو ہو چکا۔ اس پر سلمان غنی کاکہنا تھا‘ تو پھر آپ کیا کر رہے ہیں؟ شہباز صاحب کا جواب تھا: ہم اس کے باوجود الیکشن لڑیں گے اور پورے زور سے لڑیں گے۔
ٹی وی انٹر ویو میں شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ وہ کسی سے کوئی ڈیل کر کے گئے تھے‘ نہ کوئی ڈیل کرکے لندن سے واپس آئے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میں ملک میں کورونا وبا کی سنگین صورت ِ حال کے باعث بھائی کونہیں ‘ان کے علاج کو چھوڑ کر آیاہوں۔